میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاستوں کو چلانے کیلئے مختلف شعبوں میں نظام وضع کرنے پڑتے ہیں اور پھر ریاستوں کو ان نظاموں کےمطابق ہی چلایا جاتا ہے، جب نظام وضع کرلیے جائیں تو پھر اگر ان نظاموں سے ہٹ کر ریاست کو چلانے کی کوشش کی جائے تو ایسا کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ریاست میں معیشت کا شعبہ چونکہ سب سے اہم شعبہ تصور کیا جاتا ہے اس لیے ملکی معیشت کو چلانے اور ریاست کا پہیہ گھمانے کیلئے محاصل کا نظام اختیار کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر محاصل کا یہ نظام تباہ ہوجائے تو ملکی معیشت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب سے مہذب انسانی معاشرہ وجود میں آیاہے، تو ریاستوں کو چلانے کیلئے کسی نہ کسی صورت میں محاصل (ٹیکسز) کا تصوربھی موجود رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں ٹیکسوں کے سب سے قدیم نظام کا تصور قبل مسیح میںیونان اور روم میں ملتا ہے،زمانہ قدیم میں یونان میں بھی عام استعمال کی اشیاءپر ٹیکس لگایا جاتا تھا اورجنگ کے دنوں میں جائیداد پر بھی عارضی طور پر ٹیکس عائد کر دیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یونان اور روم کی سلطنتیں تو زوال پذیر ہوگئیں لیکن ان سلطنتوں میں ریاست کو چلانے کیلئے مختلف نظاموں کو نئی طاقتور سلطنتوں نے اپنا لیا، انہی نظاموں میں ایک ٹیکسز کا نظام بھی تھا،یورپ سے دوسرے ممالک تک ٹیکسز کا یہ نظام مختلف اشکال اور صورتوں میں منتقل ہوا۔ ٹیکس کا یہی نظام پاکستان میں بھی مستعمل ہے، لیکن غالبابدترین شکل میں موجود ہے، کیونکہ جب بھی ٹیکس لگایا جاتا ہے تو سرکار کی جانب سے یہی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان ٹیکسز کا عام اور غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے تو برملا کہہ دیا ہے کہ حالیہ منی بجٹ میں ٹیکس صرف لگژری (پرتعیش) آئٹمز (اشیائ) پر لگایا گیا ہے ، وزیر خزانہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ نئے ٹیکسز اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں حالیہ اضافے سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا! وزیر خزانہ اسحق ڈار کی اِس بات کو سچ مان لیا جائے تو ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ مکھن، بسکٹ، اور شہدضرورت کی اشیاءنہیں بلکہ پرتعیش اشیاءہیں۔ وزیر خزانہ کے بیان کیمطابق ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک بدو تک کے استعمال میں رہنے والا ”پنیر“ بھی اب ایک طرح کی عیاشی بن چکا ہے۔ وزیر خزانہ کے ارشاد کے بعد چلو یہ بھی طے ہوگیا کہ آئندہ سے شیمپو اور صابن کا استعمال بھی عیاشی تصور کیا جائیگا، آئندہ سے غریب آدمی شیمپو سے نہیں، بلکہ پرانا ٹوٹکا استعمال کرتے ہوئے دہی سے نہایا کرے، لیکن کیا کیا جائے کہ حالیہ منی بجٹ میں دہی بھی مہنگا کردیا گیا ہے، کیونکہ دہی کو بھی ایک طرح کی عیاشی تصور کرلیا گیا، چلیں غریب کو چاہیے کہ وہ کالے صابن سے نہایا کرے۔ ویسے غریب کو نہانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ غریب سے تو ویسے ہی ہر وقت بدبو کے بھبکے اٹھنے چاہئیں، اسی لیے تو ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھاکر پرفیوم اور ٹوتھ پیسٹ بھی مہنگی کردی گئیں ہیں۔
چلیں مان لیا کہ ایئرکنڈیشنز، ریفریجریٹرز اور سیٹلائٹ ڈش ریسیورلگژری آئٹمز ہیں اور ان پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھادی جائے تو عام آدمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چلیں یہ بھی مان لیا کہ مائیکرو ویواوون، مکمل آٹو میٹیڈ مشینیں، ایگزاسٹ فین، سگنل لینے والے آلات بھی پرتعیش اشیاءہیں اور ان پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے سے بھی کٹیا میں رہنے والے غریب کو کوئی سروکار نہیں ہے، لیکن اب ذرا غور کریں کہ جن اشیاءپر ریگولیٹری ڈیوٹی دس فیصد تک بڑھائی گئی ہے، ان میں ہر طرح اور ہر قسم کا پھل بھی شامل ہے اس لیے آئندہ کیلئے انجیر، امرود، آم، سنگترہ، مالٹا، کینو، گریپ فروٹ ، انگور اور لیموں کو پر تعیش پھل سمجھا جائےگا۔ آئندہ کیلئے سیب، اخروٹ، بادام، چیریز، آڑو، کیوی فروٹ، انار اور سٹرابیریز پر بھی غریب کا کوئی حق تصور نہیں کیا جائیگا۔حد تو یہ ہے کہ توت، شہتوت، تربوز، خربوزہ اور بیر تک کو لگژری اشیاءمیں شمار کرلیا گیا ہے۔ آلوچہ، کشمش، کوکو پاو¿ڈر، میٹھے والی اشیائ، انڈے سے بنی اشیائ، میکرونی، پاستا، پکا ہوا کھانا، جنجر بریڈ، میٹھے بسکٹ، رس، ٹوسٹڈ بریڈ اور بھنی ہوئی دیگر اشیاءبھی مہنگی کردی گئی ہیں، ظاہر ہے کہ غریب آدمی کو کیا حق ہے کہ یہ اشیاءاستعمال کرے۔ ہر طرح کی سبزیوں کو بھی عیاشی کے زمرے میں شمار کرلیا گیاہے، آئندہ غریب کیلئے ٹماٹر، ٹماٹر کا پیسٹ، ہر طرح کا اچار، کھمبی (مشرومز)، گھر میں اگائی سبزیاں، مٹر، گاجر، پھلیاں، گوبھی اور آلو سمیت تمام اقسام کی سبزیاں اورسرسوں کا استعمال بھی عیاشی قرار دے دیا گیا ہے۔اب سوپ کی تیاری،آئیس کریم، گوشت اور گوشت سے بنی مصنوعات، زیتون،تمام طرح کے جوس، سویا ساس، ٹومیٹو کیچپ، سکوائش، شربت ، منزل واٹر بھی عیاشی ہوگی۔ لپ اسٹک، نیل پالش، فیس پاو¿ڈر، فیس اینڈ سکن کریم اور لوشن، بالوں کے رنگ، بالوں کی کریم،پاو¿ڈر، پفز، شیونگ کریموں، آفٹر شیو لوشن، ریزر، سیفٹی ریزر، شیونگ بلیڈز، باڈی پرفیومز اور ایئر فریشنر کی سمجھ تو پہلے ہی تھی لیکن یہ راز کی بات اب سمجھ میں آئی کہ کھانے کے بعد ”خلال“ کرنا بھی عیاشی ہے۔
کانٹیکٹ لینز،سیلنگ فین، ایگزاسٹ فین، پیڈسٹل فین، الیکٹرک ٹیبل، الیکٹرک ڈیسک کی پہلے سے سمجھ تھی کہ یہ اشیاءبہت زیادہ تو نہیں لیکن بہرحال مہنگی ہوتی ہیں، لیکن کم سن بچوںکے کھیلنے کیلئے پہیوں والے کھلونے اور کم سن بچیوں کے کھیلنے والی گڑیا بھی عیاشی ہے۔ ماربل، گرینائیٹ،ٹائل اور جیبی ریڈیوکی عیاشی تو پہلے ہی مان چکے تھے، اب یہ بھی مان لیتے ہیں کہ موسم سرما کا سب سے سستا میوہ ”مونگ پھلی“ کھانا بھی عیاشی ہے۔ مفلر، نقاب، ٹائیاں، سلے سلائے ملبوسات، پردے، انٹیرئر بلائنڈز، سوتی و ریشمی اشیائ، چمڑے اور پلاسٹک کی پہننے والی بنی ہوئی اشیائ، مصنوعی زیورات،ہیر ڈرائیر، گھڑیاں، ورزش کرنیوالی مشینیںتو خیر پہلے بھی غریب آدمی استعمال نہیں کرسکتا تھا لیکن اب شیر خوار بچوں کے ڈائپرزصفائی کے تولیے اور برش کا استعمال بھی عیاشی قرار دے دیا گیا۔ اور تو اور شیشے کے موتیوں والی تسبیح بھی مہنگی کردی گئی ہے۔سب مل کر کہو! سبحان اللہ!
قارئین کرام!!ملک میں غریب کی کمر پر مختلف ٹیکسز کا بوجھ پہلے بھی کچھ کم نہ تھا۔ ان ٹیکسز کی اقسام دیکھیں تو پتہ چلتا ہے، دنیا میں کہیں اتنے زیادہ ٹیکس نہیں لگائے گئے جتنے پاکستان میں لگائے جاچکے ہیں۔ ان ٹیکسز میں انکم ٹیکس، پے رول ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، زرعی ٹیکس، کنزمپشن ٹیکس، ٹیرف (بین الاقوامی تجارت پر عائد ٹیکس)، فیسیں ، ٹول، سیلز ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، ایڈیشنل جی ایس ٹی، لیوی، کیپیٹل گین ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، ودہولڈنگ ٹیکس، ریگولیٹری ڈیوٹی، لیوی اور زرعی ٹیکس سمیت وہ کون سا ٹیکس ہے، جو غریب عوام پر نہیں لگایا گیا، لیکن اب نئے ٹیکسز لگانے کے ساتھ ساتھ پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔اب بھی جب حکومت نے آئی ایم ایف کے اہداف کی تکمیل کیلئے تقریباً 40ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے تو پرانا دعوی دہرانا نہیں بھولی کہ یہ ٹیکس 350پرتعیش اشیاءپر لگایا گیا ہے، جو عام آدمی استعمال نہیں کرتا۔ انسانوں کی بھی چلو خیر تھی،ڈار سرکار نے انسانوں کے بعد اب کتوں اور بلیوں کی خوراک کو بھی پرتعیش اشیاءمیں شمار کرلیا ہے۔نجانے وہ کون سے حکمران تھے جو دریائے فرات کے کنارے بھوک سے کتے کی موت پر بھی کانپ اٹھتے تھے۔ اب تو بھوکے کتوں کا خوف بھی گیا۔
بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت