اقوام متحدہ کیلئے بڑا چیلنچ ،کثیرالجہتی کا تحفظ
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں عالمی ادارے کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پرمنعقد ہونے والے اجلاس سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئترس نے اپنے خطاب میں کہا ، ” ہم نے جدید تاریخ میں کبھی بھی بڑی طاقتوں کے مابین فوجی تصادم کے بغیراتنے سال نہیں گزارے ۔”
اگر چہ نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ، بیماریوں کا خاتمہ ، غربت کا خاتمہ اور ماحولیاتی تحفظ کے فروغ کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت اقوام متحدہ کے بڑے کارنامے رہے ہیں تاہم اول الذکر کا میابی بلاشبہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی کامیابی رہی ہے۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اقوام متحدہ کے تما م 193 اراکین نے بیک آواز اقوام متحدہ کے مرکزی کردار اور کثیر الجہتی کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔اور جاری کردہ اعلامیے میں بھی کہا گیا ہے کہ "کثیر الجہتی ایک آپشن نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے”۔ تاہم اقوام متحدہ کے سربراہ نے افسوس کا اظہار کیا ، "کہ کثیرالجہتی مخالف چیلنجز زیادہ اورحل کم ہیں "۔
اس وقت نوول کورونا وائرس سےبرسر پیکار دنیا کیلئے اصل امتحان کثیر الجہتی سے متعلق اعلامیے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔یہ امر قابل افسوس ہے کہ اس اہم موضوع پر امریکی صدر نے لب کشائی کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جس سے اس اہم موضوع پر تقسیم کی وسعت کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ اس کے بجائے ، اقوام متحدہ کے قائم مقام نائب سفیر نے اس موقع کو امریکی انتظامیہ کی معروف شکایات نشر کرنے کے لئے استعمال کیا۔
صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں مسائل حل کرنے، ٹھوس نتائج پر توجہ دینے اور بڑے ممالک کو "مثالی کردار اداکرنے” پر زور دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر ” تنازعات کو بات چیت سے ، جبر کو صلاح مشورے سے اور زیرو سم گیم کو جیت جیت سے تبدیل کرنے ” کے موقف کا اعادہ کیا۔
تاہم آج کی عالمی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ان انتہائی تعمیری تجاویز پر عمل درآمد بہت مشکل لگ رہا ہے۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ایک خاص اہم ملک ایک بہت بری مثال قائم کر رہا ہے ؛ عالمی حکمرانی کو چیلنج کررہا ہے ؛بین الاقوامی تعلقات کے مروجہ قواعد و ضوابط اور اور اس مقصد کے لیے قائم اداروں کو ایک طرف رکھ رہا ہے؛ استثنیٰ اور دوہرے معیار کے فسادی راستے پر گا مزن ہے اور کثیر الجہتتی کی جگہ یکطرفہ پسندی کو دے رہا ہے ۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے خوب کہا ہے کہ "اقوام متحدہ اسی صورت مؤثر رہیگا جب اس کے ارکان متحد رہیں گے "۔ بڑے ارکان خصوصا سلامتی کونسل سطح کے ارکان کے درمیان اختلاف ، اقوام متحدہ کے راستے میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے۔
وبا سے لے کر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات تک کسی بھی سلگتے مسئلے کو اس وقت تک حل نہیں کیاجاسکتا جب اہم حصہ داروں کے درمیان اتفاق رائے قائم نہ ہو ۔
ا سلئے اقوام متحدہ کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں 1945 جیسےلمحے کا سامنا ہے۔ "ہمیں اس لمحے کی آزمائش پر پورا اترنا ہوگا۔ ہمیں آج کے چیلنجوں پر قابو پانے ، دنیا کو متحرک رکھنے اور دوبارہ خوشحال بنانے کیلئے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔”
چینی صدر نےاسی حقیقت کو کچھ یوں بیان کیاہے، "علاج ہونا چاہئے ، صرف تھراپی نہیں”؛” یہ وقت ممالک کیلئے عمل کا ہے ، صرف باتوں کا نہیں”