روس، ایران پر زیادہ مہربان کیوں؟

گذشتہ ہفتے ترکی کی جانب سے روس کا جنگی طیارہ مار گرئے جانے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب روس اور ایران کے تعلقات میں کچھ عرصہ سے زیادہ قربت اور گہرائی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
شام کی خانہ جنگی میں روس اور ایران کا مفاد مشترکہ ہے، یعنی بشار الاسد کی مدد اور اس کے اقتدار کا تحفظ، اور یہی عنصر دونوں ملکوں کی بڑھتی ہوئی دوستی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ایران ان قریبی تعلقات کا زیادہ سے زیادہ اظہار کرنا اور روس کی دوستی اور نوازشات کی نمائش چاہتا ہے، تاہم چند نکات ایسے ہیں جو اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔
۱۹۷۹ کے اسلامی انقلاب کے دوران سب سے ذیادہ مقبول نعرہ تھا، "نہ مشرق، نہ مغرب، صرف اسلامی ری پبلک”۔ اس کا مطلب تھا کہ ایران نہ صرف مغربی طاقتوں سے چھٹکارا چاہتا تھا بلکہ بڑے مشرقی ممالک سے بھی، یعنی سوویت یونین۔ بے شک آج نہ سوویت یونین کا وجود ہے اور نہ ہی روس ایک کمیونسٹ ریاست کے طور پر باقی رہا ہے، مگر اس کا نظریہ آج بھی زندہ اور انہی بنیادوں میں موجود ہے۔ مغربی تہذیب اور اس کے طرز جمہوریت سے بیزاری اور ناپسندیدگی کے باوجود ایران کا مغربی ممالک کی جانب جھکاؤ سیاسی اور اقتصادی طور پر زیادہ قابل فہم ہے۔
ایرانی معاشرے کے کئی حصے خاص طور پر روسیوں کے بارے میں عدم اعتمادی کا ایک گہرا احساس رکھتے ہیں۔ بحیرہ کیسپین میں ایرانی تیل اور گیس کے ذخائر ایران اور روس کے درمیان ہمیشہ سے وجہ نزاع بنے رہے ہیں، اور اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں اسلحہ کے کئی سودے بھی نا خوشگوار رہے ہیں۔
ماسکو کے ساتھ ایس۔۳۰۰ میزائل کا متنازع سودا جس کے ذریعے ایران ایک مؤثر دفاعی نظام کی تنصیب کا خواہاں تھا، آج ایران میں زبان زد عام ہے جسے وہ روسیوں کی مفاد پرستی کی ضرب المثل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔۲۰۰۷ میں ہونے والے۸۰۰ ملین ڈالر کے ایک معاہدے کے تحت روس ایران کو ایس ۔۳۰۰ میزائلوں کے پانچ توپ خانے فراہم کرنے کا پابند تھا۔ مگر اس نے ۲۰۱۰ میں میزائلوں کی فراہمی معطل کر دی جس پر ایران نے روس کے خلاف بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں چار ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔ میزائلوں کی فراہمی معطل کرنے کا فیصلہ اس وقت کے صدر دمیتری میدودوف نے کیا تھا۔
گزشتہ جولائی میں ویانا میں ہونے والے امریکہ اور ایران کے تاریخی ایٹمی معاہدے کے بعد ستمبر میں ایران نے روس کے ساتھ میزائلوں کی فراہمی کے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے تھے مگر اس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی فوج کی نظر میں ایس۔۳۰۰ میزائل اب اتنے پسندیدہ نہیں رہے ہیں، جتنے ۲۰۰۷ میں تھے کیونکہ اب روس نے ان سے بدرجہا بہتر اور اعلی تکنیکی خصوصیات کے حامل ایس۔۴۰۰ میزائل بنا لئے ہیں۔
مغرب پر سبقت کی خواہش
بہت سے ایرانیوں کا خیال ہے کہ روس اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئے قیمتی زر مبادلہ کمانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ایران پر سے عالمی اقتصادی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ روس کی خواہش ہے کہ مغربی اسلحہ ساز اداروں کے پہنچنے سے قبل وہ ایران کے ساتھ جس قدر سودے کر سکتا ہو کر لینا چاہئے۔
جب ایران پر عالمی اقتصادی پابندیاں عاید تھیں اور اس کا ایٹمی پروگرام پوری رفتار سے جاری تھا، اس وقت روس، جنوبی ایران میں بوشہر ایٹمی پلانٹ کی تعمیر کے ٹھیکے سے خطیر رقم حاصل کر رہا تھا۔ مگر ستم ظریفی یہ کہ روس نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ووٹ بھی دیا تھا۔
روسی صدر پیوٹن نے حالیہ دورہ ایران میں اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک شراکت داروں کے ساتھ معاہدوں کی پابندی کرے گا اور ان کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اور روس کا تعاون شام کی جنگ میں ان کی شرکت کے دورانیے سے زیادہ عرصہ جاری رہتا ہے یا نہیں!؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے