صارفین جاگ جائیں

 دنیا بھر میں لوگ اپنے انفرادی اور اجتماعی حقوق کے لئے لڑتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ورکشاپس کرواتے ہیں اور اپنے ساتھی لوگوں میں عزت اور غیرت کا مادہ بیدار کرتے ہیں۔ دنیا کی کوئی حکومت اس وقت تک نہیں چلتی جب تک اس کی رعایا سوئی رہے۔ اور جب رعایا سوئی رہے تو پھر حکومت ہر کام میں حق بجانب ہے کہ ٹیکس لگائے یا نہ لگائے۔ پھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہو یا کوئی مفتی کسی کو کوئی حق نہی پہنچتا کہ وہ ان لوگوں پہ اپنے اوپر ہونے ظلم کی وجہ سے طعن کریں۔

ہر پانچ سال بعد ایک نیا بندہ ایک نئے منشور کے ساتھ ایک مقدس حلف اٹھاتا ہے اور ہم بیچارے اندھے گونگے اور بہرے اس کے ہاتھوں اپنا سرمایہ لٹوا کے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہوتے ہیں اور فحش گالیاں بک رہے ہوتے ہیں۔

بھائی وہ عمر الفاروق چلے گئے۔ اب عوام کے گھر میں بچہ، بلکہ سڑک پہ بچہ بلک کہ مر جائے تو کچھ نہیں ہوتا۔ کسی کے گھرکی روٹی پکتی ہے تم مرو یا جیو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

آج کا یہ کالم ایک عوامی آگہی کے سلسلے کی کڑی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ کنزیومر کورٹ (صارفین کی عدالت) سے واقف ہوں گے۔ لیکن ہم نے قسم کھائی ہے کہ بستر پہ یا کسی مذہبی شدت پسندی یا سیاسی سانحے کا شکار ہو کے ہی خجل خوار ہونا ہے اور مرنا ہے۔

ہم دنیا میں آگئے ہیں۔ بہت جلد ہم جانے والے ہیں۔ ہم نے اس دنیا میں صرف انفرادی زندگی نہیں گزارنی بلکہ ایک اجتماعی زندگی بھی گزار کے جانا ہے اور اس کے لئے ہم نے جواب دہ ہونا ہے کہ ہم نے اپنے اردگرد ظلم اور نا انصافی کو دیکھ کہ تحریک انصاف بنائی یا کہ اس ظلم کے خلاف اپنی کوئی کوشش بھی کی۔

خیر پرویز الہی صاحب کا یہ اور رسکیو والا کام قابل ستائش ہے لیکن ہم نے قسم کھالی ہے کہ ہم نے آگا دوڑ اور پیچھا چوڑ والا کام ہی کرنا ہے۔ نئے نئے پراجیکٹ شروع کیئے جا رہے ہیں اور ہر سال ایک بھدہ سا اشتہار چھپوا کہ لگوا دیا جاتا ان صارفین کی عدالت سے متعلق،
اور اورنج ٹرین اور پتا نہیں کس کس بکواس کی تشہیر اس درجے میں کی گئی ہے کہ پتہ نہی اس نے ساتھ گڑ بھی بنانا ہے۔

خیر اس میں ان عدالتوں کے متعلق تھوڑا سا تعارف کروادیں کہ عدالت کے نام سے ڈرا مت جائے۔ اس میں کسی وکیل وغیرہ کی ضرورت نہی ہوتی اور اگر بفرض محال کوئی وکیل کرنا بھی پڑ جائے تو آپ کے دعویٰ کی رقم اور وکیل کا خرچہ بھی حکومت دیتی ہے اور وہ بندہ جس نے دھوکا کیا ہے آپ کے ساتھ اس کو بھاری جرمانہ بھی کیا جاتا۔

اس میں چند باتیں یاد رکھنے کی ہیں۔ اگر تو
اول: دکاندار کسی خریداری کی سلپ نہیں فراہم کرتا
دوم: کوئی حکومت کی جاری کردہ قیمت والی فہرست نہیں دکھاتا
سوم: کسی بھی چیز کی ایکسپائری ڈیٹ ختم ہوجائے اور وہ چیزبیچی جائے
چہارم: کوئی گھٹیا چیز آپ کو بیچی جارہی ہے
پنجم: آپ کو وارنٹی دے کے دکاندار مکر جاتا ہے
ششم: اشتہارات میں کچھ اور کوئی اور چیز بیچی جاتی ہے
ہفتم: کوئی زیادہ پیسے لیتا ہے آپ سے
ہشتم: کسی گاریگری وغیرہ کے کام سے آپ مطمئن نہیں

ان تمام صورتوں میں ایک کورے کاغذ پر ساری معلومات لکھ کر جس پر آپ کا نام، رابطہ نمبر، رابطے کا پتہ اور شناختی کارڈ والی معلومات درج ہوں۔ نیچے دیے گئے پتے پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

اس سلسلے میں چار باتیں بہت یاد رکھیں:
اول: جتنا بھی آپ کا ضیاع ہوا ہے خواہ وہ ذہنی اذیت ہو یا کوئی چیز مثلاََ یو پی ایس خراب نکل آٰیا۔ اس نے آپ کو کتنے چکر لگوائے وغیرہ وغیرہ۔
دوم: اس نقصان کے تیس دن کے اندر اندر آپ کو حق حاصل ہے اس درخواست کو دائر کرنے کا۔
سوم: صارفین کی اس عدالت کے فیصلے سے اگر آپ مطمئن نہیں تو ہائی کورٹ میں اپیل آخری فیصلہ کے تیس دنوں میں کی جاسکتی ہے۔
چہارم: آپ نے اگر کسی کو اپنا ہاتھ دکھایا یا ستاروں کا احوال معلوم کیا تو اس کے خلاف یہ عدالت کچھ نہیں کرسکتی۔

اس سلسلے میں پتہ جات درج زیل ہیں:
اول: لاہور: تین سو ساٹھ رضوان باغ لاہور (360 Rizwan Garden Lahore)
دوم: اسکے علاوہ پونچھ ہاوس چوبرجی، ملتان روڈ پہ بھی انکا آفس موجود ہے۔ (Poonch house chuburji multan road, Lahore)
فون نمبر:
042-99213695

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے