عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات، پارٹی رہنماؤں کی عدم دلچسپی، کارکنوں کو متحرک نہ کرنے اور روابط کے فقدان کے باعث پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا پشاور شو اپنے گزشتہ کامیاب جلسوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا۔ جس کے باعث مختلف سیاسی جماعتوں نے پارٹی سطح پر اس جلسہ کی ناکامی کا نوٹس لیا ہے۔ یہ تمام جماعتیں اس بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کے خاتمہ کے لئے مشترکہ حکمت عملی پر زور دیا جائے اور ہر پارٹی کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اس سے انحراف نہ کر سکے۔
[pullquote]پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات کیا ہیں؟[/pullquote]
نومبر کے اوائل میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ہمایون خان کی رہائش گاہ پر پی ڈی ایم صوبائی قیادت کا اجلاس ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ جلسہ کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ اجلاس کے اختتام پر ایک سیاسی جماعت کے اہم رہنما نے راقم الحروف کو بتایا کہ جمعیت علماء اسلام عوامی نیشنل پارٹی کی موجودہ صوبائی قیادت بالخصوص صوبائی صدر ایمل ولی خان کے پے دے پے مخالفانہ بیانات کی وجہ سے تحفظات رکھتی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کے جلسہ کی میزبانی کے دعویدار ہیں۔ ایمل ولی خان کے بیانات کے باعث جی یو آئی (ف) اے این پی کو میزبانی دینے میں روڑے اٹکا رہی تھی تاکہ مؤخرالذکر اس کا کریڈٹ نہ لے سکے۔ ’’جلسے کے دن دیکھ لینا، اختلافات کھل کر سامنے آئیں گے۔‘‘
اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ستمبر کے آخر میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف بیان داغتے ہوئے کہا تھا کہ نیب مولانا فضل الرحمٰن کے اثاثوں کی بھی تحقیقات کرے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایک عوامی اجتماع میں بھی کئے۔ اکتوبر میں ایمل ولی خان نے توپوں کا رُخ مسلم لیگ (نواز) کی جانب موڑ دیا۔ ایک جلسہ کے دوران جوشِ خطابت میں میاں نواز شریف کو مشورہ دے ڈالا کہ اگر انہوں نے عوامی سیاست کرنی ہے تو لندن کی بجائے پاکستان میں عوام کے درمیان آئیں۔
کچھ عرصہ قبل جب متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کسی شخص یا ادارے کے بیان دیتے تو اگلے دن پارٹی رہنما اور کارکنان کئی دن تک اس کے لئے تاویلیں گھڑتے رہتے۔ اے این پی کے صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور سے جب ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایمل ولی خان نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ سب کچھ کہا تھا۔ جب ان کی تصحیح کی گئی کہ ایمل ولی خان نے یہ سب کچھ ایک جلسہ عام میں ارشاد فرمایا ہے تو کہنے لگیں: ’’ہماری پارٹی کا اپنا ایک سٹینڈ ہے اور اس بیان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
بائیس نومبر کی شب جے یو آئی نے راقم الحروف سے بات چیت کے دوران کہا کہ اے این پی کی قیادت سمیت کارکنوں کا سرخ لباس پشاور جلسہ میں آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ اے این پی کو پتہ چل گیا ہو گا کہ سیاسی جماعتیں صرف سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ عملی میدان میں اپنی قوت دکھاتی ہیں۔ پی پی پی کے اہم صوبائی رہنما کے مطابق پشاور جلسہ میں ان کی جماعت اندرونی طور پر بھی شدید اختلافات کا شکار رہی۔ جلسہ میں صرف مالاکنڈ اور دِیر کے کارکن نظر آئے باقی اضلاع میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے کارکن سرے سے جلسے میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جے یو آئی نے بھی کارکنوں کی بجائے صرف تنظیم کے عہدیداران کو جلسے میں شرکت کا کہا تھا جبکہ پارٹی ک کے عام ورکرز نے اس جلسہ میں شرکت نہیں کی۔ کچھ عرصہ قبل جے یو آئی نے اسی مقام پر پی ڈی ایم کے جلسے سے سات گُنا بڑے جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔
[pullquote]بد نظمی: [/pullquote]
پی ڈی ایم کے پشاور جلسے میں بدنظمی pic.twitter.com/K5YsP31c3R
— IBC URDU (@ibcurdu) November 23, 2020
بائیس نومبر کے پی ڈی ایم کے جلسہ میں سٹیج سمیت کارکنان کا آخری صف تک شدید بد انتظامی دیکھنے میں آئی۔ سٹیج کی سیکیورٹی کے لئے جے یو آئی نے جن رِضا کاروں کی ذمہ داری لگائی تھی صبح ان کی لڑائی مسلم لیگ اور بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی کے ورکرز سے ہوئی۔ شدید ہنگامہ آرائی کے دوران لاتوں مکوں کے علاوہ ڈنڈوں کا فراخ دلانہ استعمال کیا گیا۔ سٹیج تک پہنچنے کے لئے جب عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی قیادت نے جے یو آئی کی قیادت سے شکوہ کیا تو تمام سیاسی جماعتوں کے لئے نرمی کا آغاز کیا گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ ہر پارٹی کا یونین کونسل کی سطح تک کا رہنما بھی پانچ چھ کارکنوں کے ساتھ سٹیج پر جا چڑھا۔ سٹیج سیکرٹری بھی وقتاً فوقتاً بدلتا رہا۔ ڈی جے بٹ کو معلوم ہی نہ ہو پا رہا تھا کہ اب کس جماعت کے رہنما کے بولنے کی باری ہے تاکہ ان کی پارٹی کا گانا چلایا جا سکے۔ ایک موقع پر جے یو آئی (ف) کے سابق ایم پی اے اور بلاول بھٹو زرداری کے سیکورٹی اہلکاروں کے درمیان سٹیج نے اکھاڑے کی صورت اختیار کر لی۔
پنڈال میں کارکن صرف سٹیج کی حد تک محدود تھے۔ سٹیج پر جو رہنما اپنی پارٹی کے نعرے لگاتا او کے پیچھے کھڑا ایک ہمنوا اس کا جواب دینے کو مستعد دکھائی دیتا، باقی خیر خیریت تھی۔
[pullquote]رہنماؤں کی تقاریر کا محور:[/pullquote]
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے بیشتر رہنما کسی نئی حکمت عملی کی بجائے پرانے موضوعات کا راگ اپلاتے رہے۔ اختر مینگل، امیر حیدر ہوتی اور مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ کوئی بھی رہنما اپنے ورکر کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکا۔ بلاول بھٹو زرداری تقریر میں الیکٹڈ اور سلیکٹڈ کا تواتر سے استعمال کرتے رہے۔ آفتاب شیرپاؤ افغانستان کے موضوع میں پھنسے رہے، محمود خان اچکزئی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف روایتی انداز میں تقریر کرتے رہے۔ روایتی موضوعات، گھسے پٹے جملوں کو بے دریغ استعمال، تقاریر میں یکسانیت اور دیگر کئی وجوہات کے باعث جلسہ کے شرکاء اور رہنماؤں کے مابین رابطہ دیکھنے میں نہ آیا۔
[pullquote]کتنے آدمی تھے؟[/pullquote]
پی ڈی ایم پشاور جلسہ کے متعلق مختلف رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ اس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ لیکن کیا تعداد واقعی لاکھوں میں تھی؟ مختلف افراد کی رائے اس بارے میں لی گئی تو سب کا کہنا تھا کہ جلسے میں شرکاء کی تعداد دس ہزار سے کم تھی۔ جس میں ستر فیصد سے زائد لوگ جی یو آئی (ف) کے تھے۔ بار بار سٹیج سے رہنما ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کے الفاظ استعمال کرتے رہے لیکن سٹیج سے پانچ سے میٹر کی دوری پر اس تلاطم خیز سمندر کا ساحل آن پہنچتا۔ دس دس پندرہ پندرہ افراد کی ٹولیاں مختلف مقامات پر بیٹھی پائی گئیں جن کو بعد ازاں ڈی جے بٹ نے بھی جلسے کی سکرین پر دکھانا چھوڑ دیا۔ ورکرز میں جے یو آئی (ف) کے صرف ضلعی کابینہ کے لوگ شامل تھے، اے این پی مردان پشاور اور چارسدہ کے کارکن تو کسی حد تک دکھائی دیئے لیکن جو دعوے جلسہ سے قبل کئے گئے تھے ان کے اثرات کہیں بھی دکھائی نہیں دئیے۔