"تحریک پاکستان اور سید مودودی”درحقیقت ان موضوعات میں ہیں جس پربہت کچھ سپردقرطاس کیا گیا ہے۔مولانا مودودی کے مخالفین جو بڑی ڈھٹائی سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ مولانا مودودی تحریک پاکستان کے مخالف تھے۔جو محض ایک دعوی ہے .ایک ایسا دعوی ہے جس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ امریکہ کا صدر نواز شریف ہے۔اس مختصر مضمون میں تحقیقی موضوع کی گھتیاں سلجھائی نہیں جاسکتیں اور میں اس کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ لیکن دیانت سے تہی دامن لوگوں کے بھونڈے دلائل نے مجھ جیسے نکمے کو جواب دینے پر مجبور کردیا ہے۔
ہم یہاں سردست چند امور کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔تحریک پاکستان کا حقیقی دورانیہ 10جولائی سے 3جون 1947 تک ہے۔اس سے پہلے قائداعظم مع مسلم لیگ کی قیادت شدید تذبذب کا شکار تھے۔یہ دورانیہ قرارداد پاکستان سے لیکر1946تک ہے۔یعنی قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد مارچ 1946 تک قائداعظم کے تذبذب بلکہ صحیح معنوں میں اضطراب کی یہی کفیت رہی۔اصل میں یہ اضطراب ہندوستاں میں رہ جانے والے مسلمانوں کی وجہ سے تھا۔
اس ٹوٹی پھوٹی تمہید سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس پاکستان میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے سید مودوی اور جماعت اسلامی کو مطعون کیا جاتا ہےاس کا حقیقی دورانیہ 1946سے 1947تک ہے۔اس دورایئے میں اعلان کردیاگیا تها کہ ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کردیاجائےگا۔اس میں صوبہ سرحد کا ریفرینڈم بھی شامل ہے۔ایک استفسار کے جواب میں سید مودودی نے جماعت اسلامی کے ارکان پر یہ عندیہ ظاہر کردیا تها کہ اگر میں صوبہ سرحد کا باشندہ ہوتا تو پاکستان کے حق میں ووٹ دیتا۔
رہا مارچ1940 سے جولائی 1946 تک کے عرصہ میں پاکستان کے متعلق سید مودودی اور جماعت اسلامی کے موقف کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب مطالبہ پاکستان اور مخالفین (مخالفین سے قارئین بخوبی واقف ہیں)نے اسے یہودیوں کی طرف سے اپنا قومی وطن قائم کرنے کے مطالبے سے تشبیہ دی تو سید مودودی نے اس کی تردید کی اور تفصیل کے ساتھ بتایا کہ یہودیوں کا فلسطین کو اپنا قومی وطن قرار دینے کا مطالبہ سراسر ناجائز ہے۔اس کے بر عکس مطالبہ پاکستان بلا شبہ ایک جائز مطالبہ ہے اور ہندوسان کے مسلمان اگر ہندوستان میں اپنا آزاد قومی وطن بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں تو قومی نقطہ نظر سے بالکل جائز اور درست ہے.
قرادارپاکستان کی منظوری سے پندرہ مہینے پہلے سید مودودی نے مسلمانان ہند کے حل کیلئے تین تجاویز پیش کیں۔جنہیں شریف الدین پیرزادہ نے پاکستان کی شاہراہ کے سنگ ہائے میل سے تعبیر کیا ہے ۔ان میں پہلی دو تجاویز بڑی مفصل ہیں۔
پہلی تجویز میں تہذیبی بنیاد پر مسلم علاقوں کو انڈین وفاق کے ساتھ جوڑا گیاتھااور دوسری تجویز میں کنفیڈریشن کے ذریعے ۔جبکہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان کی اسکیم ان سے مختلف تھی۔اس میں انہوں نے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تمام مسلم تہذیبی خطوں کو نظرانداز کرکے صرف شمال و مغرب کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک ایسی ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔جو ہندوستان سے تو علیحدہ تھی،لیکن اسے انگلستان کے ساتھ وابستہ کردیاتھا۔اس لحاظ سے سید مودودی کی تیسری تجویز سب سے ارفع و اکمل تھی اور منفرد نوعیت کی حقیقت پسندانہ تجویز تھی۔اس میں تقسیم ملک کے بعد جو ریاست قائم ہونا تھی وہ مکمل طور آزاد اور ہر اعتبار سے خودمختار تھی
ان میں سے پہلی دو تجاویز سے سید مودودی کی سیاسی بصیرت، ہندوستان کے اصل مسلے پر گہری نظرکا پتہ چلتا ہے۔سید مودودی کی پہلی تجویز کی توثیق اقبال کے پیش کردہ اسکیم سے بھی ملتی ہے۔تاہم علامہ اقبال مولانا راغب احسن کے نام مکتوب میں خود وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں
"میں اس خط جس کے ساتھ اپنی کتاب کے بارے میں ایڈورڈ تھامسن کا تبصرہ ارسال کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔براہ کرم نوٹ فرمائیے کہ اس تبصرے کا مصنف اس مغالطے کا شکار ہے کہ جسے میری تجویز پاکستان کی اسکیم سے تعلق رکھتی ہے۔جہاں تک میری تجویز کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا وفاق کے اندر ایک مسلم صوبہ تجویز کیا جائے۔جبکہ مسلم لیگ کی اسکیم کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے شمال و مغرب کے مسلم صوبوں کا ایک ایسا وفاق تشکیل دیا جائے جو انڈین فیڈریشن سے علیحدہ ہو اور انگلستان سے براہ راست وابستہ ہو