شام میں مرنے والے ایرانی جنگجو اور ایک تزویراتی تبدیلی

پچھلے چند ہفتوں کے دوران شام میں بشار الاسد حکومت کے تحفظ کی خاطر باغیوں کے خلاف لڑنے والے ایرانی جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘فارس’ کے مطابق مرنے والے جنگجوؤں میں ایران کے پاسدران انقلاب کورکے کئی ارکان بھی شامل ہیں جو پچھلے چند روز میں شمالی شہر حلب میں مارے گئے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایران، شام میں لڑنے کے لیے القدس فورس کے بجائے پاسداران انقلاب کور پر زیادہ انحصار کر رہا ہے جس کے سو سے زیادہ ارکان اب تک مارے جاچکے ہیں جن میں کئی سرکردہ جنرل بھی شامل ہیں۔ سرحد پار فوجی مہمات اور غیر ملکی فوجی مشن کی بجا آوری القدس فورس کا کام ہے جو تقریباً ۱۵۰۰۰ جنگجووں پر مشتمل ہے جبکہ پاسداران انقلاب کور کی تعداد ۱۰۰۰۰۰ ہے جس کی ماتحتی میں تقریباً ۳۵۰۰۰۰ ارکان پر مشتمل پیرا ملٹری باسیج ملیشیا بھی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی ایٹمی معاہدے کے بعد ایرانی فوجی نظریے میں تیزی سے بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جو ایرانی فوجی عملداری کے پورے خطے میں پھیلأو، زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اور تہران کی علاقائی بالادستی کے ازسر نو دعوی کو عیاں کرتی ہیں۔ اگرچہ ایرانی لیڈر یہ ظاہر کرتے ہیں کو وہ داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں لیکن ایرانی جنگجو داعش کے مقبوضہ علاقوں کے قریب بھی کہیں نہیں ہیں۔ اس کے بر عکس ایرانی ملیشیائیں شامی باغی گروپوں یعنی فری سیرین آرمی (یعنی ایف ایس اے) کے خلاف لڑ رہی ہیں تاکہ انہیں دمشق، حلب اور لاطاقیہ میں پیشقدمی اور مزید علاقوں پر قبضہ کرنے سے روکا جا سکے۔ ان شہروں پر باغیوں کے قبضے کے خطرات کے پیش نظرایران یہاں اپنی زمینی فوج کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔
ایرانی مداخلت عوام کی نظر میں
ایران کی شام میں فوجی مداخلت ملک کے متوسط طبقے میں خاصی غیر مقبول ہے۔ شیراز سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن نیما کا کہنا ہے کہ ‘حکومت عراق اور شام میں جنگ لڑنے کی خاطر فوجی بجٹ میں اضافوں، اور پاسدران انقلاب کور اور باسیج ملیشیا میں بھرتیوں کے لئے جواز تلاش کر رہی ہے، جبکہ ایرانی عوام شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں اور صدر روحانی کے دور میں بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے’۔
دوسری جانب ایرانی حکومت پچھلے کئی ماہ سے داعش کے خطرات اور پیرس حملوں جیسے واقعات کی پڑے پیمانے پر تشہیر کے ذریعے عوام کے سامنے بیرون ملک فوجی مداخلت کے لیے جواز پیش کر رہی ہے اور ان امکانات سے خوفزدہ کر رہی ہے کہ اگر ایرانی فوج شام اور عراق میں لڑنا بند کردے تو سنّی انتہا پسند گروپ شیعہ آبادیوں اور تہران پر قابض ہو جائیں گے۔ پچھلے چند ماہ سے ایران کے سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا کی رپورٹس میں شام میں فوجی مداخلت کے بارے میں ایک حیران کن اور نمایاں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ اس سے قبل ایرانی میڈیا اور حکام ہمیشہ یہی کہتے آئے تھے کہ شام میں پاسداران انقلاب اور ایلیٹ القدس فورس کی سرگرمیاں صرف مشاورتی نوعیت کی ہیں جن کا دائرہ کار جنگی چالوں میں تعاون، تزویراتی منصوبہ بندی، اور انٹیلی جنس کی فراہمی تک محدود ہے۔
لیکن پچھلے چند ہفتوں سے شام میں مرنے والے ایرانی فوجی افسران کے عوامی جنازوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای بھی اس معاملے میں کھل کر بول اٹھے۔ ایک ٹویٹ پیغام میں انہوں نے ایک ایرانی جنگجو کی شام میں ہلاکت کا اعلان کیا اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ اپنی تصویر پوسٹ کی اور ان سے اظہار تعزیت کیا۔
پینترا بدلنا
شام میں ایرانی جنگجوؤں کی اموات میں اضافے اور حکام کے پینترا بدلنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ ۲۰۱۵ کے اوائل میں بشار الاسد کی فوج اور القدس فورس کو کئی بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ داعش کی قوت میں اضافہ اور دیگر باغی گروپوں کی پیشقدمی تھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر ایرانی قیادت اس پر مجبور ہوئی کہ روس سے شام میں فوجی مداخلت اورایرانی جنگجووں کی مدد کی درخواست کرے۔ القدس فورس کے سربراہ اور ایران کے صف اول کے جنگی ماہر جنرل قاسم سلیمانی نے روس کا ہنگامی دورہ کرکے پیوٹن سے ملاقات اور شام میں فوجی مدد کی درخواست کی۔
روس کی بہتر فوجی صلاحیت اور ہتھیاروں میں بر تری کی وجہ سے شام کے کئی شہروں خصوصاً لاطاقیہ میں ایران کے اثر ورسوخ میں خاصی کمی آئی۔ ایرانی جنگجوؤں کی شام میں بشار الاسد کی فوج کے ساتھ مسلح شراکت کو عوامی سطح پر تسلیم کئے جانے کے بعد اب ایران کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ شام میں اپنی مسلح موجودگی کو مستحکم کرے۔ روس کے بڑھتے ہوئے فضائی حملوں کو شام میں زمین پر موجود ایرانی پاسدران انقلاب کے کمانڈروں کی بھرپور اور مربوط معاونت حاصل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایرانی ہلاکتوں میں اضافہ ناگزیر ہے، جبکہ دوسری جانب بشارالاسد اپنی بقاء کے لئے پاسدران انقلاب ، القدس فورس اور روس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
داعش کے عروج سے قبل ایران نے ہمیشہ اسے معمولی اور غیر اہم ظاہر کیا تھا کیونکہ تہران کے پاس اپنی فوجوں کی شام میں موجودگی کا جواز نہیں تھا۔ ایرانی قیادت مغرب اور دوسری علاقائی قوتوں سے براہ راست ٹکرأو کے بارے میں بھی فکر مند تھی اور اسی لیے ایٹمی معاہدے کے مذاکرات کو ناکام بنانے کی بھی کوشش کی تھی۔ مگر معاہدہ ہوجانے اور داعش کے عالمی سرخیوں میں آ جانے کے بعد یہ پالیسی بھی تبدیل کر دی۔
آخر میں، بالادستی کا حصول ایرانی پالیسی کا اہم جزو ہے اور اس عزم کی خاطر وہ علاقائی غلبے اور طاقت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ایرانی فوج کی شام میں موجودگی کے اعلان سے تہران اس تنازع میں اپنے کردار کی اہمیت کا اظہار کر رہا ہے اور انتہا پسندوں سے لڑنے کے لئے مغرب کی طرف خود کو ایک ناگزیر علاقائی فریق اور پارٹنر کے طور پر پیش بھی کر رہا ہے۔ نتیجتاً مغرب کے پاس اس کے سوا اور کوئی قابل عمل راستہ نہیں ہوگا کہ وہ ایران کی علاقائی مداخلت اور بالادستی کے حصول کی پالیسیوں سے نظریں پھیر لے۔
اگرچہ کچھ تجزیہ نگار اور دانشور یہ کہتے ہیں کہ اپنے فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی وجہ سے ایران، شامی فوج کا ساتھ دینے کے طریقہ کار میں تبدیلی کر سکتا ہے، مگر یہ امکان بہت کم ہے کہ بشار الاسد کی حمایت کی پالیسی میں تبدیلی کرے کیونکہ بشار کو اقتدار میں باقی رکھنے میں تہران کا بہت کچھ دأو پر لگا ہوا ہے۔ اس کی خاطر ایران شامی فوج کے ساتھ مزید کئی سال تک فوجی، مالی، انٹیلی جنس اور تزویراتی تعاون کر سکتا ہے۔
بشکریہ:العربیہ ڈاٹ نیٹ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے