صحابہ کی انگوٹھیوں پرتصویریں

موسیٰ بن عبد اللہ بن یزید اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر آمنے سامنے دو سارس بنے ہوئے تھے اور ان دونوں کے درمیان الحمد للہ لکھا ہوا تھا۔

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر ایک شیر کی تصویر بنی ہوئی تھی جس نے (شکار کو) دبوچا ہوا ہے اور اس کے ارد گرد کئی شکار پڑے ہوئے ہیں۔

محمد بن سیرین کی روایت ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر دو آدمیوں کے درمیان ایک شیر کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

ابراہیم بن عطاء نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر ایک آدمی کی تصویر تھی جس نے تلوار لٹکائی ہوئی تھی۔ (مصنف ابن ابي شيبه 25607-25611)

سرخسی نے ان آثار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’اگر آدمی کی انگوٹھی کے نگینے میں کسی جان دار کی تصویر ہو تو اس کو پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ یہ اتنی چھوٹی ہے کہ دکھائی نہیں دیتی اور دور سے دیکھنے پر نظر نہیں آتی، جبکہ ناپسندیدہ وہ تصویر ہے جو دور سے ہی دکھائی دیتی ہو۔ پھر یہ کہ تصویر کی تعظیم کرنے اور جو لوگ تصویروں کی پوجا کرتے ہیں، ان کے ساتھ مشابہت پائے جانے کا مفہوم بھی اس طرح کی انگوٹھی پہننے میں نہیں پایا جاتا۔ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کے نگینے پر دو سارس بنے ہوئے تھے جن کے درمیان اللہ کے ذکر کے کچھ کلمات تھے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی میں ایک (شکار کو) دبوچے ہوئے شیر کی تصویر تھی۔ دیکھتے نہیں کہ نماز کی حالت میں آدمی کے لیے اہل عجم کے دراہم اپنے پاس رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اگرچہ ان پر بادشاہ کی تصویر بنی ہوتی ہے جو اپنے تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے سر پر تاج ہے۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے