لبرل ازم کی صبح کب طلوع ہوگی؟

اپنے قیام کے وقت سے ہی پاکستان میں اسلام موجود تھا، بلکہ اس کے مطالبے کی وجہ ہی مسلمانوں کا جداگانہ تشخص تھا، لیکن پھر اس میں نائٹ کلب بھی تھے۔ ہمارے سب سے جدید کاسموپولیٹن شہر، کراچی میں ان کی تابانی جلوہ گر تھی اور وہ کسی کی طبع نازک پر گراں نہ گزرتی۔ اُن دنوں عقیدہ اور بر ِ صغیر کی مخصوص تفریح اپنی اپنی راہوں پر گامزن ، مگرکوئی الجھائو یا ٹکرائو نہ تھا۔ گناہ گاروں کو انجام سے خبردار کرنے والی گرجدار تقریریں بھی سنائی دیتیں تو شام کو بار بھی کھل جاتے ۔ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میںباقاعدگی سے رقص شوکا انعقاد ہوتا ،جن کے اشتہارات شمالی پاکستان کے اُس وقت کے سب سے بڑے اخبار، پاکستان ٹائمز، میںتصاویر کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ جم خانہ اور لارنس گارڈن(جو حب الوطنی کا دور شروع ہوتے ہی باغ ِ جناح بن گیا) کے کاسموپولیٹن کلب شام ہوتے ہی قہقہوں سے گھونجنے لگتے، زندگی رقص کناں دکھائی دیتی، موسیقی دل کے تار چھیڑ دیتی ۔
یہ سب خوش ظرفیاں لاہور کے اسلامی تشخص کو مجروح نہیں کرتی تھیں۔ بر ِ صغیرنے تقسیم کا قہر جھیلا ، پنجاب کے دریاخون سے سرخ ہوئے ، لاکھوں افراد کو ہجرت کا عذاب سہنا پڑا ، زندگی مجروح ہوئی اورپھر تقسیم کے ہنگاموں کے بعد یہاں ہندوئوں اور سکھوں کی متروکہ جائیداد پر قبضے کےلئے ہاہاکار مچ گئی۔اس پر مستزاد، دستور ساز اسمبلی نے آئین سازی پر توجہ دینے کی بجائے قرار داد ِ مقاصد منظور کرتے ہوئے سیاست پرعقیدے کی بخیہ گری کرنا بہتر سمجھا، لیکن ہنگامۂ سود و زیاںسے بالاتر،سفر ِزیست اپنی پوری رعنائیوںسے جاری تھا ، عوام کے جمالیاتی ذوق پر شام کی رنگینی جلوہ گردکھائی دیتی اور نائٹ کلبوں کی رونق، بار کی مستی اور دیدہ زیب پیراہن میں پریاں قطار اندرقطار حسن ِ بے پروا کو بے نقاب کرتیں ۔ اس دوران اہل ِایمان مذہبی اجتماعات میں شرکت کرکے ایمان تازہ کرتے، نماز ِ جمعہ کا اہتمام ہوتا، رمضان آتا تو روزے رکھے جاتے ۔ درحقیقت اُس وقت کے پاکستان کی قبا ئے صفات میں ان دونوں متضاد رنگوں کے جلوے نمایاں تھے، اور کوئی معترض نہ تھا، کہ یہی زندگی ہے۔ زاہدکی سلطنت قائم تھی تو رند بھی سکندری سے محروم نہ تھے۔

سعادت حسن منٹو کو فحش نگاری پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا لیکن اگر وہ پیاس بجھانا چاہتے بشرطیکہ اُن کی جیب میں پیسے ہوتے تو بار کھلے تھے، کوئی پابندی نہ تھی۔ یقینا استاد بڑے غلام علی خان صاحب اور ساحر لدھیانوی کا پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلے جانا ہمارے لیے ایک قومی نقصان تھا ۔ آج دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں پر پریشان ہے، ہماری پریشان کن تبدیلیوںکا دور وہ تھاکیونکہ اُس وقت عقیدے کا توانا ہوتا ہو ابیانیہ مہذب فنون کی لے سے ہم آہنگ نہ تھا۔ جبر سے فضاگہری ہونے لگی تھی، لیکن بہرحال تازہ ہوا کے جھونکوں کی گنجائش موجود تھی۔ تقدیس کی گھن گرج بلند تھی لیکن ابھی تک کسی نے دکانیں بندکرانے کی دھمکی نہیں دی تھی۔ نائٹ کلبوں کی رونق جاری تھی۔ اُن دنوں سیاسی جمہوریت کا عمل ادھورا تھا، آئین تشکیل دینے میں ہم ناکام اور حکومتوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا جبکہ پنجاب کے طاقتور جاگیردار سیاست دانوں اور ہندوستان سےآنےوالے اردواسپیکنگ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل افسرشاہی کے تباہ کن اشتراک نے بنگالیوں کو میز پر مساوی حقوق دینے کے تصور کو پسند نہ کیا ، یہ سب کچھ ایک طرف، لیکن سماجی آزادیاں گھٹن کا شکار نہیں ہوئی تھیں ۔ جس کسی کی بھی جیب اجازت دیتی، وہ لطف اٹھا سکتا تھا۔ آپ جو چاہتے نوش ِ جاں کرسکتے تھے، حالات اجازت دیں تو نائٹ کلب کا رخ کریں، یا لاہور کے بازار ِحسن، کراچی کے نیپئرروڈ یا راولپنڈی کے راجہ بازار کی قصائی گلی میں رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوں۔ اب ان تمام مقامات سے زندگی فرار ہوچکی ہے۔
اس کے بعد ایوب خان کی آمریت کا دور آیالیکن اس دوران شاعری کا گلشن بھی مہکنے لگا، باد ِ نوبہار چلنے لگی، گلوں میں رنگ بھرنے لگے۔آمریت نے سیاست کے کوچہ و در تو مسدود کردئیے لیکن فیض صاحب اور حبیب جالب جو چاہتے پرجوش سامعین کے دلوں میں اتار سکتے تھے، کوئی اخلاقی سلاسل نہ تھی اور نہ ہی سماج پرمنافقت کی تقدیس کے پہرے تھے۔ استاد امانت علی خان صاحب ہارمونیم پر ہیرا منڈی میں موجود اپنے مکان پر سر تال کی لے سے ستاروں کو وجد میں لاسکتے تھے اور ہمارے حبیب جالب پاک ٹی ہائوس کے سامنے مال کے فٹ پاتھ پر بوتل سامنے رکھ کر بیٹھ جاتے تو کوئی آسمان نہ ٹوٹتا۔

ستم ظریفی، بلکہ قہریہ ہے کہ اخلاقی سائے اُس وقت گہرے ہوئے جب ہمارے سب سے رنگین مزاج آمر،جنرل یحییٰ خان کا دور تھا حالانکہ وہ خود بوتل اور نسوانی حسن کے رسیا تھے، ایوان ِ صدر کے باہر خوبرو ملاقاتیوں کاتانتا بندھا رہتا۔ اُنہی دنوں کی بات ہے کہ ایک اداکارہ، ترانہ، کی بہت دھوم تھی۔ جب وہ ایوان ِ صدر بلائی گئی توکچھ دیر گیٹ پر انتظار کی زحمت ہوئی یہاں تک کہ اندر سے بلاوا آ گیا۔ چونکہ ’’جاتے میں قدم اور تھے، آتے میں قدم اور‘‘، تو گیٹ پر انہی گارڈز نے ادب سے سیلوٹ کیاجنھوں نے جاتے ہوئے روکا تھا۔ اداکاری سے تعلق اور ہیرا منڈی کا بیک گرائونڈ ، توطعنہ دینے سے باز نہ رہ سکی کہ پہلے کیوں روکا تھا، مودب گارڈ نے کہا۔۔۔’’میڈم ، جاتے وقت آپ ترانہ تھیں، اب ’قومی ترانہ‘ ہیں۔‘‘ واقعہ کی تاریخی سندکا تو علم نہیں لیکن یہ کہانی عوامی حافظے میں موجود ہے۔ مشرقی محاذپر شکست کے بعد عوام نے افسران کی مے نوشی اور دیگر گناہوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی گروہوں، جیسا کہ جماعت ِاسلامی ، نے بیانیہ آگے بڑھانا شروع کردیا کہ شکست کی وجہ مے کشی اور حسن پرستی تھی ، اور ہوا یوںکہ۔۔۔’’کم ظرف کو تو کوئی نہ کم ظرف کہہ سکا، ساری برائی شیشہ و ساغر کے سرگئی‘‘ ، اسی الجھن میں سیاسی طور پر امتیازی سلوک، جس نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بوئے تھے، کو فراموش کردیاگیا۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ جب ذولفقار علی بھٹو نے آئین تحریر کرنے کا عزم کیا توا ُنہیں مذہبی حوالے دینے پڑے۔ 1974 ء میں حالات کے جبر نے اُنہیں مجبور کردیا کہ وہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ایک مخصوص فرقے کو اسلام کے دائرے سے نکال دیں۔ عجب ستم ظریفی تھی کہ بھٹو بذات ِخود ایک لبرل اور آزاد سوچ رکھنے والے انسان تھے لیکن اُنھوں نے اپنے خون کے پیاسوں کو رام کرنے کےلئے شراب پر پابندی لگادی۔ اس کی وجہ 1977 میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے تھے۔
جنرل ضیا الحق نے بھٹو کی لگائی گئی پابندی کی بنیاد پر عمارت تعمیر کرتے ہوئے 1979 میںالکوحل پر پابندی لگادی، اور اس کے بعد پھر ہم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شایدیہ پاکستان کے مسلمانوں کی قسمت میں لکھا ہوا تھا کہ اُنہیں پابندی درپابندی لگا کر مزید مسلمان بنایا جائے گا۔ خیر قوم کا رخ عقیدے کی طرف موڑنے کی پاداش میں جنرل کو جوکچھ مرضی کہہ لیں، اُنہیں ایک بات کا کریڈٹ دینا پڑتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے دور میں Murree Brewery کو بند کرنے کی کوشش نہیں کی ،حالانکہ یہ اُن کےلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ اس کے علاوہ اُس دور میں پولیس کوبھی ہدایت نہیں کی گئی تھی کہ وہ نجی محفلوں پر چھاپے مارے اور لوگوں کے منہ سونگھتی پھرے۔ ضیا دور میں کوڑے یقینا مارے جارہے تھے لیکن اُن کامقصد گناہ گاروں کوسزا دینا نہیں، سیاسی مخالفین کودبانا تھا ۔ جنرل مشرف کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے پہلے دوسال تک کسی قابل ِ ذکر سیاسی اپوزیشن کا سامنا نہ تھا اور پریس، خاص طور پر انگریزی پریس، اُن کا حامی تھا ، کیونکہ اُنہیں لبرل نظریات کا حامل سمجھا جارہا تھا۔ اگر مشرف چاہتے تو ہمارے ہاں گہری ہونے والی عقائد کی گھٹن ختم کرسکتے تھے لیکن اُنھوں نے ان خطوط پر کام کرنے کی زحمت نہ کی۔ اُنھوں نے سوچا ہوگا کہ جب اقتدار ہاتھ آگیا ہے تو پھر شیر کی کچھار میں گھس کر منافقت کو للکارنے کی کیا ضرورت ہے؟اس کے علاوہ وہ اپنے مشیر ِخاص ، طارق عزیز کی باتوں میں آکر گجرات کے چوہدریوں کو اپنا سیاسی ہمسفربنابیٹھے اور اس کے ساتھ ہی اُنہیں ’’مصطفی کمال‘‘ سمجھنے والوں کی غلط فہمی دور ہوگئی۔

اب سوال کہ کیا ہمارے ہاں کبھی نائٹ کلب(جنہیں میں لبرل ازم کے استعارے کے طور پر استعمال کررہاہوں) کی صبح طلوع ہوگی؟موجودہ جمہوریت تو اس پیش رفت، بلکہ ہر قسم کی پیش رفت، سے خائف دکھائی دیتی ہے جبکہ اس کا پاور ہائوس، پنجاب، رجعت پسندی اور قدامت پرستی کے ساتھ اپنا تہذیبی ناتا جوڑچکا ۔ یہ حکومت فلائی اوور تعمیر کرسکتی ہے، لیکن سماجی گھٹن سے پرواز اس کے مینو میں شامل نہیں۔ ہاں ، کراچی سے امید کی جاسکتی ہے بشرطیکہ ایم کیو ایم اپنی سیاست پر چھائی ہوئی کنفیوژن کی دھند صاف کرسکے۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات نے واضح کردیا کہ ایم کیو ایم کو کراچی سے ختم کرنا ممکن نہیں۔ اس کی بنیاد انتہائی مضبوط ہے، لیکن رینجرز آپریشن نے بھی ایک لکیر کھنچ دی ہے کہ اب ٹی ٹی پستول اور تشدد زدہ بوری بند لاشوں کا دور واپس نہیں آئے گا۔ اب کراچی کو از سر ِ نو سفر شروع کرنے کی ضرورت ہے بشرطیکہ ایم کیو ایم ماضی کو بھول کر آگے کی طرف دیکھنے کے لیے تیار ہوسکے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ شہر کو کھول دیں اور اسے پاکستان کا ’’لاس ویگاس‘‘ یا ’’دبئی ‘‘بنا دیں تاکہ دنیا اس طرف رخ کرنا شروع کردے۔

بشکریہ:روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے