۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا آخری فیز بھی ختم ہوا۔پہلے مرحلے کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ اگلے دونوں مرحلوں میں کیا نتائج برآمد ہوں گے ، کم وبیش وہ اندازے درست ثابت ہوئے۔ جیتنے والے ڈھول بجا بجا کر مست ہوئے جار ہے ہیں تو کئی پارٹیاں کھیت ہو کر بے حال پڑی ہیں۔ مسلم لیگ پنجاب میں مکمل طور پر فاتح ٹھیری، صرف رحیم یار خان میں اسے کامیابی نہ ملی، وہاں پیپلزپارٹی فاتح ٹھیری، بلکہ پیپلزپارٹی کیا، درحقیقت وہ فتح مخدوم احمد محمود کے گروپ کی جیت ہے۔ رحیم یار خان کی سیاست پچھلے دس پندرہ برسوں سے مخدوم احمد محمود بمقابلہ اینٹی مخدوم احمد محمود لڑائی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ احمد محمود کے خلاف ضلع کی تمام بااثر شخصیات اکٹھی ہو کرالیکشن لڑتی ہیں، لیاقت پور، خان پور سے صادق آباد تک سب متحدہوجاتے ہیں، کبھی ان مخالفین کی بن آتی ہے، کبھی مخدوم صاحب فاتح ٹھیرے ہیں۔اس بار یہ ضرور ہوا کہ نوجوان بلاول کو رحیم یار خان میں پارٹی کی” فتح“ پر فخر کا اظہار کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اچھا ہے، پنجاب کے کسی علاقے سے تو پارٹی قیادت کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا۔
مسلم لیگ ن نے تینوں فیز کے دوران پنجاب بھر میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ میاں برادران اور پنجاب میں ان کی کمپین چلانے والوں کو مبارک باد دینی بنتی ہے۔ پی ٹی آئی کی تنقید سے قطع نظر پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع میں مسلم لیگ کی اتنے بڑے مارجن سے کامیابی آسان نہیں تھی۔ پنڈی میں توقع تھی کہ شیخ رشید احمد اور عمران خان کے حلقوں سے مزاحمت ہوگی، سیالکوٹ سے مسلم لیگ ن کے بعض حامیوں کو بھی خدشہ تھا کہ خواجہ آصف کی غیر عوامی سیاست اور کسی حد تک مغرورانہ طرززندگی پر مقامی مسلم لیگی برہم ہیں، کہیں تحریک انصاف میدان نہ مار لے۔ دونوں جگہوں پر مسلم لیگ ن نے صفایا کر دیا۔ ملتان شہر کی دو سیٹیں تحریک انصاف کے پاس ہیں، ایک پر شاہ محمود قریشی اور دوسری پر عامر ڈوگر چند ماہ پہلے ہی جاوید ہاشمی کو شکست دے کر جیتے تھے۔ وہاں مزاحمت کا اندازہ تھا، مگر شاہ محمود قریشی کے ستارے گردش میں آئے ہوئے ہیں، وہ جہاں ہاتھ رکھتے ہیں، وہ جگہ راکھ بن جاتی ہے۔اوکاڑہ میں ان کی فرمائش پر اشرف سوہنا کو ٹکٹ دیا گیا ،بعد میں ان کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ ادھر جنوبی پنجاب کے اکثر علاقوں میں شاہ محمود قریشی کی پسند ، ناپسند کا خیال رکھا گیا، ہر جگہ بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیہ میں قریشی صاحب نے ق لیگ سے آئے سابق ارکان اسمبلی کے گروپ کو جگہ دی اور تمام امیدوار انہی پٹے ہوئے سیاسی مہروں کے کہنے پر نامزد کئے گئے۔ برادرم رﺅف کلاسرا نے چند دن پہلے لیہ کا چکر لگایا اور واپسی پر اپنے تاثرات شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ تحریک انصاف کے پرانے کارکن اور ووٹر دل برداشتہ ہیں۔ لیہ کے انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ پارٹی حکمت عملی غلط تھی۔ کم وبیش یہی حال دیگرسرائیکی علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملا۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کی گورننس کا جو حال ہے، ہرسرکاری محکمہ ایک ایک کر کے بیمار اور لاچار پڑا ہے، ہولناک مہنگائی اور بگڑتی ہوئی لااینڈ آرڈر کی حالت اس پر مستزاد …. اس پس منظر میں مسلم لیگ کی غیرمعمولی کامیابی نے کئی مبصرین کو حیران کر دیا۔ اندرون سندھ پیپلزپارٹی کی جیت زیادہ حیران کن ہے کیونکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت جیسی بدترین حکومت شاید ہی کبھی آئی ہو۔کرپشن، نان گورننس، اقربا پروری اور لاقانونیت نے سندھ کے ہر شہری کو پریشان کر رکھا ہے، اس کے باوجود پیپلزپارٹی اندرون سندھ اسی پچاسی فیصد کے قریب نشستیں لے گئی۔اس سب کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ دونوں پارٹیوں کو ملنے والا انتخابی مینڈیٹ کس چیز کو ظاہر کر رہا ہے؟ کیا پارٹیوں کی اس جیت کو ان کی مقبولیت کا پیمانہ تسلیم کیا جائے یا پھر یہ سب انتخابی عمل ایک مذاق بن چکا ہے اور اسکی بنیاد پر کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی؟گزشتہ روز جناب ارشاد احمد عارف نے بھی یہی نقطہ اٹھایا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس پر تفصیل سے بات ہونی چاہیے، ہمارے ہاںٹی وی ٹاک شوز نے سیاسی مباحث مذاق بنا دئیے ہیں، حالانکہ سیاسی ڈائنامکس پرزیادہ گہرائی اور گیرائی سے تجزیہ ہونا چاہیے، اس پربات کروں گا ،لیکن کسی دوسری نشست میں۔
میرے خیال میں انتخابی نتائج میں ایک خاص قسم کا ربط بہرحال موجود ہے، اسے یوں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔نوے فیصد کے قریب نتائج مئی تیرہ کے انتخابات کے مطابق آئے ہیں، پارٹیوں کو کم وبیش وہی شئیر ملا ہے۔ تحریک انصاف کو پنجاب میں کچھ نقصان الیکشن کے پہلے مرحلے میں شدید ناکامی کا ہوا۔ ن لیگ کے حق میں ہوا چل پڑی تھی اور ہر ایک کو اندازہ ہوگیا کہ ہر جگہ ن لیگ ہی نے آنا ہے، ایسی کیفیت میں لوگ ہارنے والے یا ممکنہ ہارنے والے کو ووٹ نہیں دیتے۔ ایک بڑا فیکٹر تحریک انصاف کی کمزور تنظیم کا بھی ہے۔ پنڈی کی شکست تو خاص کر اس وجہ سے ہوئی۔ عمران خان حلقہ کی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے، اپنے حلقہ میں وہ کبھی گئے ہی نہیں، بلدیاتی سیاست میں مگر ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہے۔تحریک انصاف جب تک اپنی تنظیم ٹھیک نہیں کرے گی،ایسے انتخابات میں اسے کامیابی نہیں مل سکتی۔
کراچی کا معرکہ بہت اہم تھا، ایم کیو ایم نے وہاں زبردست کامیابی حاصل کر لی۔تحریک انصاف اور ان سے بڑھ کر جماعت اسلامی والے شدید دلبرداشتہ ہیں۔ سوشل میڈیا پرپچھلے دو دن ان کی مایوسی جھلکتی رہی۔ان میں سے بعض کراچی والوں کو طعنے دیتے رہے۔ کراچی کے انتخابات کے حوالے سے دو تین بیانیے سامنے آئے ہیں۔ ”ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی جماعت ہے، اردوسپیکنگ لوگوں نے اسے مینڈیٹ دیا اور یہ مینڈیٹ بنیادی طور پر کراچی آپریشن کے خلاف ہے۔“”کراچی والوں نے طویل وقت خوف اور دہشت کی فضا میں گزارا ہے، اب وہ خوف ٹوٹ گیا ،لیکن لوگ ڈرتے ہیں کہ رینجرز واپس چلی جائے گی اور پھر ان کا واسطہ ایم کیو ایم کی فسطائیت سے پڑے گا، اس لئے انہوں نے ڈر کر ووٹ دیا۔“”کراچی میں لوگ ایم کیو ایم کی سیاست سے تنگ بھی تھے، مگر الطاف حسین اُن کے محسن ہیں کہ انہوں نے مہاجر وں کو سیاسی شناخت دی، ایم کیو ایم کی سیاسی عصبیت کو آپریشن کے ذریعے نہیں توڑا جا سکتا، عمران خان کو کراچی میں پزیرائی مل جاتی ، لیکن انہوں نے جس طرح ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو نشانہ بنایا ، وہ بیک فائر کر گیا اور لوگ مہاجر عصبیت کے گرد اکٹھے ہوگئے۔“
ہمارے خیال میںیہ تینوں بیانیے کسی نہ کسی حد تک درست ہیں۔یہ درست ہے کہ ایم کیو ایم نے اردو سپیکنگ لوگوں یعنی مہاجروں کو سیاسی شناخت دی ، یہ بھی درست ہے کہ وہ مہاجر ایشوز کو سمجھتی اور انہیں اٹھاتی ہے۔ کراچی میں اس نے خوف ودہشت کی فضا قائم کی ، اپنے مخالفوں کو کام نہیں کرنے دیا، اپنی پارٹی میں سے بھی کسی کو زیادہ ابھرنے یا نمایاں نہیں ہونے دیا تاکہ وہ بھائی کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مگر ایم کیو ایم نے کراچی میں کام بھی کئے ہیں، مصطفی کمال کی مئیر شپ کے دنوں کے ترقیاتی کاموں کی مثالیں دی جاتی ہیں،ایم کیوا یم کا نہایت مضبوط تنظیمی نیٹ ورک بھی بڑا اہم فیکٹر ہے، گلی محلے کی سیاست ان پر ختم ہے۔ نائن زیرو کے بارے میں باخبر لوگ جانتے ہیں کہ وہاں ایک طرح کی متوازی حکومت چلتی ہے، چاہے ایم کیو ایم اقتدار میں ہو یا نہ ہو، لوگوں کے چھوٹے موٹے کام وہاں سے ہوتے رہتے ہیں۔یہ فیکٹر بھی اپنی جگہ تھا کہ اگر جماعت اسلامی یا تحریک انصاف جیت جاتے ، تب بھی ترقیاتی کاموں کے لئے انہیں سندھ حکومت ہی کا محتاج ہونا تھا، جہاں سے مزاحمت ہی آنی تھی۔مہاجر عصبیت بھی کسی حد تک دوبارہ سے جاگی ہے، ایم کیو ایم نے دانستہ ان ایشوز کو پھر سے چھیڑا ۔ ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے خدشات کے باوجود مداخلت نہیں کی اور ایم کیو ایم کے سیاسی عناصر کو نہیں چھیڑا، ان میں سے بعض کو پکڑا جا سکتا تھا، مگر دانستہ ڈھیل دی گئی تاکہ پروپیگنڈہ کا موقعہ نہ ملے۔
اصل بات یہ ہے کہ کراچی والوں نے اپنے مینڈیٹ کا اظہار کر دیا، اس کا احترام ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم کو بھی اب دوبارہ سے مہاجر عصبیت کے بجائے قومی سیاست کی طرف آنا چاہیے۔تحریک انصاف کو کراچی میں بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے، تنظیم سازی کو ترجیح بنا کر مسلسل محنت کی جائے تو چند برسوں میں انہیں اپنا مناسب شیئر مل جائے گا۔ جماعت اسلامی نے کٹھن وقت گزارا ہے، جب کراچی میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا تھا ، یہ اس وقت بھی ڈٹے رہے، اب بھی ان کا کام ختم نہیں ہوا، محنت کرتے رہیں، نتائج ضرور نکلیں گے۔