انتخابات سے قبل حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قائدین نے بلند و باگ دعوے کئے کہ حکومت ملی تو نوجوانوں کی فلاح اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی جائیں گیں، ایسی پالیسز کو نافذ کیا جائے گا کہ جس سے علوم کی آبیاری ہو گی اور اعلیٰ تعلیم کا شعبہ نشونما پائے گا۔ اسی طرح حکمران جماعت نے کرپشن، اقربا پروری، اختیارات کے ناجائز استعمال کا راستہ بند کر کے عوامی خدمت کے نظام کو متحرک کرنے کا منشور دیا۔ یہی وہ وعدے تھے جن کی بنیاد پر متوسط طبقہ بالخصوص نوجوان طبقہ نے پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کیا اور 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت میں مرکزی کردار ادا کیا تاکہ وہ حکومت میں آ کر میرٹ و شفافیت کو پروان چڑھائیں، انتظامی سطح پر اصلاحات کے ذریعے گڈ گورننس کی مثال قائم کریں تاہم نوجوان طبقہ کی امید پوری نہیں ہوئی۔ قانون کی حکمرانی تو درکنار اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا وعدہ بھی پورا نہ ہو سکا، اس کے برعکس ہائر ایجوکیشن آرڈیننس ترمیم2021نے نوجوان نسل کی آنکھوں میں بسے تبدیلی کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی اپنے حکومتی دورانیہ کے وسط تک پہنچ چکی ہے اور حکومت سے وابستہ بیشتر توقعات پوری نہیں ہو سکیں البتہ مسائل مزید گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ حکومت ایسی ٹیم بنانے میں ہی ناکام ثابت ہوئی کہ جو وعدوں کی تکمیل میں معاونت کر سکے۔ وفاقی حکومت نے صوبائی سطح پر جو قیادت منتخب کی اس پر تمام سٹیک ہولڈرزکے تحفظات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اسی طرح بار بار وفاقی کابینہ کی تبدیلی اس بات کی مظہر ہے کہ حکومتی عہدے داران معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھا رہے ہیں۔ مختلف شعبہ جات کے سربراہان کی بار بار تبدیلی سے یہ عہدے میوزیکل چیئر کا منظر پیش کررہے ہیں۔ بہت سے ایسے افراد جن کو بڑی دھوم دھام سے کلیدی عہدوں پر لایا گیا تھا اچانک ان کو ہٹا دیا گیا جن میں مالیاتی امور، داخلہ اور معلومات کے وزیر وں کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر وفیڈرل بورڈ آف انویسمنٹ،گورنر سٹیٹ بینک، خصوصی معان برائے صحت و پیٹرولیم اور ڈیجیٹل پاکستان منصوبہ کے سربراہ سمیت دیگر کئی اداروں کے لوگ بھی شامل ہیں جن کو لایا گیا اور پھر اچانک ہٹا دیا گیا۔
بادی النظر سے دیکھا جائے تو حکومت نے کام سنوارے کم اور بگاڑے زیادہ ہیں جس کی واضح مثال ہائر ایجوکیشن کمیشن ہے۔ مذکورہ بالا بیشتر اداروں کے برعکس ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک خود مختارے کے طور پر قائم کیا گیا تاکہ سیاسی مداخلت کے بغیر تعلیم کے قومی مقصد کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔ خود مختار ایچ ای سی میں تمام وفاقی اکائیوں کے ممبران شامل کیے گئے، معاشی خود مختاری اور ایچ ای سی کے چیئرپرسن و دیگر ممبران کو مدتِ ملازمت کا تحفظ فراہم کیا گیاتاہم حکومت کے لائے حالیہ ہائر ایجوکیشن آرڈیننس2021نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خودمختاری پر قدغن لگاتے ہوئے اسے محکمہ تعلیم کے تحت کر دیا ہے جبکہ ایچ ای سی چیئرمین کی مدتِ ملازمت کو چار سال سے کم کر کے دو سال کر دیا ہے، اسی طرح ایچ ای سی ممبران میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں گویا حکومت نے ایچ سی کی خودمختاری اور سالمیت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ان تبدیلیوں سے مختلف کمیونٹیز بالخصوص تعلیمی شعبہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
حکومت کے ان اقدامات سے جہاں بہت سے سوالوں نے جنم لیا ہے وہیں چار سوال ایسے ہیں جن کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہیں۔ پہلا یہ کہ ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایک آزاد خودمختار ادارے کیخلاف حکومت نے ایسی سخت کاروائی کی؟ دوسرا سوال یہ کہ حکومت ایسے تعلیم دشمن اقدامات سے کیا پیغام دینا چاہ رہی ہے؟، تیسرا سوال کہ اعلیٰ تعلیم پر ان اقدامات کے کیا اثرات مرتب ہو ں گے؟ آخری سوال یہ کہ ان اقدامات سے حکمران جماعت کو کیا سیاسی مضمرات حاصل ہوں گے؟۔
حکومت کی جانب سے تاحال ان سخت اقدامات کے حوالے سے کوئی وضاحت یا پالیسی پیش نہیں کی گئی، نہ ہی ان اقدامات کے حوالے سے متعلقہ فورمز کے مباحث سامنے آئے ہیں اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ متعلقہ نمائندگان کی جانب سے یہ تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ کوئی ایسی تحقیقی رپورٹ، ڈیٹا یا چارج شیٹ بھی موجود نہیں جس سے اس بات کی نشاہدہی ہو کہ ایچ ای سی میں تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے دو آرٹیکل اور اداروں کو فنڈنگ کے حوالے پرائم منسٹر آفس سے لکھے گئے لیک ہونے والے لیٹر کا پس منظر دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ مبینہ طور پر آزادسوچ رکھنے والے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہٹانے کیلئے یہ سب اقدامات کیے گئے اور اس مقصد کے لیے پہلے سے موجود قوانین کو آرڈیننس لا کر بائی پاس کیا گیا۔
کسی کے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے مخصوص اشارے پر من مانی کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس پر اتنی بڑی تبدیلیاں غیر جمہوری رویوں کی عکاس ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس مدعہ کو پارلیمنٹ میں پیش کرتی اور بحث کے بعد قوانین میں تبدیلیاں کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا جس سے حکومت کی جلد بازی ظاہری ہوتی ہے اور ایسا تب ہی کیا جاتا ہے جب مخصوص مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہو۔ ایک قد آور ماہر تعلیم کو اس طریقے سے ہٹانے کی بدولت اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو ملک کی خدمت کیلئے راغب کرنے کی ترغیب کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ان اقدامات سے صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین ہی نہیں ہٹا بلکہ اس سے اعلیٰ تعلیم پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر حکومت ایچ ای سی میں مجوزہ تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کمیشن اپنا خود مختار تشخص کھو کر حکومتی دباؤ کا شکار رہے گا اور ایسی اناڑی بیوروکریسی کے تسلط میں ہوگا جن کو خود اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ہائر ایجوکیشن آرڈیننس 2021ء کی بدولت ایچ ای سی کے بڑے اصلاحاتی اقدامات جن میں ”انڈرگریجویٹ ایجوکیشن پالیسی2020،، قابلیت کے قومی فریم ورک کی تکمیل اور تحقیقی و ترقیاتی گرانٹس کے منصوبے شامل ہیں کھٹائی میں پڑ جائیں گے۔ حکومت نے گزشتہ دو سال سے ایچ ای سی کی فنڈنگ میں بہت ہی زیادہ کمی کر رکھی ہے جس کی وجہ سے پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کو باامر مجبوری فیسیوں میں اضافہ، سکالرشپس اور تحقیقی منصوبوں کی گرانٹس میں کٹوتی بھی کرنی پڑی۔ مالی مدد اور سکالرشپس کی عدم دستیابی کی وجہ سے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ شدید مشکلات سے دوچار ہیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے مدد کے منتظر ہیں، اس پر مزید یہ کہ ایچ ای سی کی خودمختاری سلب ہونے سے ایسے طلبہ میں اضطراب بڑھا ہے۔ اگر تحریک انصاف نے اس صورتحال میں انصاف سے کام نہ لیا اور میرٹ و شفافیت کو اہمیت نہ دی تو وہ اپنے حلقہ انتخاب سے محروم ہو جائیں گے۔
اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت تمام ادارے جواب دہ ہیں تاہم جوابدہی کا طریقہ کار پہلے سے ہی قوانین میں موجود ہے۔ ایچ ای سی کے کردار اور کارکردگی پر کھلی بحث بھی کی جا سکتی ہے اور سوال بھی اٹھائے جا سکتے ہیں البتہ آرڈیننس کے ذریعے ایسے سخت اقدامات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ عوام بالخصوص نوجوانوں سے کیے گئے وعدوں کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے کہ شفافیت، قابلیت اور قوانین کے اطلاق پر مبنی حکمت عملی کو اپنائے۔ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے اقدامات کی اصلاح کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تباہ کن فیصلوں کے اثرات سے بچا لے۔