زمانہ طالب علمی کے دنوں کی بات ہے ایک شام اسلام آباد جامعہ فریدیہ اپنے دوست سے ملنے گیا ، نماز عصر کے بعد فیصل مسجد کی طرف نکلے تو سول کپڑوں میں چند اہلکار ایک کوٹھی کے ارد گرد منڈلا رہے تھے ، سامنے ایک شخص کوٹھی میں واک کر رہا تھا ۔
اسکی نظر جب ہم پر پڑی تو اس نے سلام کے لیے ہاتھ اٹھایا اور دعا کی درخواست کی ، میں نے دوست سے پوچھا یار یہ ڈاکٹر عبد القدیر خان ہی ہیں نا ؟ اس نے سر ہلایا اور اور کہا جلدی چلیں یہاں اداروں کے لوگ کھڑے ہیں وہ کہیں ہمیں نہ اٹھا لیں۔
مشرف دور میں مدارس پر ویسے بھی سختی تھی ، طالب اور فوجی ایک دوسرے کی جان کو آئے ہوئے تھے ، میں نے دوست سے کہا یار میں اجازت لیکر ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھتا ہوں ، دوست کے منع کرنے کے باوجود میں چوکی پر موجود اہلکاروں کے پاس گیا اور کہا میں طالب علم ہوں ، لیکن میرا ایک چچا فوجی ہے دوسرا پولیس میں ہے ، آپ بیشک میرے بارے میں انکوائری کر لیں لیکن مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملنے دیں ،
ایک اہلکار کا دل تھا کہ مجھے اجازت دے دے لیکن دوسرا اہلکار دھاڑتا ہوا آیا اور کہا فورا یہاں سے چلے جاؤ ورنہ ! اس نے ورنہ کہا میں نے کہا سر ! ورنہ تک نہ جائیں ہم یہ گئے ، کچی عمر بھی خوف سے بھرپور ہوتی ہے ، پھر مدارس کے ماحول نے مزید خوف پیدا کیا ہوا تھا ، برے انجام اور اپنی قید کے ڈر سے نہ چاہتے ہوئے بھی آگے نکل پڑا ، ہم دیہاتی لوگ اسلام آباد فیصل مسجد ہی دیکھنے جاتے تھے ، ہمیں کیا علم تھا کہ یہاں محسن پاکستان رہتے ہیں اور وہ بھی قیدی ہیں ، مجھے لگا قیدی وہ نہیں بلکہ چوکی پر کھڑے اہلکار قیدی ہیں ، اگر یہ آزاد ہوتے تو ہمیں ملاقات کی اجازت دے دیتے ، یہاں ہر شخص اپنے طور پر قیدی ہے ، ہم خوف کے قیدی ، ڈاکٹر صاحب ریاست کے قیدی اور اہلکار اپنے سے بڑے افسر کے قیدی ، شاید مشرف بھی قیدی ہیں تبھی ڈاکٹر صاحب پر آزادی کے راستے بند کر دیے۔
خیر اس شام اسلام آباد کی کسی چیز نے متاثر نہیں کیا ، فیصل مسجد کے احاطے میں بھی گم سم رہا ، اگلے روز اسلام آباد سے واپس اٹک لوٹ آیا ، لیکن ڈاکٹر صاحب کا سلام اور دعا کی التجا دل و دماغ میں بیٹھ گئی ، میں فخر سے دوستوں کو بتاتا ڈاکٹر صاحب نے مجھے سلام کیا ہے اور دعا کا بھی کہا ہے ، میرے دامن میں ڈاکٹر صاحب کا سلام ہے بتاؤ تمھارے پاس کیا ہے ؟
پھر ایک روز جیو پر سہیل وڑائچ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو سنا تو آنکھیں بھر آئیں، سینے میں دبی آگ بھڑک اٹھی ، روڈ پر بیٹھ کے ایک شخص اپنی نیکی پر رو رہا تھا ، یا شاید پچھتا رہا تھا ،محبت ملکی معاملات اور سیکورٹی کے تقاضوں سے ناواقف ہوتی ہے ، کسی سے نہیں پوچھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ وہ شخص جس نے ہمیں دنیا کے برابر کھڑا کیا اس کیساتھ یہ سلوک کیوں ؟
یہ عقل بہت کتی چیز ہے ، اس نے ماضی کے کئی بت پاش پاش کیے ، وہ لوگ جو میرے ہیرو تھے اس نے ان سے بھی نفرت کے اسباب پیدا کیے ، کبھی اپنے آپ پر ہنستا ہوں کہ یار یہ تم کن لوگوں سے پیار کیا کرتے تھے ؟ کوئی ڈھنگ کا بندہ بھی تمھیں نہ ملا جس سے عمر بھر پیار کرتے ؟
وقت آگے بڑھ گیا ، عقل پر دلیل غالب آ گئی لیکن ڈاکٹر صاحب دل سے نہ نکل سکے ، جب کالم لکھنا شروع کیا تو جنگ اخبار میں سبھی لکھنے والوں کو پڑھتا تھا لیکن یہ طے کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو نہیں پڑھنا ،
ہو سکتا ہے کوئی بات مزاج کے خلاف ہو ،کوئی دلیل عقل کو اپیل نہ کرے ، محبت کا یہ بت بھی کہیں ٹوٹ نہ جائے ، میں ڈاکٹر صاحب کا سلام اور دعا کے لیے اٹھے ہاتھ یاد رکھنا چاہتا ہوں ، بعد میں کئی مواقع میسر آئے ، میں چاہتا تو ان سے مل سکتا تھا لیکن دل نہیں مانا۔
محبوب میسر آ جائے تو عشق میں کمی واقع ہو جاتی ہے ، منزل جب مل جائے تو پھر سفر ختم ہو جاتا ہے ، سوچنے میں جو لطف ہے وہ ملنے دیکھنے اور چھونے میں کہاں ؟ بس یہی سوچ کر کبھی ان سے نہیں ملا کہ کہیں محبت کا سفر رک نہ جائے ۔
ڈاکٹر صاحب کے خلاف جس دن نذیر ناجی نے قسط وار کالمز کا سلسلہ شروع کیا اس دن لگا کہ انسان سے کوئی کام کسی وقت بھی لیا جا سکتا ہے ، ہر شریف کی پگڑی اچھالی جا سکتی ہے ، ہیرو کے دامن پر بھی چھینٹے پھینکے جا سکتے ہیں ، متفقہ شخص کو بھی متنازعہ بنایا جا سکتا ہے ، ریاست ضرورت اور مفاد کی ہوتی ہے کسی ہیرو کی نہیں۔
ڈاکٹر صاحب آج رخصت ہو گئے، الحمد للہ ان سے محبت سلامت ہے ، کل انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے آج ہمارے ہاتھ ان کے لیے اٹھے ہوئے ہیں ، رب کا شکر ہے کہ قلم رکھتے ہوئے بھی کوئی جملہ ان کے خلاف نہیں لکھا ، کسی رو میں نہیں بہے ، آج قلم اٹھا بھی تو انکے حق میں اٹھا ، انہوں نے قرآن کی اس آیت پر عمل کیا واعدو لھم مااستطعتم میں قوت و من رباط الخیل ، ترھبون بھی عدو اللہ و وعدوکم الخ۔
رب ڈاکٹر صاحب کو اعلی مقام عطا کرے ۔آمین