’’بلوچستان سے بے وفائی‘‘

بلوچستان دوسرے صوبوں سے الگ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ یہاں بحرِ سیاست کی موجیں ہمیشہ مضطرب کیوں رہتی ہیں؟ اقتدار کا کھیل کسی قاعدے ضابطے میں کیوں نہیں ڈھل سکا؟ قومی سیاسی جماعتیں یہاں بے اثر کیوں ہیں؟ بلوچستان کے مقدر کا فیصلہ مقامی وادیوں کے بجائے راولپنڈی کے ایوانوں میں کیوں ہوتا ہے؟ بلوچستان کا حقیقی نمائندہ کون ہے اور اس کا فیصلہ کیسے ہو گا؟

ایک بارپھر بلوچستان اخبارات اور ٹی وی چینلز کی شہ سرخیوں میں ہے۔ میں نے بارہا یہاں کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن سچ یہ ہے کہ معاملہ کبھی گرفت میں نہیں آ سکا۔ اگر کوئی سرا ہاتھ لگا بھی تواس کے بیان کا یارا نہ ہوا۔ کبھی فہم کی کمی آڑے آئی اور کبھی جرأت کی؛ تاہم شخصی سطح پر درست تجزیے کی کوشش ضرور کرتا رہا۔ اسی دوران ایک کتاب ہاتھ لگی جس نے اس عقدہ کشائی میں میری راہنمائی کی۔

”بلوچستان سے بے وفائی‘‘ جناب محمود شام کی تازہ تالیف ہے۔ تازہ ان معنوں میں کہ ان تحریروں کو کتابی صورت میں اب مدون کیا گیا ہے ورنہ یہ ایک محرمِ راز کے فکری سفر کی داستان ہے جو نصف صدی سے جاری ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ مسافر کو داد دیجیے کہ آبلہ پائی کے باوجود، اس کے قدم آج بھی رکے نہیں۔ اس کتاب میں شامل پہلی تحریر 1969ء میں لکھی گئی اور آخری 2020ء۔ ان کا رخشِ قلم، آج بھی بلوچستان کے سنگلاخوں میں رواں دواں ہے۔کتاب کا مضمون اس کے عنوان میں بیان ہو گیا ہے۔ اس میں ‘ہم‘ کون ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب ہم کو تلاش کرنا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ‘ہم‘ میں ‘ہم سب‘ شامل ہیں۔ جو بلوچستان کے معاملات میں جتنا دخیل رہا ہے، وہ اسی حد تک بلوچستان کے ساتھ بے وفائی کا مرتکب ہوا ہے۔ میں بطور کالم نگار۔ دوسروں کی ذمہ داری کا تعین ان کی حیثیت کے مطابق کر لیجیے۔

سی پیک آیا تو خیال ہوا کہ بلوچستان میں خوشحالی آئے گی اور یوں اس کا اضطراب ختم ہو گا۔ محمود شام صاحب بھی ان خوش گمانوں میں شامل ہے۔ میں مگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ابھی تک اس کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیے۔ نئی خبریں تو مزید پریشان کررہی ہیں۔ گوادر میں جو ہونا تھا، اس کا متبادل ایک بار کراچی کے ساحوں پر تلاش کیا جا رہا ہے۔ اس تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ سوال میڈیا میں اس طرح زیرِ بحث نہیں آیا جس طرح کہ حق تھا۔

یہ کہنا شاید درست نہ ہوکہ بوچستان کی بہتری کیلئے کسی نے نہیں سوچا یا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اچھے کام بھی ہوئے مگر ان کی نوعیت ایسی ہی ہے جیسے ایک بے ترتیب اور بدذوقی کی مظہر کتاب میں چند اچھے جملے۔ ان جملوں کی وجہ سے اس کتاب کو ادب کا شاہکار نہیں کہا جا سکتا۔ کتاب کا تعارف تواس کا اصل متن ہوتاہے ورنہ شاعری کا ہر مجموعہ ‘بالِ جبریل‘ کا نقشِ ثانی ہوتا۔

محمود شام کی مرتب کردہ داستان میں کردار ہیں، واقعات ہیں اور مکالمے ہیں۔ قاضی محمد عیسیٰ اور سردار غوث بخش رئیسانی جیسے کردار۔ اکبر بگتی کے قتل جیسے واقعات اور خان عبدالصمد اچکزئی جیسے بڑے رہنماؤں سے مکالمہ۔ یہ مکالمہ 1969ء میں ہوا‘ لیکن آج پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچاس برسوں میں کچھ نہیں بدلا۔ نہ ‘ہم‘ نہ بلوچ عوام۔ ہماری سوچ وہی کہنہ اور عوام کے حالات وہی خستہ۔

اس داستان کو پڑھنے سے یہ بات مزید موکد ہوتی ہے کہ بلوچ عوام کا بنیادی مسئلہ محرومی ہے۔ معاشی بدحالی۔ یہ محرومی جب ایک گروہ یا طبقے کی چند نسلوں کا تجربہ بن جائے تو شناخت کے بحران میں ڈھل جاتی ہے۔ پھر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری ترقی اس لیے نہیں ہو رہی کہ ہم فلاں گروہ سے تعلق رکھتے ہیں یا فلاں قوم اور مسلک سے۔ بصیرت افروز قیادت وہی ہوتی ہے جو محرومی کو شناخت کے بحران میں بدلنے سے روکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک اس بات کو سمجھ نہیں سکے۔ بھٹو جیسا سیاسی ذہن نہیں سمجھ سکاکہ مسلح آپریشن مسئلے کا حل نہیں ہوتا اگر اس کی بنیاد سماجی اور سیاسی ہو۔ آصف زرداری صاحب نے ایک اچھا قدم اٹھایا جب بحیثیت صدرِ پاکستان بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی۔ اٹھارہویں ترمیم نے کچھ مرہم رکھا مگر یہ سوچ ایک بار پھر ملک پر قابض ہوگئی کہ استحکام مضبوط مرکز سے آتا ہے، مضبوط اکائیوں سے نہیں۔

افسوس یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتیں بھی اس باب میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکیں۔ آج بھی لگتا ہے کہ ان جماعتوں کو اپنی ذمہ داری کا اندازہ نہیں۔ میں یہ بات بہ تکرار لکھ چکا ہوں کہ یہ صرف قومی سیاسی جماعتیں ہیں جو لوگوں کو جمع کر سکتی ہیں۔ وہی لوگوں کی محرومی کو آواز دے سکتی ہیں۔

بلوچستان میں آج شناخت کا بحران بنیادی ہے۔ اس کاحل یہی ہے کہ اسے فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ سیاسی لغت میں اس سے مراد یہ ہے کہ مرکز میں کیے گئے فیصلے صوبوں پر مسلط نہ ہوں بلکہ صوبوں کی مشاورت سے مرکز اپنے فیصلے کرے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے اور اسے ہی زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کویہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے محافظ ہیں اور پاکستان کے فیصلے عوام نے کرنے ہیں۔ عوام پنجاب کے ہوں یا سندھ کے‘ کے پی ہوں یا بلوچستان کے۔ اب مرکز پنجاب یا بلوچستان کو یہ نہ بتائے کہ اسے کیا کرنا ہے بلکہ ان سے پوچھے کہ خارجہ پالیسی کیسے بنے؟ ملک کی معاشی پالیسی کیا ہو؟
میرا احساس ہے کہ ہم نے اس سمت میں آگے بڑھنے کے بجائے، اس سے مخالف سمت میں قدم اٹھائے ہیں۔ بلوچستان کی محرومی کو کم کرنے کے بجائے، ہم نے اب دوسرے صوبوں میں یہی احساس پیدا کردیا ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب کا عام آدمی بھی اب وہی سوچنے لگا ہے جو بلوچستان کا شہری سوچتا ہے‘ جو سندھ یا کے پی کے لوگ سوچ رہے تھے۔ محرومی پھیل رہی ہے۔ وجہ وہی ہے۔ فیصلہ سازی میں عوام کی عدم شرکت۔

محمود شام صاحب نے صحافت کے دشت کی سیاحی میں ایک عمر گزاری ہے۔ وہ شاعر کا مزاج لے کر پیدا ہوئے جو دوسروں سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ ایک غیر شاعر ایک درد کو جتنا محسوس کرتا ہے، شاعر اس سے دوگنا۔ شام صاحب نے اپنے درد اور پاؤں کے آبلوں کو اس کتاب میں جمع کر دیا ہے۔ ان کا اسلوب اور ان کا سیاسی شعور، دونوں نے مل کر یہ دل گداز داستان مرتب کی ہے۔ بظاہر یہ مختلف ادوار میں لکھے مضامین کا مجموعہ ہے لیکن انہیں تاریخ نویسی کے اصول پر مرتب کیا گیا۔ یوں ہر مضمون دوسرے سے جڑا ہوا ہے جیسے تاریخ کا ایک باب دوسرے باب سے وابستہ ہوتا ہے۔

محمود شام صاحب نے جو دیباچہ لکھا، وہ اس کتاب کا خلاصہ ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ میں اس کے چند جملے نقل کررہا ہوں، اس التماس کے ساتھ کہ ان میں ‘ہم‘ کا لفظ سب سے زیادہ توجہ طلب ہے۔ ہمیں اس کا مصداق تلاش کرنے کے لیے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔ ”ہم بلوچستان کے مقروض بھی ہیں اور ملزم بھی۔ بلوچستان کے پتھریلے چہرے دیکھ کر مجھے سنہرا بنگال یاد آجاتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے دریا، سندر بن، سلہٹ کے چائے کے باغات، پٹ سن، میرے ذہن میں در آتے ہیں۔ ہم نے مشرقی پاکستان کو سمجھنے میں بڑی دیر کر دی۔ اب بلوچستان کو سمجھنے میں دیر کر رہے ہیں‘‘۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے