واقعۂ یادگارِ پاکستان

اقبال پارک کا گراؤنڈ وہ عظیم یادگار ہے کہ جہاں اسلامیانِ برصغیر نے جمع ہو کر آزاد وطن کے حصول کی انمٹ داستان رقم کی تھی…یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل پبلک مقام ہے… اس سے وابستہ وہ غیر متزلزل ارادے،نعرے،عزائم اور کردار تاریخ کا ایک روشن باب بن گیا تھا اور الحمدللّٰــــہ آج ہم ایک آزاد وطن کے باسی ہیں…
اُسی گراؤنڈ سے متعلقہ ایک واقعہ سوشل میڈیا پر گردش میں ہے…واقعی ایسے واقعات چاہے کچھ بھی پسِ منظر رکھتے ہوں کسی بھی معاشرے کا منفی امیج ہی تصور کیے جاتے ہیں…

ایک ٹک ٹاکر خاتون اور سینکڑوں مردوں کی طرف سے رد عمل نے ہر ذی شعور کا سر شرم سے ضرور جھکایا ہے…اور یہ سب تربیت کی کمی کا گھناؤنا کھیل ہے…افسوس کی بات یہ ہے کہ اجتماعی طور پر بھی ہم اخلاقیات کے بلند معیار کو کھوئے جا رہے ہیں…انفرادی طور پر تو ہر ایک کی صورت حال جسے ذبح کرو،وہی لال ہے والی سے مختلف نہیں ہے لیکن اجتماعی طور پر اخلاقی گراوٹ ایک گھٹیا سوچ کی عکاس بن جاتی ہے…
سیدھی اور صاف سی بات کی جائے تو اس کا واحد حل صرف اسلامی نظام اور قوانین کا نفاذ ہے جو ہر ایسی گھٹیا فکر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے لیکن چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ معاشرہ مختلف النوع ذہنیتوں کے مجموعے کا نام ہے… اسلام تو مسلمان مرد و خواتین کو غصِ بصر اور عزتوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے…

تو جو لوگ ان تعلیمات کے قائل نہیں،اپنا مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں…اپنا طرزِ رہن سہن اپناتے ہیں…اپنی پسند کا اخلاق باختہ لباس زیب تن کرتے ہیں…تو پھر کیا کیا جائے؟
یہ سوال واقعی اپنی جگہ اہم ہے لیکن معاشرے سے برائی کے خاتمہ کے لیے پہلی بات تو قوانین کا فوری اطلاق اور عمل ہونا چاہیے جس کی ہمارے معاشرے میں رفتار انتہائی مایوس کن رہی ہے…نمبر دو مرد و خواتین معاشرے کا حصہ ہیں،سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کے لیے گھروں سے باہر جاتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ ایسا قطعاً نہیں ہوتا…سارے کا سارا معاشرہ بے حس نہیں ہے…گردشِ حیاء ابھی رگوں میں باقی ہے…
مسلمانوں کے لیے تو ایک زبردست نفسیاتی حل بتایا گیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو…پھر کوئی پاس سے ناچنے گانے والی گزر رہی ہو یا مجرے کوٹھے والی یقینِ کامل ہے مرد کی فطری جبلت کو متاثر نہیں کرے گی…اور اگر مرد نگاہیں اُٹھا کر ہی چل رہا ہے تو ایک باپردہ اور باحیا انداز میں چلتی کوئی بھی خاتون بحفاظت بچ جائے گی…یہ تو ایک زبردست نسخہ ہمیں ساڑھے چودہ سو سال پہلے بتا دیا گیا ہے اور اِسی پر عمل آج بھی فلاح کا باعث ہے…!!!

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ اگر اس سے اُلٹ سوچ و کردار کا طبقہ کہیں نظر آئے…
آپ کسی بازار کا ہی رُخ کر لیں…کسی بھی ادارے اور تعلیمی اداروں میں چلے جائیں ایسے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے