خاموش اور شرمیلے سے برادرم من افتخار ہزاروی صاحب سے تعارف عامر ہزاروی صاحب کی وساطت سے ہوا ۔ دو اڑھائی برس پہلے کی بات ہے کہ عامر ہزاروی صاحب ، افتخار صاحب ، عبدالباسط ہزاروی صاحب ، شیر افضل صاحب ، کیپٹن شعیب نثار صاحب ، ردا خان صاحبہ سمیت یہ تمام دوست کورونا کی وبا کی دوران متحرک ہوئے اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مانسہرہ ، کوہستان ، بٹگرام ، الائی ، کالا ڈھاکہ سمیت متصل علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں خوراک اور ادویات کی فراہمی شروع کر دی ۔ ان سب دوستوں کا کام انتہائی موثر تھا ۔ مجھے معلوم ہے کہ ان لوگوں نے بیماری ، بھوک اور پیاس کی پرواہ کئے بغیر سارا سارا دن کام کیا ۔ جوانی اور دوستی یاری پکی ہو تو پھر کام کا پتہ نہیں چلتا ۔ یہ سارا سارا وقت اپنے کام میں جتے رہتے ۔
میں نے دیکھا کہ انہوں نے ہندو برادری ، مسیحی برادری سمیت ہماری خواجہ سرا برادری تک امدادی کام کا نیٹ ورک بڑھا دیا ۔ خواجہ سراؤں کے پاس جا کر عید قربان کے موقع قربانی کی اور انہیں گوشت پکا کر کھلایا ۔ ہم سب کی دانشوریاں سگریٹوں کے کش لگا کر فضا میں دھویں مکے مرغولے بناتی رہیں کہ لیکن ان چند لوگوں نے لوگوں کے چہروں مسکراہٹیں بکھیرنے کا سامان کیا ۔ دکھ اور غم کے آنسوؤں کو خوشی کے آنسوؤں میں بدل ڈالا ۔
اسی دوران افتخار ہزاروی صاحب نے ہزارہ ہربز کی بنیاد رکھی ۔افتخار ہزاروی صاحب درس نظامی کے طالب علم ہیں .ان کے کچھ ساتھی مدارس کے طالب علم ہیں یا مدارس سے فارغ ہیں .کچھ مدارس میں باقاعدہ تدریس سے منسلک ہیں .عالم اور مفتی ہیں . سارے دوست ایک بار اکٹھے ہوگئے ۔ اس دور میں کون کسی کا دست وبازو بنتا ہے لیکن ان سب نے ہزاروی صاحب کو مایوسی کا لیکچر سنانے کی بجائے ہمت بندھائی ۔ بچہ جب کھڑا ہونا چاہ رہا ہو تو آپ کی ایک تالی ، ایک مسکراہٹ ، تم کھڑے ہو سکتے ہو جیسا ایک جملہ گرتے ہوئے وجود میں توانائی بھر دیتا ہے ۔ افتخار صاحب نے کھڑے ہونے کا عزم کیا ، دوستوں نے ان کی امید کا دیا بجھنے نہیں دیا ۔
آج افتخار ہزاروی صاحب نے ایک کنال سے زائد رقبے پر ہزارہ ہربز کی فیکٹری کھڑی کر دی ہے ۔ صفائی ،ستھرائی ، مینوفیکچرنگ ، پراسسنگ ، پیکنگ سمیت مارکیٹنگ کا وہ شاندار بندوبست موجود ہے کہ کل مانسہرہ کی فوڈ کنٹرولر سیدہ عظمی شاہ صاحبہ اور اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ حسرت خان صاحب کہہ رہے تھے کہ ایسا بہترین بندوبست پاکستان میں شاید ہی کہیں دکھائی دے ۔ افتخار ہزاروی صاحب نے مقامی کاروبار کی اہمیت کو سمجھا ، مقامی لوگوں کو روزگار دیا ۔ان لوگوں نے جدید کاروبار کے اصول نہیں پڑھے لیکن دیانتداری ، سچائی ، معیار اور مقدار کی ضمانت جیسے اعلی اور آفاقی اصولوں کے ساتھ اپنے کام کا آغاز تو لوگوں نے کام کو سراہا . مارکیٹ اسی کی ہے جس کی محنت ہے . اگرچہ یہ بات اپنی جگہ ایک طویل بحث طلب ہے کہ کیا واقعتا ایسا ہے یا نہیں .
ہزارہ ڈویژن میں کچھ عرصہ پہلے صرف سیاحت اور تعلیم تھی ۔ ایبٹ آباد چناروں اور سکولوں کا شہر مشہور تھا ۔ ایبٹ آباد میں سمال انڈسٹری تو موجود تھی لیکن مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکی تاہم اس کے باوجود لوگوں نے محنت کی ۔ آج یہاں یونیورسٹیاں ، میڈیکل کالجز ، ہوٹل انڈسٹری سمیت دیگر صنعتیں موجود ہیں ۔ اوگی میں بہترین ماربل پیدا ہوتا ہے لیکن مقامی سطح پر اس کی کٹنگ اور فنشنگ کا اہتمام نہیں ۔ ہزارہ ہربز کی دوسری سالگرہ کے موقع پر اسٹنٹ کمشنر مانسہرہ حسرت خان صاحب جو اب اوگی ٹرانسفر ہو چکے ہیں ، بتا رہے تھے کہ اگر انفراسٹکچر قائم ہو تو اوگی کا ماربل قومی اور بین الاقوامی منڈی میں اپنا نام کما سکتا ہے ۔ میں نے سوچا کہ میڈیا کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور میں اس پر ایک رپورٹ بناؤں گا ۔
ہزارہ ڈویژن سے لوگ ملازمتوں کے حصول کے لیے اسلام آباد ، کراچی اور لاہور جاتے تھے لیکن اب ملازمتیں اور کاروبار ان کی دہلیز پر کھڑے ہیں ۔ موٹر وے بننے کی وجہ سے اسلام آباد سے مانسہرہ کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہو چکا ہے ۔ اگرچہ شاہراہ ریشم پر سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔ سڑک کی کل حالت دیکھی تو بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ ایک طرف ہم سیاحت کے فروغ کی باتیں کرتے ہیں لیکن دوسری طرف سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے ۔ سڑکوں کے قریب نالوں میں پلاسٹک سمیت اتنا کچرا پڑا ہے کہ پانی سڑکوں پر آرہا ہے جس سے سڑک کی حالت خراب ہو رہی ہے ۔ تجاوزات کو کنٹرول نہیں کیا جا رہا ۔ بے ہنگم اور بے ڈھنگی تعمیرات کی وجہ سے قدرتی حسن پامال ہو رہا ہے ۔ محکمہ تعمیرات شاید مال پانی بنانے میں مصروف ہے ۔ شہریوں کو گھروں اور مارکیٹ بنانے کے نقشے کا پابند بنایا جائے ۔ مارکیٹ کے ساتھ پارکنگ لازمی قرار دی جائے تو یقین مانئے کہ بے شمار مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔
بہر حال ہمیں سول سائٹی اور میڈیا کو طاقتور بنانا ہوگا تاکہ ہمارے مسائل بہتر انداز میں دریافت ہوں ، نمایاں طور پر اجاگر ہو سکیں اور متعلقہ ادارے شہریوں کے دباؤ کی وجہ سے زیادہ فعال کردار ادا کر سکیں ۔ ہزارہ ہربز کی دوسری سالگرہ موقع پر کافی دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ دائیں بائیں بازو کے افراد کے علاوہ ، مختلف مذہبی ، کاروباری ، سیاسی اور سماجی تنظمیوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کے لوگ بھی شریک تھے ۔
تقریب کے آخر میں کراچی سے آئے مولانا یعقوب عالم صاحب نےدو موٹر سائیکلز کی قرعہ اندازی کی گئی ۔ ایک قرعہ مالم جبہ کی خنسا احمد کے نام اور دوسرا رحیم یار خان کے خریدار محمد خلیق کے نام کا نکلا ۔ ایک تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہزارہ ہربز کی مصنوعات صرف ہزارہ تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں دوسرا میں یہ سوچ رہا تھا کہ لاہور ، کراچی اور راولپنڈی میں تو لڑکیاں موٹر سائیکل چلا رہی ہیں ، کیا مالم جبہ کی لڑکی کے لیے قرعہ اندازی میں نکلنے والا موٹر سائیکل چلانا آسان ہوگا یا وہ اسے زمین کی طرح اپنے کسی عزیز کو ” تحفے ” کے طور پر دے دے گی ؟
پاکستان میں کسی کاروبار میں سرمایہ کاری نہ کرنے کی بنیادہ وجہ مختلف محکموں میں موجود راشی اور شرپسند افسران اور ان کا عملہ بھی ہوتا ہے ۔ وہ کاروباری لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ۔ ان سے بھتہ لیتے ہیں ۔ اداروں میں اپنے لوگوں کی ملازمتوں کا تقاضہ کرتے ہیں ۔بڑی کمپنیوں کی سفارشوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں ، گھروں میں مفت سامان کا تقاضہ کرتے ہیں جس کی وجہ کاروباری لوگ اپنے کاروبار بند کر دیتے ہیں ۔ اس کا سارا نقصان شہریوں اور مقامی افراد کو ہوتا ہے ۔ ہمارے علاقوں میں چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار اسی وجہ سے نہیں چل پاتے ۔ جو چل رہے ہیں وہ انتظامیہ کی من مانی اور ملی بھگت سے دو نمبر مال مارکیٹ میں بیچ رہے ہوتے ہیں ۔ وہ بھتہ بھی دیتے ہیں اور مال اوپر تک جاتا ہے اور نتیجے میں مصنوعات پر کمپرومائز کر لیا جاتا ہے ۔اسی لیے پاکستانی مصنوعات بہت کم ہی عالمی معیار کو پہنچتی ہیں ۔ شہریوں کو اس ضمن میں بہت ہوشیار ہونا ہو گا ۔ انتظامیہ میں اور کاروبار کرنے والے دونوں پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی ۔ اگر یہ کام نہیں کریں گے تو پھر آپ کے علاقوں میں کوئی کام نہیں ہو سکے گا ۔
تحریر بہت طویل ہو گئی ہے لیکن میں نے سوچا کہ ہزارہ ہربز کو دوسری سالگرہ پر مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ اس موقع پر کی گئی گفتگو کے مرکزی نکات بھی آپ کے ساتھ شئیر کر دوں ۔ خدا سے دعا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک حساس اور ذمہ دار معاشرہ بنے ۔ ہمارے ادارے بہترین ادارے بنیں اور سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد معاشرے کے ہر شعبے میں لیڈ کرنے کے لیے سامنے آئیں ۔