تحریکِ انصاف کا فکری افلاس لمحہ لمحہ عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ جب جب عمران خان کلام فرماتے ہیں اس کا ایک نیا روپ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔جب اس کلام پر ان کے وابستگان تالیاں بجا کر داد دیتے ہیں ایک دوسرا گوشہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اور پھر جب ان کے’ ٹائیگرز‘ ان کے ارشادات سے اعلانِ برات کرنے کی بجائے انتہائی کمزور دلائل کے ساتھ اس کے دفاع میں آن کھڑے ہوتے ہیں تو اس فکری افلاس کا ایک تیسرا رنگ اپنے جوہر دکھا رہا ہوتا ہے۔
خدا ہی جانتا ہے ’نقاب کشائی‘ کا یہ عمل کہاں جا کر رکے گا کیونکہ عمران خان کو بولنے اور بولتے چلے جانے کا جنون ہو گیا ہے،یہ جنون اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب وہ کسی بھی زبان میں چُپ نہیں رہ سکتے۔ آخری تجزیے میں ثابت یہ ہورہا ہے کہ عمران خان ایک رہنما کا نہیں ایک کیفیت کا نام ہے۔جب وہ ایک خاص کیفیت میں ہوتے ہیں تو سرپرائز دینے کی ان کی خداداد صلاحیتوں میں خوفناک اضافہ ہو جاتا ہے۔نمل کالج کا کانووکیشن بھی اسی کیفیت کی نذر ہو گیا۔
واقفانِ حال کا کہنا ہے یہ کیفیت ان کے مزاج کو ، تبدیل نہیں ،بے نقاب کرتی ہے۔صاحب اس تقریب میں بولے اور لوگوں نے حیرت سے انگلیاں منہ میں داب لیں۔شاملات پر محل بنانے والا رہنما ملکیتی زمین رکھنے والوں کو دھمکی دے رہا تھا:’’ میں یہاں ایک سٹیڈیم دیکھ رہا ہوں،مجھے فروری تک زمین چاہیے،سیلو برادری نے پہلے بھی بہت تعاون کیا، ابھی پیار سے کہہ رہا ہوں یہ زمین دے دو، ہمیں خریدنے دو،،ہمیں سٹیڈیم بنانا ہے،ابھی شاید آپ کو کچھ مل بھی جائے، کل کو ہماری حکومت آ گئی تو سیکشن فور لگا کر زمین بھی ہم لے لیں گے اور اس وقت آپ کو ملنا بھی کچھ نہیں‘‘۔ ۔۔۔حیرت ہے یہ اس شخص کا طرزِ گفتگو ہے جس کی صفِ نعلین میں کھڑے ہو کر ہم نے جاگتی آنکھوں سے نئے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔
صاحب کے ہزلہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے۔یہ طرز گفتگو ان طلبا ء و طالبات کے معیار سے بھی فروتر تھا جو اس روز خان صاحب سے ڈگریاں لینے آ ئے تھے، ایک تعلیمی ادارے میں کھڑے ہو کر بات کرتے ہوے آدمی کو اس کے تقدس کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ بولنے کے لیے ڈی چوک تو شاید کسی حد تک موزوں ہو لیکن ایک تعلیمی ادارہ کی فضا کو ایسے طرز گفتگو سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔مسئلہ یہ ہے کہ کر کٹ کھیلتے کھیلتے خان صاحب میدانِ سیاست میں آ گئے۔
قائد محترم کو خود کتاب سے کبھی شغف ہی نہیں رہا۔مطالعہ وہ کرتے نہیں۔صحبت بھی وہ اہلِ علم کی بجائے تجوری اور افتاد طبع کی مماثلت دیکھ کر ایسے ہی عالی مرتبت لوگوں کی رکھتے ہیں۔ ایک دور تھا عمران کے مشیرانِ کرام میں خورشید ندیم اور حفیظ اللہ خان نیازی جیسے لوگ تھے اب اس مسند پر قبلہ عون چودھری اور نعیم الحق فائز ہیں۔عون چودھری جن کے تعارف کا سب سے مضبوط حوالہ ایک زمانے میں اداکارہ نور کا شوہر ہونا ہے اور نعیم الحق جو سیاست سے زیادہ ’ ایس ایم ایس‘ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
دائرہ کار پھیل بھی جائے تو کتنا؟ حقوقِ انسانی کے اس دور میں مرید رکھنے اور نذرانے لینے والے شاہ محمود قریشی تک، یا جہانگیر ترین اورعلیم خان تک ؟فکری پختگی کہاں سے آئے؟ادھر مزاج کی تہذیب کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔اُدھر مطالعہ کا ذوق ہی نہیں اور ذوقِ مطالعہ نہ ہو تو بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی اعزازی پرو چانسلر شپ بھی مزاج کی تہذیب نہیں کر سکتی۔اوپر سے زعمِ تقوی کا بوجھ الگ،چنانچہ غیر سنجیدگی اور ناتراشیدہ پن کا آسیب ہے کہ جانے کا نام نہیں لیتا۔شوکت خانم ہسپتال کے لیے عطیات مانگ مانگ کے اب صاحب کے سارے جھاکے کھُل گئے ہیں۔چنانچہ اب ’ دے جا سخیا راہِ خدا‘ کے ساتھ ایک عدد ’ ورنہ‘ بھی ظہور پزیر ہو چکا ہے۔جس سلو برادری کو صاحب دھمکی دے رہے تھے وہ پہلے ہی اپنی چالیس کنال زمین عطیہ کر چکی ہے۔لیکن نرگسیت کو ان چالیس کنالوں کو کوئی لحاظ نہیں۔اس کی آنکھ غریبوں کی باقی کی زمین پر ہے۔
بات جناب عمران خان تک محدود رہتی تو افتادِ طبع کے باب میں لکھ کر نظر انداز کی جا سکتی تھی لیکن ان کی غلطیوں پر ان کے وابستگان کا رد عمل زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہرسیاسی رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن ہمیں گمان تھا کہ عمران ایک نئے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اور پی ٹی آئی کا کارکن زیادہ با شعور ہے۔یہاں ن لیگ یا پی پی پی والا ماحول نہیں ہو گا کہ قائد نے جو کہہ دیا اسی کو حرف آ خر سمجھ لیا ۔
یقین تھا کہ عمران کوئی غلطی کریں گے تو ان کا باشعور کارکن انہیں منہ پر غلط کہہ دے گا لیکن یہ امید بھی اب دم توڑ چکی ہے۔چنانچہ آپ دیکھ لیں جب نمل جیسے ادارے میں عمران خان نے ایک انتہائی نازیبا رویہ اختیار کیا تو آ گے سے تالیاں بجنے لگیں۔ہم تو اس ادارے کے بارے میں بہت زیادہ حسنِ ظن رکھتے تھے لیکن معلوم یہ ہوا کہ سب مایا ہے۔ذرا سوچیے عمران خان کے اس بیان پر نمل میں تالیاں نہ بجی ہوتیں اور یہ بات سن کر مجمع بالکل خاموش ہو گیا ہوتا اور یہ خاموشی عمران کو بتادیتی کہ وہ جو بات کر رہے ہیں وہ ان کے منصب اور اس تعلیمی ادارے کے وقار سے فروتر بات ہے تو اس کا عمران کے رویوں پر کتنا مثبت اثر پڑتا ۔وہ ساری عمر ڈی چوک اور نمل کے ماحول کا فرق نہ بھلا پاتے۔
اس کے بعد محاذ ٹائیگرز نے سنبھال لیا ۔ان کا مقدمہ یہ ہے کہ عمران خان یونیورسٹی کے لیے زمین مانگ رہے ہیں یہ بالکل جائز بات ہے البتہ پٹواریوں کو اس سے تکلیف ہو رہی ہے،مالکان کی زمین کوڑیوں کی تھی نمل کے بعد مہنگی ہو گئی اب وہ مہنگی کیوں بیچنا چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
علم کی دنیا میں اس رویے کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔پہلی بات تو یہ کہ عمران یونیورسٹی کے لیے نہیں سٹیڈیم کے لیے زمین مانگ رہے تھے۔اور یہ سٹیڈیم بھی خالصتا ایک نجی تعلیمی ادارے کی کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے بننا ہے۔یہاں کوئی بین الاقوامی میچ تو ہو نہیں ہو سکتا کیونکہ بین الاقوامی ٹیمیں صرف وہاں کھیلنے کو حامی بھرتی ہیں جہاں اعلی معیار کے ہوٹل ہوں۔اب یہ کوئی اتنا مبارک کام نہیں کہ آپ سیکشن چار لگا کر زمین پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیں۔
عمران خان اور ان کے ٹائیگرز قانون کا کچھ مطالعہ کر لیں تو انہیں معلوم ہو کہ نجی پراجیکٹ کے لیے سیکشن چار لگ بھی نہیں سکتی۔سیکشن چار لگانے کے بھی کوئی آداب ہیں۔اس ملک میں کتنے نجی تعلیمی ادارے ہیں کیا انہیں یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ سب اسی طرح پڑوسیوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کر دیں؟
عمران خان اس بارے میں خود نہیں جانتے تو بے شک علیم خان صاحب سے پوچھ لیں۔عمران خان اور ان کے وابستگان کو نجی ملکیت کے اسلامی تصور اور اس کے بارے میں دستور پاکستان کے آرٹیکل 23 اور24 کا درست تناظر میں مطالعہ کرنے کی بھی شدیدضرورت ہے۔زمین کوڑیوں کی مالیت کی ہو یاسونے جیسی، اس پر فائق حق صرف اس کے مالک کا ہے۔یہ حق کسی انوکھے لاڈلے کو نہیں دیا جا سکتا۔