ایڈیٹر نوٹ
شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .
سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم
طوفانوں کے ٹلنے میں، موسم کے بدلنے میں
اِک سوزِ دروں رکھنا، آنکھوں میں نمی رکھنا
تائیوان کے شہر hualien کے ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد میں اور فاروقی صاحب نے ٹیکسی پکڑی اور مختلف سڑکوں سے گزرنے کے بعد ایک ماربل فیکٹری میں پہنچ گئے ۔ اس فیکٹری میں ماربل کی کٹنگ اور پالش کا کام ہوتا تھا اور ہم سے پہلے تین پاکستانی بھی یہاں کام کرتے تھے ۔ ایک وکی تھے ،جن کا تعلق خانقاء ڈوگراں سے تھا ، وہ طویل عرصے سے تائیوان میں مقیم تھے اور چائینیز زبان پر عبور رکھتے تھے ۔ دوسرے راکی تھے، جن کا تعلق کراچی سے تھا وہ بھی عرصہ ایک ڈیڑھ سال سے وہیں مقیم تھے لیکن چائنیز زبان سے بالکل ہی نابلد تھے اور تیسرے افضل بھائی جو ہمارے علاقے ہی سے تعلق رکھتے تھے ، وہ چائنیز ہی کیا اردو زبان میں بھی بالکل کورے تھے ۔ ماربل کی یہ فیکٹری بہت بڑی بھی نہیں کچھ درمیانی سی فیکٹری تھی ۔ فیکٹری کی مالکن کا شوہر اور ان کی بہنیں بھی فیکٹری میں کام کرتی تھیں، گویا یہ ان کا خاندانی کاروبار تھا ۔فیکٹری کے ساتھ ایک طرف الگ بلڈنگ بنی ہوئی تھی، جہاں رہائش کا انتظام اور کچن موجود تھا۔ پاکستانی کھانا خود ہی پکایا کرتے تھے ۔ فیکٹری کے اندر دفتر میں ایک بت رکھاہوا تھا جس کے سامنے صبح روازنہ اگربتی جلائی جاتی اور کچھ پھل اور مرغی کا گوشت رکھا جاتا ۔ اس دوران کچھ بھجن وغیرہ بھی ٹیپ ریکارڈر پر چلائے جاتے تھے ۔ وہ بت ہمارے لیے بالکل اجنبی تھا۔ ایسا بت پہلی مرتبہ دیکھا جو گولڈن کلر کا تھا اورگلے میں تسبیح ڈالے، موٹی سی توند نکالے ہوئے ہنس رہا تھا۔ بعد میں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ دولت کا دیوتا ( Happy Buddha ) ہے ۔ میں بہت دیر تک محو حیرت رہا اور سوچتا رہا کہ انسان بھی اپنے اندر کیسی فطرت رکھتا ہے کہ کسی خالق کے تصور کے بغیرجینا ہی نہیں چاہتا۔
اگرچہ وہ اس خالق کو اپنے نظریات و تصور سے خود ہی سے تخلیق کر ڈالے لیکن اس کے بغیر یہ رہ نہیں سکتا۔ یہ مذہب بھی ہندو ازم اور تاؤ ازم کا مکسچر تھا جو اپنی مقامی روایات وکلچر کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا ۔ ان اخلاقی تعلیمات کا شعور بھی موجود تھا جو ہمارے خیال میں اللہ نے ہر انسان کو ودیعت کی ہوئی ہیں۔ کہیں بھی، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ،یہاں تک کہ لادین بھی کچھ بنیادی اخلاقیات بلاخصوص اچھائی و برائی کا کسی نہ کسی حد تک اجمالی تصور رکھتے ہیں ۔ لیکن ہماری مذہبی فکر تو یہ کہتی ہے کہ یہ تصور ہمیں وحی کے ذریعے سے ملاہے ۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو پھر ان کے پاس یہ تصور کہاں سے آیا ہے جو اپنے دین سے عملاً انحراف کرتے ہیں یا وہ لوگ جو خدا کے وجود کے ہی انکاری ہیں۔ اگر یہ اچھائی برائی کے تصورات اور معیارات انسان نے محض تجربات ہی سے سیکھے ہیں تو پھر مسیحی، فلپائنی اور یہ ہندوازم ،بدھ ازم اورتاؤ ازم کے آمیزے میں یہ تصورات بہت حد تک یکساں کیوں ہیں؟َ مجھے اس بات نے بہت تعجب میں مبتلا کیا کہ یہ لوگ خالق کا تصور خود اپنے تخیل کی مدد سے بنا بیٹھےہیں کہ وہ ان کی غیبی مدد کرے گا ،ان کے ساتھ رہے گااور انہیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ جس سے ہر مصبیت کے وقت، جب کوئی بھی راستہ نہ ملے تومدد کی امید لگائی جا سکے، ایسا خالق انہوں نے خود ہی تخلیق کرلیا تھا ۔ کچھ مغربی دانشور جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب انسان کے خوف سے پیدا ہوا ہے، وہ کچھ مذایب کے بارے میں درست کہتے ہیں ۔ یہاں بھی مجھے لگا کہ یہ مذہب بھی انسان کے جان و مال کے خوف سے پیدا ہوا اور اس نے اخلاقی تعلیمات اس فطرت سے لیں جو خدا نے اسے عطا کی تھیں ۔
فیکٹری کی مالکہ قبائلی نسل سے تعلق رکھتی تھی اور مزے سے سگریٹ کے کش لگایا کرتی تھی ۔ اس کا شوہر بھی بہت کم فیکٹری میں نظر آتا ۔ ان کی ایک چھوٹی سی بیٹی بھی تھی ۔ ہمیں فاروقی صاحب ان کے پاس چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔ فیکٹری میں ہم چار پاکستانی ہوگئے اور سب کےلیے عجوبہ ہی تھے ۔ مالکن بہت محنت سے اشاروں سے ہمیں بات سمجھاتی تھی ۔ بہت مہمان نواز اور بہت خیال کرنے والی تھی ،بالکل ایسے ہی جیسے ہر جگہ پہاڑی قبائلی لوگ بہت اپنائیت سے ملتے ہیں ،سادہ طبیعت اور فطرت کے قریب تر تائیوانی باشندے مچھلی کے شکار اور گانے کے بہت شوقین ہیں ۔ مچھلی کے شکار کےلیے بڑے بڑے تالاب بنے ہوئے ہیں جہاں مچھلی فارم سے مچھلی لا کر خود ڈالی جاتی ہے۔ لوگ وہاں جاتے، کرایے پر فشنگ راڈ حاصل کرتے اور مچھلی پکڑتے ہیں ۔ تالاب کے کناروں پر کرسی میز رکھے ہوتے ہیں اور مشروبات بھی ، اور یہ انتظام بھی موجود ہے کہ آپ نے جو مچھلی پکڑی ہے اسے خود ہی بھون کر کھائیں ۔نہیں پکڑی تو بھی ان سے کہیں وہ آپ کو مچھلی فراہم کر دیں گے، آپ جیسے چاہتے ہیں بنا کر کھائیں ۔ ساتھ ٹی وی پڑا ہوتا ہے ، اپنی پسند کے گانا لگائیں، جس پر میوزک اور گانے کے بول لکھے ہوتے ہیں، مائیک آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ آپ گائیں ۔
یعنی کہ یہ مچھلی تالاب ریسٹورنٹ ہوتے ہیں ۔ کچھ ریسٹوران میں گانے والے مغنی ساز لیے بیٹھے ہوتے ہیں ، پسند کا گانا انہیں لکھ کر دیں وہ آپ کےلیے گاتے ہیں ۔ یعنی یہ تفریح بھی ان کی روایت ہے ، وہ اپنی پرانی روایت جو جزیرہ نما ہونے کی وجہ سے مچھلی کا شکار تھا ، برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اسی روایت میں جدت بھی پیدا کر دی گئی اور اسے تفریح بنا دیا گیا ۔ مجھے یہ خیال آیا کہ انسان کتنی محنت ومشقت سے پیسہ کماتا ہے اور پھر اسے اپنی خوشی اورتفریح کےلیے کیسے خرچ کردیتا ہے ۔ اس تفریح کے ذرائع سے بھی کتنے لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے ۔ یہ تفریح انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے جو اس کی تھکاوٹ کو دور کر کے اسے سکون کا احساس دلاتی ہے ۔ میرے خدا نے اس انسان کی خوشی اورراحت کےلیے کیسے کیسے ذرائع پیدا کر رکھے ہیں اور پھر انسان ان ذرائع کو ترتیب دے کر کیسا خوبصورت بنا دیتا ہے اور اپنے کلچر اور حالات کے لحاظ میں ان میں تبدیلی بھی کرتا چلا جاتا ہے ۔ میرے لیے ایسے راڈ سے مچھلی پکڑنے کا تجربہ بہت خوشگوار تھا ۔ اس سے پہلے صرف ایک ہی بار کالج کے زمانے میں اپنے دوست کے ساتھ راڈ کے ساتھ مچھلی پکڑنے گیا تھا۔ رات کی تاریکی میں ہلکی ہلکی سی روشنی اور کنارے پر آپ کرسی رکھ کر مچھلی کےلیے کانٹا لگا کر اکیلے بیٹھے ہوئے مچھلی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ نادانی کرے اور آپ کے لگے کانٹے میں پھنس جائے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ خاموش بیٹھے پانی کو دیکھ رہے ہیں اور اپنے ذہن میں خیالات کی جمع تفریق کر رہے ہیں ۔
فیکٹری کی مالکہ ہمیں چھٹی والے دن ایسی جگہوں پر لے جاتی تھی تاکہ ہم غیر ملکی یہاں کی معاشرت سے واقف بھی ہو جائیں اور home sickness کا شکار بھی نہ ہوں ۔
یہ hualien شہر سمندر کے کنارے آباد ہے ۔بلکہ تائیوان کے تمام شہر ہی سمندر کے نزدیک ہیں ۔ ہفتے کی رات کو سمندر کے کنارے نائٹ مارکیٹ لگتی تھی جس میں لوگ کھانے پینے کی اشیاء اور مختلف تفریحات کے لیے چھوٹے چھوٹے سٹال لگاتے تھے ۔ ہم بھی وہاں جاتے اور کوئی ضرورت کی چیز خرید کر سائیڈ پر کہیں بیٹھ جاتے تھے ۔ مسیحی مبلغین بھی وہاں گھومتے رہتے تھے ۔ مغرب کی تہذیب سے تائیوان بہت متاثر ہو رہا تھا اور اس کا ثبوت انگریزی زبان کو سیکھنے کے شوق اور مسیحیت کا اشاعت اور پھیلاؤ تھا ۔ ان مبلغین میں نوجوان لڑکیاں بھی ہوتی تھیں جو اپنا پمفلٹ دے کر کچھ باتیں کرے آگے بڑھ جاتی تھیں ۔ یہ شاید اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کا اپنا مذہب بھی صرف تقلید کی بنیاد پر ہی قائم ہے ۔ اس میں انہوں نے ہندو ازم ،بدھ ازم کے ٹانکے لگا کر بھی دیکھ لیا لیکن نوجوان نسل کو مطمئن نہیں کر سکے ۔ اس خلاء کو مسیحیت سے پر کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔کیونکہ مذہب اور خالق کا تصور انسان کی فطرت میں خدا نے خود رکھا ہے ، انسان اس جگہ کو خالی رکھ ہی نہیں سکتا ۔وہ کسی نہ کسی کو اس مقام پر بیٹھاتا ضرور ہے ۔پھراگر اس کے برعکس دلائل مل جائیں تو کسی اور کی تلاش شروع کر دیتا ہے ۔
کچھ عرصہ بعد وہ ماربل فیکٹری مالی بحران کا اس حد تک شکار ہو گئی کہ فیکٹری کو بند کرنا پڑگیا۔فیکٹری کی مالکہ نے ایک دومنزلہ مکان کرایہ پر حاصل کیا اور ہمیں لے کر اس مکان میں شفٹ ہو گئی ۔