ایڈیٹر نوٹ
شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .
سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم
بیٹی کی رجسٹریشن کےلیے گئے تو کچھ ڈاکومنٹس مانگ لیے کہ جا کر ایمبیسی سے لیٹر لے کر آئیں کہ اس بچی کی آپ نے پاکستانی رجسٹریشن نہیں کروائی ۔ چائنا dual نیشنیلٹی کی اجازت نہیں دیتا اس لیے یہ ڈاکومنٹس مانگ رہے تھے ۔ اب وہاں سے چار گھنٹے کا سفر بس میں کر کے Lanzhou شہر اور پھر وہاں سے چوبیس سے چھبیس گھنٹے کا سفر کرکے بیجنگ کون جائے اور پھر ایمبیسی یہ لیٹر کیسے دیے جبکہ میری شادی کی رجسٹریشن ہی چائنا کی تھی ۔ یہ تو مسئلہ کشمیر بن جاتا ۔ پہلے سسرال والوں نے کہا کہ ان کا ایک جاننے والا ڈاکٹر ہے اس سے کہتے ہیں ۔ میں سسر کے ساتھ اس کے پاس گیا اور ایک بڑا پیکٹ سگریٹ کا پیش کیا جو اس نے ایسے قبول نہیں کیا لیکن سسر اسے دوسرے طریقے سے دے کر آئے ۔ اس کے رویے سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کام نہیں کرے گا اس لیے ہسپتال سے باہر نکل کر میں نے سسر صاحب سے کہا کہ یہ کام ایسے نہیں ہوگا ۔
اس نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ دو دن انتظار کر لو ۔ میں بھی دو دن کےلیے خاموش ہو گیا ۔ ان دو دنوں میں سسرال کے گھر ایک شخص آیا جو حکومت کی طرف سے آیا اور کچھ چیزیں پوچھ کر لکھ رہا تھا ۔ اس کے ذمہ شاید اس علاقے میں موجود بھیڑوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کا ذمہ تھا اور ساتھ اس نے یہ بھی تنبیہ کہ انہیں باہر نہیں لے کر آنا ورنہ ضبط ہو جائیں گی ۔ بہت ہنس مکھ سا تھا ۔ میری بیوی نے مجھے بتایا کہ یہ گاؤں کا نمبردار ہے ۔ میں نے اسے زبردستی اپنے پاس بٹھایا اور چائے اور سگریٹ پیش کیے جو اس نے شکریے سے قبول کر لیے ۔ میں نے بیوی سے کہا اس کا نمبر لے لو اور اس سے پوچھا کہ کب نیچے تھانے کی طرف جاؤ گے اس نے دو دن بعد کا بتایا کہ وہ کسی کام کے سلسلے میں تھانے والے علاقے کی طرف جائے گا ۔ دو دن بعد میں بیوی کو لے کر اس تھانے والے قصبے میں جہاں بچی کی رجسٹریشن ہونی تھی گیا ۔
پہلے گھومتے رہے ۔ تھوڑی دیر گھومنے کے بعد وہ نمبردار صاحب موٹر سائیکل پر نظر ا گئے ۔ میں انہیں پکڑ کر ریسٹورنٹ میں لے گیا ۔ وہاں وہ کھانے سے نہ نہ کرتا رہا میں نے کہا کہ کھانا تو ضرور کھانا ہے ۔ اور بتایا کہ بچی کی رجسٹریشن کروانی ہے ۔ وہ بھی سمجھدار تھا سمجھ گیا کہ کیا کرنا ہے ۔ معاملے کو سدھانے کے لحاظ سے اس نے کھانے کی بہت سی ڈشوں کا آرڈر دیا اور ہمیں کہا کہ انتظار کرو میں آتا ہوں ۔ دس منٹ بعد وہ کوئی پانچ چھ لوگوں کو لے کر آ گیا ۔ جن میں وہ تمام لوگ شامل تھے جن کے ہاتھ میں رجسٹریشن کا پراسس تھا ۔ پھر کھانا ختم ہونے کے بعد وہ ہمیں ساتھ لے کر گئے اور اسی وقت بغیر کسی ایمبیسی کے سرٹیفیکیٹ کے رجسٹریشن ہو گئی ۔ یعنی ہمارا پاکستانی فارمولا وہاں بھی چلتا ہے ۔ بلکہ شاید یہ فارمولا دنیا میں ہر جگہ کام کرتا ہے ۔
بیوی نے کہا کہ اس کا دل کر رہا ہے کچھ دن مزید والدین کے پاس رکے ۔ میں نے جواب دیا بسم اللہ آپ آ جائیے گا ، میں واپس جا کر حصول رزق کےلیے دوڑ دھوپ کرتا ہوں ۔ میرا دل کر رہا تھا کہ کوئی دوسرا جانے کا راستہ ڈھونڈا جائے کہ بس کا سفر لمبا اور تھکا دینے والا تھا ۔ پتہ کرنے پر یہ بات علم میں آئی کہ گاؤں کے پاس سے ایک بس Lanzhou شہر جاتی ہے جو کہ اس صوبہ گانسو Gansu کا مرکزی شہر ہے اور وہاں سے ٹرین شنگھائی Shanghai شہر ۔ بس سیلانی طبیعت کہ اس طرف والے سفر کی ٹھان لی ۔ ساس صاحبہ نے زاد راہ کے طور پر مکئی اور انڈے ابال کر ساتھ دے دیے جو گھر میں موجود دیسی مرغیوں کے تھے ۔ اور میں سسر کے ساتھ سڑک پر بس کے انتظار میں کھڑا ہو گیا ۔ گاؤں والے کھیتوں سے آ جا رہے تھے اور مجھے سے علیک سلیک بھی کرتے جاتے ۔ میں بھی ان کی مقامی زبان ان سے حال پوچھتا ۔ وہ ایک ہی فقرہ تھا جو مجھے آتا تھا اور اس سے وہ ہنسنے لگتے ۔
خدا خدا کرکے بس آئی اور میں بیٹھ کر روازنہ ہو گیا ۔ ساڑھے تین گھنٹے کے سفر میں میری بیوی نے کوئی پانچ مرتبہ کال کی اور پوچھا کہ کہاں پہنچے ہوں ۔ اب یہ کوئی ٹیکسلا سے راولپنڈی کا سفر تو تھا نہیں کہ میں بتاتا کہ سنگجانی ٹول پلازے سے گزر رہا ہوں یا ترنول پھاٹک پر پہنچا ہوں ۔ بس یہی کہتا کہ راستے میں ہوں ۔ یہ بس بہت سے گاؤں سے گزر کر Lanzhou شہر پہنچی ۔ میں یہ دوسری بار Lanzhou شہر آیا تھا ۔ بس سے اتر کر میری بھی حالت وہ تھی کہ آنھے نو ماں مستے سٹ آئی ( اندھے کو اس کی ماں مسجد پھینک آئی ) کسی سے پوچھا کہ ریلوے سٹیشن کہاں ہے ۔ اس نے بس کا نمبر بتایا اور اشارہ کیا کہ اس طرف والی بس پر بیٹھ جاؤ ۔ ریلوے سٹیشن سے ٹکٹ لیا تو معلوم ہوا کہ ابھی پانچ گھنٹے بعد ٹرین جائے گی ۔ اب میں ٹرین کا ٹکٹ لے کر سٹیشن سے باہر نکلا اور کھڑے ہو کر اردگرد کا جائزہ لیا ۔ تین متوازی سڑکیں سٹیشن کی طرف آ رہیں تھیں ۔
درمیان والی سڑک کا انتخاب کیا اور سیدھا چل پڑا ۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایک مسلمانوں کا ریسٹورنٹ نظر آیا ۔ جس کی نشانی یہ تھی کہ اس کا بورڈ تھا جس پر عربی میں الطعام المسلمین لکھا ہوتا اور بورڈ سبز رنگ کا ہوتا ہے ۔ اندر داخل ہوا اور احتیاط کاؤنٹر پر بیٹھے بزرگ کو السلام علیکم کہا جس کا جواب وعلیکم السلام سے ملا اور میں اطمینان سے بیٹھ گیا ۔ دیکھا تو سارے اسی کاؤنٹر پر پیسے جمع کرا کر کوئی کاغذی ٹوکن لے کر سامنے والی کھڑکی پر جاتے اور اپنے کھانے کا پیالہ لے کر میز پر بیٹھ جاتے ۔ میں کچھ دیر بیٹھا رہا پھر میں بھی اٹھا کاؤنٹر پر گیا نوڈلز کے پیسے جمع کروائے اور ٹوکن لیا ۔ کھانے والی کھڑکی پر گیا تو وہاں پر موجود لڑکوں نے مجھے السلام علیکم کہا پھر پوچھا کہاں سے ہو اور مسکرا کر پیالہ میرے حوالے کر دیا ۔ میں میز پر بیٹھا کہ وہ کھانے والا لڑکا میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ کہاں سے آئے ہو اور کہاں جا رہے ہو ۔ بہت اشتیاق ، محبت اور اپنائیت تھی اس کے لب و لہجہ میں کہ جیسے میں اسی کے گھر کا فرد ہوں ۔ پھر اٹھ کر میرے لیے اچار لے کر آ گیا اور خود ہی پیالے میں اور نوڈلز بھی ۔ میں کچھ دیر وہاں بیٹھا پھر ان سے مسجد کا پوچھا جو قریب ہی تھی اور نماز کےلیے چلا گیا ۔
یہ مسجد بھی کوئی سو سال سے زیادہ پرانی تھی ۔ اور بہت اعلی طرز تعمیر کی ہوادار بنی ہوئی تھی ۔ ایک صاحب سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ مسجد کی جگہ کافی بڑی تھی پھر حکومت نے یہ تھوڑی چھوڑ کر باقی اس نے اپنے قبضے میں لے لی ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس شہر میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں ۔ یعنی یہ Gansu صوبہ ان علاقوں میں شمار ہوتا تھا جو کسی دور میں Quranic belt کہلاتے تھے ۔ ظہر کی نماز پڑھی اور وہیں بیٹھا رہا ۔ عصر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی ۔ وہی دس بارہ بوڑھے تھے اور بس ، جبکہ اردگرد بھی مجھے علاقے میں کافی مسلمان نظر آئے ۔ یا شاید اور بھی مساجد ہوں ۔ ابھی ٹرین کا وقت تھا مغرب اور عشاء اکٹھی ادا کیں اور ریلوے سٹیشن کی طرف چل پڑا ۔ وقت پر ٹرین آئی ۔ ٹکٹ دیکھا کر پلیٹ فارم پر گیا مطلوبہ ٹرین کے ڈبے کے دروازے پر ٹرین ہوسٹس کھڑی تھی مجھ سے ٹکٹ دیکھ کر اشارہ کیا کہ دبے میں سوار ہو جاؤ ۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اوپر ہی میری برتھ تھی ۔