فلسطین میں الجزیرہ چینل کی سب سے سینیر نامہ نگار شیریں ابوعاقلہ سات دن پہلے (گیارہ مئی) فرائصِ منصبی نبھاتے ہوئے اس وقت ایک اسرائیلی فوجی نشانچی کی گولی کا نشانہ بن گئیں جب وہ غربِ اردن میں تلاشی اور تشدد کی ایک اسرائیلی کارروائی کی دیگر صحافیوں کے ہمراہ رپورٹنگ کر رہی تھیں۔
جب سے الجزیرہ کی نشریات شروع ہوئی ہیں (انیس سو چھیانوے )۔تب سے شیریں ابو عاقلہ چینل کی بارہویں رپورٹر ہیں جو فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہوئی ہیں۔مگر شیریں کے المئے نے بوجوہ عالمی ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں خاصی جگہ پائی اور اس کے اثرات فی الحال یروشلم سے واشنگٹن تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔
شیریں دو فریقوں کے مابین مسلح جھڑپ کا نشانہ نہیں بنیں بلکہ آخری لمحے تک انھوں نے حفاظتی بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور جیکٹ پر بڑا بڑا پریس لکھا ہوا تھا۔شیریں کوئی نئی نویلی یا عام صحافی نہیں تھیں بلکہ اپنی پیشہ ورانہ جرات مند اور متوازن رپورٹنگ کے سبب فلسطین، اسرائیل اور بیشتر مشرقِ وسطی میں جانی جاتی تھیں۔سن دو ہزار کے انتفادہ سے رمضان کے دنوں میں مسجدِ اقصی کے نمازیوں پر اسرائیلی پولیس تشدد اور غزہ میں دو ہزار آٹھ سے اب تک بھرپور اسرائیلی فوج کشی سمیت کون سا اہم واقعہ ہے جو شیریں کی چشم دید رپورٹنگ کے احاطے سے باہر رہا ہو۔
لہٰذا جب انھیں نشانہ بنایا گیا تو یہ کوئی اتفاقی ہلاکت نہیں تھی بلکہ جانا بوجھا قتل تھا۔ ثبوت یہ ہے کہ ایک سنگل گولی چلی اور ہیلمٹ سے ذرا نیچے کنپٹی کے آر پار ہو گئی اور جب انھیں بچانے اور اٹھانے کے لیے ساتھی آگے بڑھے تو ان پر بھی فائرنگ ہوئی تاکہ شیریں کو فوری طور پر اسپتال روانہ نہ کیا جا سکے۔اس فائرنگ میں شیریں کا ایک ساتھی پروڈیوسر بھی زخمی ہوا۔ شیریں اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی شہید ہو چکی تھیں۔
اسرائیل نے پہلے تو یہ بیان جاری کیا کہ شیریں دراصل ایک فلسطینی اہل کار کی گولی کا نشانہ بنی ہیں لیکن جب وڈیو ثبوت سامنے آنے لگے تو اسرائیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہو سکتا ہے شیریں کو کسی اسرائیلی اہل کار کی گولی لگی ہو اور اگر فلسطینی حکام چاہیں تو اسرائیل اس واقعہ کی ’’ فورنزک تحقیق ‘‘ میں تعاون پر آمادہ ہے۔
اگر واقعی بقول اسرائیلی حکام یہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا تو پھر اس کی کیا تاویل پیش کی جائے کہ اگلے ہی روز مشرقی یروشلم میں شیریں کے آبائی گھر پر اسرائیلی پولیس نے چھاپہ مارا اور کچھ کاغذات ، فلسطینی پرچم اور سی ڈیز ضبط کر کے لیے گئی۔
اور اگر یہ واقعی کوئی اتفاقی واردات تھی تو پھر دو روز بعد (تیرہ مئی) اسرائیلی پولیس کے درجنوں اہل کاروں نے شیریں کے جنازے پر حملہ کیوں کردیا ، تابوت پر لگے فلسطینی پرچم کیوں اتار کے پھاڑ دیے۔ اس دھینگا مشتی میں تابوت تقریباً گر گیا۔درجنوں سوگواروں کو بھی جنازے کے جلوس میں گرفتار کر لیا گیا۔اور اس چرچ کو کیوں گھیرے رکھا جس کے اندر شیریں کی آخری رسومات ادا کی جانی تھیں اور اس کیتھولک قبرستان کے اندر پہلے سے بھاری اسرائیلی پولیس کیوں گھسی ہوئی تھی جہاں بالاخر شیریں کی تدفین عمل میں آئی۔کیا شیریں کوئی مطلوب دھشت گرد تھی ؟
صرف اس غائبانہ نمازِ جنازہ میں اسرائیلی مداخلت نہیں ہو سکی جو فلسطینی صدر محمود عباس کے صدارتی احاطے میں ادا کی گئی۔
اگر یوکرین میں کوئی مغربی صحافی محاذِ جنگ کی کوریج کے دوران یا غرب ِ اردن یا افغانستان میں مارا جاتا تو امریکی و یورپی ذرایع ابلاغ میں اب تک ادھم مچ رہا ہوتا۔مگر حسبِ توقع اسرائیلی خفگی اور یہود دشمنی کے کلنک سے بچتے ہوئے مغربی زرایع ابلاغ نے احتیاطی زبان اختیار کی۔
مثلاً ’’اکیاون سالہ فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ غربِ اردن کے کشیدہ ماحول میں گولی کا نشانہ بن گئیں‘‘۔ کس کی گولی کا نشانہ بن گئیں یہ آپ کو سرخی کے بجائے تفصیل میں کہیں ملے گا۔اخبار نیویارک ٹائمز نے پہلے تو ہیڈ لائن دی کہ ’’ فلسطینی صحافی شیریں کے جنازے پر اسرائیلی پولیس کا حملہ ‘‘ ۔پھر کسی نے سمجھایا تو ہیڈلائن بدل دی گئی ’’شیریں کے جنازے میں شریک سوگواروں اور اسرائیلی پولیس میں جھڑپ ‘‘ ۔
عام طور پر امریکی محکمہ خارجہ اسرائیل کے ہاتھوں ایسی ہلاکتوں کا نوٹس نہیں لیتا۔مگر مجبوری یہ آن پڑی کہ شیریں ابو عاقلہ دوہری شہریت(فلسطینی۔ امریکی) رکھتی تھیں چنانچہ محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنی پریس بریفنگ میں بس اتنا کہا کہ ’’ صحافی شیریں ابوعاقلہ کی موت افسوس ناک ہے ‘‘ ۔گویا شیریں کسی نشانچی کی گولی کا نشانہ نہیں بنی بلکہ دردِ قولنج سے بلک بلک کے مر گئی۔
جب شیریں کے جنازے پر اسرائیلی پولیس حملے کے ردِ عمل میں بین الاقوامی مذمت شروع ہو گئی اور انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے مبصرین نے بھی شیریں کی ہلاکت کو جنگی جرائم کی تعریف پر لگ بھگ پورا اترنے کا قانونی امکان بتایا تب کہیں جا کے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے شیریں کی موت پر ’’گہرے دکھ ’’ کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ اس واقعہ کی شفاف اور غیرجانبدار تحقیقات ہوں گی۔
کسی اعلیٰ امریکی اہل کار کے منہ سے اتنا بھی نکلنا بڑی بات ہے۔کیونکہ ماضی میں غزہ پر بمباری کے نتیجے میں ڈیڑھ سے دو ہزار فلسطینی شہریوں کی موت پر بھی امریکا ’’ گہرے دکھ ‘‘ میں مبتلا ہوئے بغیر فریقین سے تحمل برتنے کی درخواست کرتا آیا ہے۔یعنی قاتل بھی تحمل سے کام لے اور مقتول بھی تحمل کا مظاہرہ کرے۔
لیکن ایمبولینسوں، اسپتالوں، اسکولوں اور قبرستانوں پر بمباری اور گھروں کو بلڈوز کرنے کے عادی اسرائیل کے ہاتھوں اگر کوئی فلسطینی صحافی ماری بھی گئی تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ؟
یہ میری لاعلمی ہے کہ اب تک پاکستان کی کسی سرکردہ صحافی تنظیم یا پریس کلب کی جانب سے شیریں کی شہادت پر کسی باضابطہ ردِ عمل کا اظہار نگاہوں اور کانوں سے نہیں گذرا۔میری اس غفلت سے درگزر فرمائیے گا۔