مریم نواز صاحبہ ایسے نہیں پلیز !

پاکستان میں صوبوں کو جو فنڈز ٹرانسفر ہوتے ہیں، وہ نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کے تحت ہوتے ہیں۔ آئین کے مطابق، وفاق صوبوں کو ان کی آبادی، مالی ضروریات، اور دیگر عوامل کی بنیاد پر فنڈز فراہم کرتا ہے۔
2024-25 میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو کتنے فنڈز ملے؟ گزشتہ مالی سال کے دوران، صوبوں کو درج ذیل فنڈز منتقل کیے گئے: پنجاب: 3,695 ارب روپے، سندھ: 1,856 ارب روپے، خیبر پختونخوا: 1,221 ارب روپے (جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے 1% اضافی حصہ شامل ہے)، بلوچستان: 667 ارب روپے۔ یہ وسائل صوبوں کو ان کے ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات پر خرچ کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔

این ایف سی ایوارڈ کے بعد فنڈز کی صوبائی سطح پر تقسیم؟ نظریاتی طور پر، ہر صوبے کو اپنے اندر Provincial Finance Commission (PFC) تشکیل دینا ہوتا ہے، تاکہ فنڈز صوبے کے مختلف علاقوں میں آبادی، بنیادی سہولیات، اور ترقیاتی ضروریات کی بنیاد پر منصفانہ طور پر تقسیم کیے جا سکیں۔ لیکن حقیقت میں، ان فنڈز کی تقسیم اکثر غیر متوازن ہوتی ہے، اور شہری ترقیاتی منصوبوں کو دیہی ترقی پر فوقیت دی جاتی ہے۔
مریم نواز صاحبہ کا زیر زمین ٹرین کا منصوبہ !

600 ارب روپے کی زیر زمین ٹرین – ایک ترقیاتی ترجیح یا فضول خرچی؟ حالیہ طور پر پنجاب حکومت لاہور میں ایک زیرِ زمین ٹرین منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کی لاگت 600 ارب روپے بتائی جا رہی ہے، اور یہ منصوبہ 3 سال میں مکمل ہوگا۔ یہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب: پنجاب میں 1 کروڑ سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور صحت کی بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وسائل زیادہ بہتر طریقے سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ نہیں کیے جا سکتے تھے؟

600 ارب روپے میں کیا ممکن ہے؟

1. پرائمری اسکولز: ایک معیاری پرائمری اسکول کی تعمیر کی لاگت 1.7 کروڑ روپے ہے۔ 600 ارب روپے میں 3,529 پرائمری اسکول بنائے جا سکتے ہیں۔

2. کالجز: ایک جدید کالج کی لاگت 10 کروڑ روپے ہے۔ 600 ارب روپے میں 600 کالجز تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔

3. یونیورسٹیز: ایک مکمل یونیورسٹی کی تعمیر پر 4 ارب روپے لاگت آتی ہے۔ 600 ارب روپے میں 150 یونیورسٹیز بن سکتی ہیں۔

4. ہسپتالز: ایک جدید ہسپتال بنانے کی لاگت 4 ارب روپے ہے۔ 600 ارب روپے میں 150 بڑے ہسپتال تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔

اس ٹرین سے قبل اورنج لائن – سبسڈی کا بوجھ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ 162 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا تھا، اور اس پر 20 سال کے دوران 193 ارب روپے کی سبسڈی دیے جانے کا تخمینہ ہے ، کیونکہ اس پر متوقع مسافر سفر نہیں کر رہے۔ یعنی یہ منصوبہ آمدن کے بجائے مسلسل نقصان کا باعث بن رہا ہے۔

دو ہزار سولہ میں جب اورنج ٹرین بنائی جا رہی تھی تو ڈاکٹر فرخ سلیم نے اورنج ٹرین کی لاگت میں کیا کچھ کیا جا سکتا تھا اس کا بریک ڈاؤن دیا ہے پڑھیے

لاگت: پنجاب حکومت لاہور کے 250,000 رہائشیوں کی نقل و حمل پر 162 ارب روپے خرچ کر رہی ہے۔
سوال: 162 ارب روپے کتنا ہوتا ہے؟
جواب: 250,000 مسافروں پر 162 ارب روپے کا مطلب ہے ہر مسافر پر 650,000 روپے۔ یاد رہے کہ مہران VX کی قیمت 630,000 روپے ہے، یعنی پنجاب حکومت ہر مسافر کو ایک مہران VX گاڑی دے سکتی تھی۔

سوال: 162 ارب روپے کتنا ہوتا ہے؟
جواب: پنجاب کی آبادی 101 ملین ہے، اور حکومت تعلیم پر 59 ارب اور صحت پر 54 ارب روپے خرچ کرتی ہے۔ پنجاب کا ہر شہری اب چینی قرضے میں مزید 1,600 روپے کا بوجھ اٹھائے گا۔ یاد رہے کہ پنجاب حکومت فی کس تعلیم پر 600 روپے اور صحت پر 500 روپے خرچ کرتی ہے۔

سوال: 162 ارب روپے کتنا ہوتا ہے؟
جواب: پنجاب کے ہر چار میں سے تین شہریوں کو صاف پانی تک رسائی نہیں۔ حیرت انگیز طور پر، بجٹ 2015-16 میں پنجاب کے 101 ملین لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی پر محض 12 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

سوال: اورنج لائن کی مالیاتی استعداد کیا ہے؟
جواب: تخمینہ ہے کہ ٹکٹ کی قیمت 175 روپے پر لاگت پوری ہوگی۔ لیکن اگر ٹکٹ 20 روپے میں دیا جائے، تو اورنج لائن کو روزانہ 40 ملین روپے یا سالانہ 14 ارب روپے کا نقصان ہوگا (سالانہ دیکھ بھال اور چلانے کی لاگت تقریباً 4 ارب روپے ہے)۔

سوال: چینی قرضے کی ادائیگی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب: سود اور اصل رقم کی ادائیگی کا تخمینہ روزانہ 30 ملین روپے یا سالانہ 10 ارب روپے ہے (فرض کریں کہ چینی قرض نرم شرائط پر ہے)۔

سوال: 162 ارب روپے کتنا ہوتا ہے؟
جواب: فی کلومیٹر کے حساب سے یہ 6 ارب روپے فی کلومیٹر بنتا ہے، جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے مہنگا منصوبہ ہے (لاہور میٹرو بس کی لاگت 1 ارب روپے فی کلومیٹر تھی)۔

سوال: 162 ارب روپے کتنا ہوتا ہے؟
جواب: شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر، جس میں آؤٹ پیشنٹ کلینک، کیموتھیراپی سہولیات اور ان پیشنٹ یونٹ شامل ہیں، کی لاگت 4 ارب روپے ہے۔ 162 ارب روپے سے پنجاب حکومت ایسے 41 ہسپتال بنا سکتی تھی (پنجاب کے 36 اضلاع ہیں)۔

یاد رہے کہ پنجاب میں 47% اسکول جانے والے بچے اسکول سے باہر ہیں۔ سٹیزنز فاؤنڈیشن کے مطابق، ایک پرائمری اسکول بنانے کی لاگت 1.7 کروڑ روپے ہے۔ 162 ارب روپے سے پنجاب حکومت 10,000 معیاری پرائمری اسکول بنا سکتی تھی، یعنی ہر ضلع میں تقریباً 300 نئے اسکول۔

یاد رہے کہ پنجاب میں 2.9 ملین اسکول جانے والے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ سٹیزنز فاؤنڈیشن کے مطابق، ایک بچے کی سالانہ تعلیمی لاگت 15,000 روپے ہے۔ ان تمام 2.9 ملین بچوں کو تعلیم دینے کی سالانہ لاگت 44 ارب روپے بنے گی۔

کسی عقلمند نے کہا تھا: **”جو چیزیں سب سے اہم ہیں، انہیں کبھی بھی کم اہم چیزوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔( ڈاکٹر فرخ سلیم )

ڈاکٹر فرخ سلیم نے تو یہ تب اعداد و شمار دیے تھے آج کے اعداد وشمار کے مطابق ۔آج بھی ایک کروڑ گیارہ لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں صرف پنجاب میں ہیں اس وقت بھی اگر ترجیحات بدل لی جاتی تو معاملے کتنے مختلف ہو سکتے تھے اب بھی ا اگر پنجاب حکومت 600 ارب روپے کو تعلیم، صحت اور انسانی ترقی پر خرچ کرتی، تو لاکھوں بچے اسکول جا سکتے تھے، سینکڑوں کالجز، یونیورسٹیز اور ہسپتال بن سکتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے، وسائل کا رخ ایسے میگا پراجیکٹس کی طرف کیا جا رہا ہے جن کا فائدہ محدود ہے، اور جو پہلے سے خسارے میں جا رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی ترقیاتی ترجیحات پر غور کریں اور ان وسائل کو وہاں خرچ کریں جہاں وہ سب سے زیادہ فائدہ دے سکتے ہیں۔ مریم نواز صاحبہ آپ اہل اقتدار ہیں، اہل ثروت ہیں، اہل تعلقات ہیں، اہل اثرو رسوخ ہیں ، اہل تخت و تاج ہیں ، وقت کی بادشاہ ہیں
ریل گاڑی کے 600 ارب سلامت رہیں ، لیکن بلکتے مریض بھی آپ کی رعایا ہیں اُن کے لیے 200 ارب بھی ارینج کر لیں ، یہ چھوٹے چھوٹے بچے اس قوم کا سرمایہ ہیں اُن کی تعلیم کے 200 ارب کہیں سے ارینج کر لیں ، اس قوم کی ماں بہن بیٹیوں کے تحفظ کی ضامن ہیں آپ اس کے لیے کہیں سے 200 ارب اکھٹا کر لیں ۔۔۔۔ ریل گاڑیاں چلتی رہیں سفر جاری رہنا چاہیے ، دیکھیں کہیں ریل گاڑی کے چلتے چلتے قوم نا پیچھے رہ جائے ۔

فرخ سلیم کے کالم کا لنک
https://www.thenews.com.pk/print/101538-The-Orange-Line
این ایف سی ایوارڈ والی خبر کا لنک
https://www.nation.com.pk/13-Jun-2024/provinces-to-get-rs7-438tr-under-nfc-award

اورنج ٹرین سبسڈی خبر کا لنک
https://www.express.pk/story/2000394/awrnj-lan-tryn-kylye-pnjab-hkwmt-20-brs-myn2-krb-sbsdy-dygy-2000394

سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد لنک
https://www.google.com/amp/s/dailypakistan.com.pk/23-Jan-2024/1671986%3fversion=amp
زیر زمین ٹرین کے منصوبے کا لنک
https://urdu.samaa.tv/2087330614#google_vignette

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے