روپے کی گراوٹ اور کڑے فیصلے

شہباز شریف صاحب کا وزیر اعظم پاکستان بن جانا سچل سرمت کی بیان کردہ ’’بے اختیاری‘‘ میں نہیں ہوا۔ عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹاکر انہیں وہاں بٹھانے کی ’’گیم‘‘ گزشتہ برس کے نومبر ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ اشاروں کنایوں میں اس کالم میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا۔جو ’’دیگ‘‘ پکنے کو چڑھائی گئی تھی اس کے مواد سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے میں اگرچہ مستقل فریاد کرتا رہا کہ عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے گریز کیا جائے۔بہتر یہی ہوگا کہ سپیکر اسد قیصر کو خفیہ رائے شماری کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فارغ کروادیا جائے۔اس کی وجہ سے قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم دِکھتی عمران حکومت کو نیا بجٹ تیار کرنے اور اسے منظور کروانے میں بے تحاشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔’’29مئی 2022ئ‘‘ کا دن مگر دہشت دلاتے چھلادے کی طرح ان دنوں کی اپوزیشن جماعتوں کے روبرو لہرایا گیا اور وہ نظر بظاہر ایک اہم ترین ریاستی ادارے میں ہونے والی تعیناتی روکنے کے ارادے سے یکجا ہوگئیں۔

کسی بھی ملک کی سیاست پر تبصرہ آرائی سے قبل ’’عالمی گائوں‘‘ کہلاتی آج کی دنیا میں بین الاقوامی صورتحال پر نگاہ رکھنا بھی لازمی ہے۔رواں برس کے فروری کی 26تاریخ کو صدر پوٹن نے یوکرین کو ’’مہاروس‘‘ میں واپس لانے کے لئے بھرپور جنگ کا آغاز کردیا۔ امریکہ نے مشتعل ہوکر روس پر اقتصادی پابندیاں لگادیں۔ان پابندیوں کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونا شروع ہوگئیں۔ یوکرین کے کھیت اور کھلیان شدید بمباری کی زد میں آئے تو غریب ممالک کے لئے خوراک کا بحران بھی نمودار ہونا شروع ہوگیا۔

عمران خان صاحب کو بطور وزیر اعظم بخوبی علم ہوچکا تھا کہ ان کے خلاف آئی تحریک عدم اعتما کو شکست دینا ممکن نہیں رہا۔کمال مہارت سے انہوں نے مذکورہ تحریک پر گنتی کو مختلف حربوں سے ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔قوم سے خطاب کرتے ہوئے تیل اور گیس کی قیمتوں کو منجمد کرنے کے بعد ’’امریکی سازش‘‘ کی داستان بھی سنانا شروع کردی۔عدلیہ اور دیگرریاستی اداروں سے ’’میر جعفر‘‘ ڈھونڈنا اور انہیں لتاڑنا بھی شروع ہوگئے۔ ان کے مخالفین طاقت ور جوابی بیانیہ فراہم کرنے میں قطعاََ ناکام رہے۔

بات فقط بیانیوں تک ہی محدود رہتی تو گھبرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ بھاشن فروشی سے کہیں زیادہ اہم مگر اقتصادی حقائق ہوتے ہیں۔عالمی منڈی سے گراں داموں خریداپیٹرول ہماری حکومت پاکستانی منڈی میں ’’امدادی رقوم‘‘ کی بدولت نسبتاََ سستے داموں پہنچتی ہے۔جس دن شہباز شریف صاحب نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالاتو اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل کے لئے ہم جو پیٹرول خریدتے ہیںاس کے فی لیٹر کے لئے حکومت پاکستان تقریباََ32روپے کی ’’امدادی رقم‘‘ فراہم کررہی تھی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حلف اٹھاتے ہی شہباز صاحب دلیردل کے ساتھ پیٹرول کی قیمت کو اقتصادی تقاضوں کے عین مطابق بڑھانے کا اعلان کردیتے۔یہ اعلان کرنے سے مگر انہوں نے گریز کیا۔ ’’مفت خوری‘‘ کی علت برقرار رکھنے کے لئے ہونی کو ٹالتے رہے۔ آئی ایم ایف مگر یہ ’’عیاشی‘‘ برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔مصر ہے کہ ہماری مدددرکار ہے تو پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں فی الفور اضافہ کرو۔شہباز حکومت نے اس ضمن میں لیت ولعل سے کام لیا۔اس کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گرنا شروع ہوگئی۔ پاکستانی روپے کی گراوٹ بالآخر ہمیں اس مقام پر لے گئی ہے جہاں حکومت کو فی لیٹر پیٹرول کی قیمت موجودہ سطح تک محدود رکھنے کے لئے قومی خزانے سے 57روپے ادا کرنا پڑرہے ہیں۔چند ہی دن بعد شاید اسے مذکورہ مد میں 60روپے دینا ہوں گے۔

گیارہ جماعتوں پر مشتمل حکومت کی قیادت کرتے ہوئے شہباز شریف اقتصادی حوالوں سے بروقت مگر کڑے فیصلے کرتے ہوئے آئندہ تین سے چار ماہ تک یقینا شدید ترین عوامی غضب کا نشانہ بنے رہتے۔دریں اثناء آئی ایم ایف کو رام کرلینے کے بعد پاکستان کے درینہ دوست بھی ہماری معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے خاطر خواہ رقوم فراہم کرنے کو آمادہ ہوجاتے۔جون میں پیش ہوا بجٹ تو ناقابل برداشت ہوتا۔ اگلے برس تک معاشی میدان میں لیکن رونق لگانے کی تراکیب بھی دریافت کی جاسکتی تھیں۔

اقتدار سے فارغ ہوتے ہی مگر عمران خان صاحب نے جارحانہ جلسے جلوسوں کے ذریعے فی الفور نئے انتخاب کا مطالبہ شروع کردیا۔مسلم لیگ (نون) کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ وہ اگر مہنگائی کا طوفان لاتے فیصلے لینے کے بعد انتخابی مہم میں اتری تو اس کے نام نہاد ’’ووٹ بینک‘‘ کا صفایا ہوجائے گا۔وہ پاکستان میں حکومتی استحکام یقینی بنانے والے اداروں سے اگلے برس کے بجٹ تک کی مہلت طلب کرتی رہی۔ یہ مہلت عطا نہیں ہورہی۔اعلیٰ عدلیہ نے بلکہ شہباز حکومت کو بے دست وپا بنانا بھی شروع کردیا ہے۔عمران خان صاحب کی جگہ اقتدار میں آنے والوں کے لئے لہٰذا آسمان سے گرکر کھجور میں اٹکنے والا معاملہ ہوگیا ہے۔ گومگو کی اس کیفیت کو مزید برقرار رکھا نہیں جاسکتا۔آصف علی زرداری او ر مولانا فضل الرحمن اب بھی ’’ڈٹے‘‘ رہنے کو مصر ہیں۔شہباز شریف اور ان کے فرزند البتہ حوصلہ ہارچکے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ وزیر اعظم ازخود قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ’’ایڈوائس‘‘بھیجنے کے بعد نئے انتخاب کی تیاری شروع کردیں۔ نام نہاد ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ پر مشتمل عبوری حکومت کو ’’کڑے فیصلے‘‘ لینے دیں۔ پیش قدمی نہ دکھائی تو سوپیاز کے ساتھ سوجوتے بھی کھانا پڑیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے