موجودہ وفاقی حکومت اقتصادی ابتری کے رسے سے جھول رہی ہے اور جب تک پاؤں ہوا میں ہیں، کوئی بھی بیانیہ یا دعویٰ اس کی سیاسی مدد نہیں کر سکتا۔کثیر جماعتی حکومت نے یہ طوقِ حکمرانی اپنی مرضی سے پہنا یاکسی نے آسرا دے کر منڈھ دیا اور اب آسرے کی سیڑھی کھینچ لی؟ وجہ کچھ بھی ہو شیر کی سواری تو کرنا ہی پڑے گی۔ اترنے کے بعد کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔
اگر آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کا انجکشن لگ بھی جائے تب بھی اس کی تاثیر زیادہ سے زیادہ چند ماہ رہے گی۔اس کے بعد نیکسٹ جنریشن پین کلر ڈھونڈنے کے لیے اور قرضہ لینا پڑے گا۔بقول معروف ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی اب سے بیس برس پہلے تک خسارے کا جن اس لیے بار بار بوتل میں بند ہو جاتا تھا کیونکہ اگر ہم بیرونی دنیا کو سو ڈالر کی اشیا بیچتے تھے تو ایک سو پچیس ڈالر کی اشیا باہر سے منگواتے تھے۔یعنی درآمد و برآمد کے درمیان جو پچیس ڈالر کا فرق تھا اسے محصولات میں اضافے، ترقیاتی بجٹ میں کمی اور مزید بیرونی قرض سے پورا کر لیا جاتا اور یوں کام چل جاتا تھا۔
آج صورت یہ ہے کہ اگر ہم سو ڈالر کی اشیا دنیا کو بیچ رہے ہیں تو اس کے بدلے دو سو چھبیس ڈالر کی اشیا خرید رہے ہیں۔ درآمد و برآمد کے بیچ ایک سو چھبیس ڈالر کا فرق اتنا زیادہ ہے کہ اس کی عملی بھرپائی کسی بھی پاکستانی حکومت کے بس کا روگ نہیں۔اور اس کا نتیجہ ریاست پر سرمایہ کاروں اور قرض دینے والوں کے عدم اعتماد اور دوست سخی ممالک کے رویوں میں اکتاہٹ اور بے اعتنائی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
قرض کو قرض سمجھ کر عاقلانہ انداز میں معاشی ڈھانچے کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اس قرض کو آمدنی سمجھ لینے کی عادت نے ہمیں بیچ چوراہے پر ایسے کھڑا کر دیا ہے کہ معاشی افلاطون اور ارسطو بھی آ جائیں تو حالات دیکھ کر پچھلے پیروں لوٹ جائیں۔اقوام ایسے مواقعے پر اپنی بنیادی علتوں اور خود کو دھوکا دینے والے حیلوں بہانوں سے سب سے پہلے جان چھڑاتی ہیں اور پھر آستینیں چڑھا کر بند باندھنے میں جت جاتی ہیں مگر ہماری اشرافیہ کی گھٹی میں مغل دور سے ہی معجزوں اور کرامات کے قصے پڑے ہوئے ہیں۔
اب بھی ہم اس ابتلا کو کوویڈ کی طرح کی کوئی عارضی مصیبت سمجھ کے خدا پے ساری ذمے داری ڈالنے سے باز نہیں آ رہے۔ ہمیں یہ تو یاد ہے کہ خدا نے چٹور پن کے لیے زبان دی ہے مگر یہ یاد نہیں کہ خدا نے دماغ نامی شے بھی دی ہے اور دماغ سلانے کے لیے نہیں سوچنے کے لیے دیا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ معیشت خون کے سرطان میں مبتلا ہے مگر اس کی کیمیوتھراپی کے بجائے پیناڈول اور ڈسپرین کا استعمال جاری ہے اور سوچ کی سطح اس مریض جیسی ہے جس نے ڈاکٹر سے شکایت کی کہ سات سو روپے کا ایکسرے بھی کرا لیا مگر آرام پھر بھی نہیں آیا۔
عمران ہو کہ شہباز ، فضل ہو کہ زرداری، سب جانتے ہیں کہ سوئی کس گلی میں کھوئی ہے مگر سب یہ کھوئی ہوئی سوئی اگلی گلی میں ڈھونڈھ رہے ہیں کیونکہ جس گلی میں وہ کھوئی ہے وہاں اندھیرا ہے اور اس اندھیرے میں دو بڑی بڑی سرخ گھورتی آنکھیں ہی ہمہ وقت دکھائی پڑتی ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی درآمد پٹرولیم مصنوعات ہیں۔ سو میں سے ستائیس ڈالر صرف تیل پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک لازمی خرچہ ہے۔ کیونکہ تیل میسر ہوگا تو معاشی انجن بھی چلے گا۔ لیکن تیل پر خرچ ہونے والا زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے؟
بالکل بچایا جا سکتا ہے اگر انرجی باسکٹ میں ڈیزل اور گیس سے حاصل ہونے والی بجلی کی جگہ پانی اور سورج سے بجلی پیدا کرنے کا تناسب بڑھانے پر مکمل توجہ دی جائے۔اس وقت چونسٹھ فیصد بجلی ڈیزل ، گیس اور فرنس آئل سے، ستائیس فیصد بجلی پانی سے اور نو فیصد ایٹم، سورج اور ہوا سے۔ کسی طرح یہ ترتیب بدل جائے تو صبح کی لکیر بھی نظر آنے لگے گی۔
پاکستان سو میں سے بائیس اعشاریہ چار ڈالر مشینری، جوہری صنعتی آلات، لوہے اور اسٹیل کی مصنوعات پر خرچ کرتا ہے۔ اگر ایوب دور میں شروع ہونے والا صنعتی انقلاب یکلخت لپیٹنے کے بجائے ہر نئے زمانے کے تقاضوں میں ڈھل کے جاری رہتا اور قومیانے کی پالیسی اور پاکستان کو محض ایک کنزیومر معیشت میں بدلنے کی کمیشن ایجنٹی سے آلودہ سازش کو ترقی نہ کہا جاتا تو آج اس مد میں ہونے والا خرچہ بھی نصف ہو چکا ہوتا۔
سنا ہے سی پیک میں اس صنعتی محرومی کی جانب بھی توجہ دی جا رہی ہے لیکن اب زمانے کو بھی پر لگ گئے ہیں۔ جس ٹرین پر ہمیں آج ہونا تھا وہ بہت پہلے چھوٹی نہیں بلکہ ہم خود اس پر سے اتر گئے اور ہماری جگہ اس میں جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ مسافر چڑھ گئے اور آج ان کی مصنوعات منہ چڑھ کے بول رہی ہیں۔ وہ مسافر تھے تو ہم جیسے ہی۔ مگر ہم میٹرک کے بعد ترکھان اور مستری رہ گئے اور وہ ثقہ قسم کے انجینیر، ٹیکنالوجسٹ اور کارپوریٹ جن بن گئے۔
ہم نے اپنی معاشی پسماندگی کے دفاع کے لیے تیسرا بڑا خرچہ سلامتی کی مد میں پالا ہوا ہے۔ جتنا پیسہ ہارڈ کور دفاعی ضروریات کے لیے ناگزیر ہے وہ تو سمجھ میں آتا ہے۔ مگر اس سے کہیں زیادہ پیسے اس مد کی چھتری تلے دیگر مراعات، مستثنیات اور پنشنیات پر صرف ہو رہے ہیں۔اس بابت کچھ سنجیدہ اقدام کرنے کی صلاح دینا تو دور کی بات، اس بارے میں سوچتے ہوئے بھی ادھار کی سیڑھی پر کھڑی نوکر ذہن اشرافیہ کی انگلیاں جلتی ہیں۔چنانچہ جب کمہار پے بس نہ چلے تو گدھے کے کان اینٹھے جاتے ہیں اور اس کا چارہ آدھا کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ گدھا دھاڑ نہیں سکتا اور ڈھینچوں ڈھینچوں کا نوحہ کوئی سنتا نہیں۔
اس پس منظر میں معاشی بیل کو سینگوں سے پکڑنے کے بجائے بیاسی کنزیومر آئٹمز کی درآمد پر حالیہ پابندی کا جو اعلان کیا گیا وہ دراصل مردے کے بال مونڈھ کے وزن ہلکا کرنے کی کوشش ہے۔ اس سے کرائے کے مکان میں مقیم اشرافیہ کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔ ان آئٹمز کو روکنے سے زیادہ سے زیادہ سالانہ تین ارب ڈالر کی بچت ہو گی مگر ان کے ریٹیل اور پرچون کاروبار سے وابستہ ہزاروں چھوٹے لوگ روزگاری گردش میں آ جائیں گے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی گزشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حکمران اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، سیاستداں اور طاقتور ادارے ہر سال اٹھارہ ارب ڈالر کے مساوی ترجیحی مراعات و مستثنیات حاصل کرتے ہیں۔ اس مراعاتی دائرے سے ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی باہر ہے۔ چلیں اور کچھ نہ کریں یہ خصوصی مراعات و استسنیات ہی عارضی طور پر معطل کر دیں۔
اگر اس کام میں پاجامہ اترنے کا خدشہ ہے تو پھر اس کے بجائے نادرا کے پاس موجود وہ فہرست حاصل کر لیں جس میں دس لاکھ ایسے پاکستانی کنبوں کی مکمل معاشی تفصیل ہے جن کے اچھے اچھے گھر اور کاروباری املاک پاکستان اور بیرونِ پاکستان ہیں، بچے باہر پڑھ رہے ہیں، دوبئی، لندن اور نیویارک آنا جانا ایک معمول کی بات ہے۔ ان کے پاس اکیسویں صدی کی ہر بنیادی سہولت ہے مگر وہ سب یا تو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں یا نیٹ میں ہیں بھی تو زیرو ٹیکس دے رہے ہیں۔ کم ازکم اس فہرست کی روشنی میں ہی کچھ کر لیں تو بنیادی بجٹ خسارہ آدھے سے کم رھ جائے۔
مگر کرم خوردہ ذہن والی اشرافیہ خود کو ہی برقرار رکھ لے تو بڑی بات ہے۔ جب تک ادھار سے کام چل رہا ہے چلاتے رہو۔ جب کوئی در نہ بچے تو پہلی دستیاب پرواز پکڑ کے سیکنڈ ہوم کنٹری میں لینڈ کر جاؤ ۔جہنم میں رہنے کے لیے باقی اکیس کروڑ نوے لاکھ افراد ہیں نا…