منگل کی صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے بجائے میں نے بستر کے سرہانے رکھے ریموٹ کا بٹن دبایا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کا انتظار کرنا شروع ہوگیا۔سچ بات یہ بھی ہے کہ بالآخر جو فیصلہ آیا اس کی بابت بہت حیران بھی نہیں ہوا۔فقط اپنے تجربے کی بنیاد پر طے کرچکا تھا کہ وہ ’’کیا لکھیں گے جواب میں‘‘۔الیکشن کمیشن نے آٹھ برس تک پھیلی تفتیش کے بعد یہ طے کردیا ہے کہ عمران خان صاحب مختلف غیر ملکی کمپنیوں سے آئی رقوم کے ذریعے اپنی جماعت کو توانا تر بناتے رہے۔ہمارے آئین اور قانون کے مطابق یہ رقوم ’’مموعنہ فنڈنگ‘‘ شمار ہوتی ہیں۔تحریک انصاف کو اب الیکشن کمیشن کو قائل کرنا ہوگا کہ مذکورہ رقوم کو بحق سرکار ضبط کیوں نہ کرلیا جائے۔
اس موضوع پر مزید لکھنے سے قبل واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو قانونی موشگافیوںکی بدولت ’’کالعدم‘‘ ٹھہراتے ہوئے سیاسی اعتبار سے بے اثر نہیں بنایا جاسکتا۔ 1970ء کی دہائی میں بھٹو حکومت نے ولی خان کی چلائی نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف ان دنوں کے سپریم کورٹ نے ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ ولی خان اور ان کی جماعت کے خلاف لگائے الزامات ’’ممنوعہ فنڈنگ‘‘ سے کہیں زیادہ سنگین تھے۔ الزام ’’غداری‘‘کا تھا جو مذکورہ جماعت کو ہمارے بھارت جیسے ازلی دشمن اور افغانستان کی مدد سے پاکستان سے ’’پختونستان‘‘ کو جدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرارہا تھا۔ولی خان نے اپنے خلاف آئے ریفرنس کے لئے چلائی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔اس کے باوجود سپریم کورٹ سے ’’غدار‘‘ ٹھہرائے گئے اور ان کی جماعت کالعدم قرار دے دی گئی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد بھٹو حکومت نے مزید کارروائی کے لئے ولی خان اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرکے حیدر آباد جیل میں ڈال دیا۔ ان کے خلاف جیل ہی میں ’’حیدر آباد ٹربیونل‘‘ چلنا بھی شروع ہوگیا۔
ان دنوں کی قومی اسمبلی میں لیکن سردار شیر باز مزاری بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ وہ ’’آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے نام سے ایک نئی جماعت کی تشکیل کا اعلان کردیا۔اہم بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ جماعت کا تاسیسی کنونشن آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کے نوا ب شاہ میں واقع ایک سینما ہال میں ہوا تھا۔ اس جماعت کو اصل توانائی مگر بیگم نسیم ولی خان نے فراہم کی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے جو رہ نما اور کارکن جیل جانے سے بچ گئے تھے اس جماعت کے پرچم تلے جمع ہونا شروع ہوگئے۔بیگم نسیم ولی خان نے 1977ء کے انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد ’’دھاندلی‘‘ کے خلاف چلائی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں بالآخر جب ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو ولی خان کو جیل سے رہا کردیا گیا۔’’حیدر آباد ٹربیونل‘‘ کے خاتمے کا اعلان بھی ہوگیا۔ بتدریج نیشنل عوامی پارٹی ولی خان ہی کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی اے این پی بن گئی اور 1990ء کی دہائی میں اقتدار کے کھیل میں جارحانہ انداز میں حصہ لیتی رہی۔
تاریخی تمہیدباندھنے کا واحد مقصد یہ اصرار کرنا ہے کہ ولی خان صاحب کی طرح عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کو بھی فقط ’’ممنوعہ فنڈنگ‘ ‘ کی بنیاد پر ہی غیر مؤثر نہیں بنایاجاسکتا۔سیاسی عمل ہی ان کا مستقبل طے کرے گا۔
یہ لکھنے کے بعد بھی تاہم اس امر پر توجہ دلانا ضروری گردانتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے منگل کی صبح آئے فیصلے نے تحریک انصاف کو وقتی جھٹکا ہرصورت لگایا ہے۔ عمران خان صاحب کی اصل مشکل الیکشن کمیشن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ پانچ برس تک اپنی جماعت کے لئے جمع ہوئی رقوم کی بابت ’’جھوٹا‘‘ بیان حلفی جمع کراتے رہے۔ بیان حلفی کے حوالے سے آئے اس فیصلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کیونکہ تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہے نواز شریف صاحب کو ’’بیان حلفی‘‘ میں ’’اقامہ‘‘ ظاہر نہ کرنے کی وجہ ہی سے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قرار دیتے ہوئے ہمارے سپریم کورٹ نے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا تھا۔عمران خان صاحب ان کے برعکس سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’صادق اور امین‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔ اب انہیں اپنے ’’بیان حلفی‘‘ کا عدالتوں میں دفاع کرنا ہوگا۔مذکورہ پہلو پر غور مجھے یہ سوچنے کو مائل کررہا ہے کہ منگل کی صبح آئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان صاحب اور ان کی جماعت ویسی ہی الجھنوں میں گھر گئی ہے جس کا سامنا نواز شریف اور ان کے وفاداروں کو اپریل 2016ء میں پانامہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد کرنا پڑا تھا۔ اب کی بار عمران خان صاحب کی ’’صداقت اور امانت‘‘ پر کئی سوالات اُٹھ چکے ہیں۔
عمران خان صاحب کے دیرینہ اور جذباتی پیروکار غالباََ اس سوال کو موجودہ حالات میں خاص اہمیت نہیں دیں گے۔ ان کی بے نیازی مگر ایک طویل عدالتی عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرسکتی جو عمران خان صاحب کو اپنی ’’صداقت اور دیانت‘‘ ثابت کرنے کو مجبور کرے گا۔ آنے والے کئی دنوں تک ہمارا روایتی اور سوشل میڈیا بھی اسی سوال کو ٹی وی اور موبائل فونوں کی سکرینوں پر ’’متوازی عدالتیں‘ ‘لگاتے ہوئے اچھالتا رہے گا۔ مذکورہ سوال تحریک انصاف کی اس خواہش کی تکمیل میں اہم رکاوٹ بھی ہوسکتاہے جو رواں برس کے اکتوبر میں ہر صورت نئے انتخابات دیکھنا چاہ رہی ہے تانکہ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت دو تہائی اکثریت کیساتھ اقتدار میں لوٹ آئے۔ ہمار ی عدالتیں ہی ایک بار پھر سیاسی عمل سے مختص سوالات طے کرنے کو مجبور ہوں گی۔یہ حقیقت 2011ء سے وطن عزیز پر مسلط ہوئی اندھی نفرت وعقید ت پر مبنی تقسیم کو مزید گہرا اور جارحانہ بنادے گی۔