بخدا بطور صحافی ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ بتانے میں قطعاََ ناکام ہورہے ہیں کہ حالیہ ریکارڈ ساز بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں جو تباہی آئی ہے اس کے دور رس اثرات ہم سب کے لئے کس قدر ناقابلِ برداشت ہوں گے۔اپنی اجتماعی کوتاہی کی بابت گزشتہ کئی دنوں سے بہت فکر مند ہوں۔معاملات سنبھالنا مگر میرے بس میں نہیں۔عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائرہوچکا ہوں۔ٹی وی سکرینوں سے بھی غائب رہا۔ محض یہ کالم لکھتا ہوں اور چند مہربان اینکر اپنے ٹی وی شوز میں بلالیتے ہیں۔ان کا مہمان ہوتے ہوئے مجھے فقط ان ہی موضوعات تک محدود رہنا ہوتا ہے جن کے بارے میں وہ سوالات اٹھائیں۔
میڈیا کی محدودات کا ذکر کرتے ہوئے اس کالم میں اکثر کینیڈا کے ایک محقق کا حوالہ بھی دیتا رہا ہوں۔مارشل میک لوہان اس کا نام ہے۔جب ٹیلی وژن متعارف ہوا تو اس نے مذکورہ صنف کے انسانی رویوں پر اثرات سمجھنے کی کوشش شروع کردی۔بہت غور کے بعد ٹی وی کو "Idiot Box”پکارنے کو مجبور ہوا۔اس کی دانست میں ٹی وی سکرین سنجیدہ موضوعات کی بابت کماحقہ آگاہی فراہم کرنے کے قابل ہی نہیں۔اس کا ذمہ داراس نے مگر ٹی وی سے وابستہ افراد کو نہیں ٹھہرایا۔ مصر رہا کہ ہر ذریعہ ابلاغ کی اپنی محدودات ہوتی ہیں۔ٹی وی کو ٹی وی کی گرائمر کے مطابق ہی چلاناہوگا۔اس کے ذ ریعے ان موضوعات کی بابت ”علم“کی توقع باندھنا خوش گمانی ہے جنہیں زیر بحث لانا ٹی وی کے بس میں نہیں۔
میک لوہان نے ٹیلی وژن صحافت کی محدودات کی بابت جو دعویٰ کیا تھا مجھے بطور صحافی اس کا حقیقی احساس 2010میں ہوا۔اس برس بھی پاکستان میں بدترین سیلاب آیا تھا۔پہلے سے بپھراہوا دریائے کابل ہمارے سندھ کے پانی سے ملا تو نوشہرہ ڈوب گیا۔اس کی بدولت نوشہرہ اور چارسدہ میں جو تباہی نمودار ہوئی وہ ٹی وی کے لئے ”نئی“ تھی۔اس سے قبل ٹی وی ہی کی بدولت ہم آزادکشمیر اور بالاکوٹ وغیرہ میں زلزلہ کے تباہ کن اثرات لوگوں کے روبرو لاکر انسانی ہمدردی کے اجتماعی جذبات ابھارنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
2010کے سیلاب کی تباہ کاریوں پر چند روز توجہ مرکوز کرنے کے بعد مگر ٹی وی صحافت اس سے تقریباََ اُکتا گئی۔سیلابی پانی اگرچہ مزید تباہی پھیلانے جنوبی پنجاب تک پہنچ چکا تھا۔میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ساتھی مشتاق منہاس کے ہمراہ سیلاب کا ”تعاقب“ کیا جائے۔اپنا فرض نہایت لگن سے نبھایا۔ چند دنوں بعد مگر احساس ہواکہ سیلاب کا تعاقب ہمارے شو کی Ratingsکو متاثر کررہا ہے۔ٹی وی چینل اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے Eye Ballsکے محتاج ہوتے ہیں۔ اشتہارات فقط اس ٹی وی شو کو ملتے ہیں جسے زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں۔ اشتہارات دینے والے اپنی مصنوعات شہری متوسط طبقے کے نسبتاََ خوش حال لوگوں سے متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ان کے مطلوبہ صارف ”دیہی“ مسائل سے تقریباََ غافل ہوتے ہیں۔
ٹی وی پروگرام تیار کرنے کی مبادیات پر غور کریں تو سیلابی پانی مظفر گڑھ پہنچ کر وہاں کے دیہات میں ویسے ہی تباہی پھیلاتا ہے جو مثال کے طورپر 2010میں آپ کئی دنوں تک نوشہرہ اور چارسدہ میں دیکھ چکے ہیں۔سیلابی پانی کا ”تعاقب“لہٰذا ٹی وی سکرینوں پر ”یکسانیت“ کا تاثر دینا شروع ہوجاتا ہے۔شہری متوسط طبقے کے ناظرین اسے مزید دیکھنانہیں چاہتے۔
اس تناظر میں فقط اخبارات ہی کچھ ”نیا“ فراہم کرسکتے ہیں۔یہ ”نیاپن“ سیلابی پانی کو مقامی حقائق کی روشنی میں پھیلی تباہ کاری کے ذریعے اجاگر کیا جاسکتا ہے۔سندھ میں سیلاب کا ذکر ہو تو خیر پور دُنیا سے کٹا جزیرہ نظر آتا ہے۔ہزاروں کسانوں کے مکان پانی میں بہہ گئے ہیں۔ روزمرہّ خوراک کے لئے لازمی اشیاءمیسر نہیں ہوپارہیں۔فوری مسائل سے بالاتر مگر تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ سندھ کا یہ شہر ہمارے ملک میں کھجور کی پیداوار کا مرکز بھی ہے۔مسلسل بارشوں کی وجہ سے جمع ہوئے پانی میں کھجوروں کے درخت ڈوب چکے ہیں۔خیرپور میں جو کھجور پیدا ہوتی ہے وہ ملکی منڈی کے علاوہ بھاری تعداد میں غیر ممالک بھی بھیجی جاتی ہے۔سوکھی کھجور چھوہارہ بن جاتی ہے جو پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی مختلف مذہبی اور ثقافتی تقریبات کے لئے درکار ہوتا ہے۔
کھجور کی ”نقد آوری“کو نگاہ میں رکھتے ہوئے سندھ کی منڈیوں کے بیوپاری اس کی فصل اُگانے والوں کو ممکنہ پیداوار کی قیمت کا وافر حصہ ”بیعانے“کی صورت ادا کرتے ہیں۔مناسب پیشگی ادائیگی کے باوجود مگر آڑھتیوں کو اس برس اپنی توقع کے مطابق کھجور اور چھوہارہ دستیاب نہیں ہوگا۔ خوش حال آڑھتی نقصان کوربّ کی رضا سمجھ کر فی الوقت بھلاسکتے ہیں۔چھوٹے آڑھتی کی لگائی رقم مگر ”ڈوب“ گئی ہے۔ کھجور پیدا کرنے والا اپنی اگلی فصل پیشگی ادائیگی حاصل کرنے کے بعد اسے ”قرض“ کی ادائیگی کی طرح دینے کو مجبور ہوگا۔ اس کے پاس گویا اگلے برس کچھ ”نقدی“ آنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ وہ روزمرہّ ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ قصہ مختصر خیرپور کا غریب ہی غریب تر نہیں ہوگا۔وہاں کا نسبتاََ نچلامتوسط طبقہ بھی خط غربت کی جانب لڑھک جائے گا جہاں سے باہر نکلنے کے لئے اسے کئی برسوں تک انتظار کے علاوہ جاں گسل جدوجہد کرنا پڑے گی۔
بلوچستان کا سیلاب ہمارے ہاں پھلوں کے کاروبار کے علاوہ گوشت کی فراہمی والے دھندے کو بھی شدید ترین زک لگائے گا۔اس صوبے کے وسیع تر علاقوں میں بھیڑبکریاں پالنا ہی ہزاروں گھرانوں کے لئے روزمرہّ ضروریات کی رقم فراہم کرتا ہے۔لاکھوں جانور مگر سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں۔ اسلام آباد،لاہور اور کراچی میں بیٹھے ہم شہریوں کو تاہم گوشت کی عدم دستیابی کا احساس آج سے چند ماہ بعد ہوگا۔ دنبے اور بکری کے گوشت کی قیمت آسمانوں کو چھوتی نظر آئی تو ہم محض ”مہنگائی“ کا رونا روئیں گے۔ یاد ہی نہیں رکھیں گے کہ اس کی اصل وجہ بلوچستان میں آیا ریکارڈ ساز سیلاب تھا جسے ان دنوں ہم نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔