انٹرنیٹ متعارف ہونے کے بعد مجھ جیسے خوش گماں افراد نے فرض کرلیا کہ دُنیا کے ہر مقام سے تیز تر بنیادوں پر پھیلائیں خبریں انسانوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لائیں گی۔وہ ایک دوسرے کے دُکھ سکھ جانتے ہوئے انہیں آپس میں بانٹنے کی کوشش کریں گے۔بدقسمتی سے مگر ایسا نہیں ہوا۔کئی محققین ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے بلکہ اب ثابت کرچکے ہیں کہ بھارت،سری لنکا اور برما میں واٹس ایپ اور فیس بک نے مذہبی منافرت کو بھڑکایا۔بین الامذاہب فسادات کو خوں ریزخانہ جنگی میں بدل دیا۔
نام نہاد ’’سٹیز ن جرنلزم‘‘ اپنا منفی اثر پھیلانے میں بنیادی طورپر اس وجہ سے کامیاب ہوا کہ خلق خدا کی اکثریت روایتی میڈیا سے اُکتاچکی تھی۔ چند ٹھوس حقائق نے اسے یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ ریاستی اور بڑے کاروباری اداروں کی جانب سے آئے اشتہارات کی محتاجی روایتی میڈیا کو ’’سچ‘‘ لوگوں کے روبرو لانے نہیں دیتی۔ صحافی’’سب اچھا‘‘ کا راگ الاپتے ہوئے اپنے قارئین وناظرین کو ’’صارفین‘‘ میں بدلنا چاہتے ہیںجو مشتہر ہوئی اشیاء اورخدمات کو اگر فی الفور ادائیگی سے نہیں تو کم از کم قسطوں میں ہر صورت حاصل کرنے کو بے چین رہیں گے۔
روایتی میڈیا کی محدودات کو عملی تجربے کی بدولت جان لینے کے باوجود بارہا اس کالم میں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ خلق خدا کے چند سنگین مسائل ایسے ہیں جنہیں فقط اخبار کے لئے مختص صحافت ہی بیان کرسکتی ہے۔اس انداز کو Long Form Journalismکہا جاتا ہے۔کاش میں اس کا اردو متبادل ڈھونڈ سکتا۔روایتی میڈیا تاہم بتدریج مگر سوشل میڈیا کے روبرو سرنگوں ہونا شروع ہوگیا۔ مجھ جیسے کالم نویس قلم اٹھانے سے قبل سوشل میڈیا پر حاوی بحث کا شعوری یا لاشعوری طورپر جائزہ لیتے ہیں۔وہاں مقبول تر موضوعات پر اپنی ’’دانش‘‘ جھاڑتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شیئرز اور لائیکس کی ہوس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
اسی باعث ہمارے روایتی میڈیا نے دودھ دینے والے مویشیوں میں چند ماہ پھیلی ایک وباء پر واجب توجہ ہی نہیں دی جس نے سندھ اور پنجاب کے ہزاروں گھرانوں کو بدحال کردیا۔یہ وباہمارے خطے کے لئے نئی تھی۔ ہمارے ’’ڈنگر ڈاکٹر‘‘ اس کی تشخیص اور مؤثر علاج کے لئے تربیت یافتہ ہی نہیں تھے۔محض تکے لگاتے رہے۔ جو وبا پھیلی تھی اسے Lumpy Skin Diseaseکہا جاتا ہے۔ایل ایس ڈی کے نام سے مشہور ہوئی۔افریقہ سے چلتے ہوئے بھارت پہنچی۔ وہاں کے راجستھان سے ہمارے سندھ میں وارد ہوئی۔ پنجاب کو اس وبا سے نسبتا محفوظ رکھا جاسکتا تھا اگر ہماری سرکار اس کی بابت چوکنا ہوتی۔ سندھ سے بیمار جانوروں کا داخلہ پنجاب کے اضلاع میں چند ماہ کے لئے مکمل طورپر بین کیا جاسکتا تھا۔آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں لیکن رواں برس کے اپریل سے نمودار ہوئے بحران نے کئی ماہ تک پنجاب انتظامیہ کو مفلوج بنائے رکھا۔ عیدالاضحی کے قریب مویشی منڈیوں نے مذکورہ وبا کو بالآخر بالائی پنجاب کے تقریباََ ہر قصبے اور دیہات تک بھی پہنچادیا ۔
ہزاروں مویشی مذکورہ وبا کی وجہ سے جانبر نہ ہوپائے۔مردہ جانوروں کو زمین میں دفنانے کے بجائے سڑکوں پر پھینک دیا گیا جس کی وجہ سے انسان بھی مختلف جراثیم کا شکار بن کر بیمار ہونا شروع ہوگئے۔ سرکار کی بھرپور مداخلت ومعاونت کے بغیر ہمارے چند ڈنگر ڈاکٹروں نے بالآخر انٹرنیٹ ہی کی بدولت ایسی ویکسین ڈھونڈلی جو ایل ایس ڈی کی زد میں آئے جانور کو شفایاب کرسکتی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ جو ویکسین تیار ہوئی اس کی قیمت دو یا تین جانوروں کے مالک کی بساط سے باہر تھی۔
بہرحال اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔جس جانور کو بچالیا گیا ہے اس کا دودھ خریدنے کو لوگ آمادہ نہیں ہورہے۔ انہیں یہ وہم لاحق ہوگیا ہے کہ ایل ایس ڈی کی زد میں آئی گائے یا بھینس کا دودھ بھی مضر صحت ہوتا ہے۔اس کا استعمال انسانوں کی جلد پر بھی ویسے ہی ’’دانے‘‘ نکالنا شروع ہوجاتا ہے جو بیمار جانور کی جلد پر نمودار ہوئے تھے۔ دودھ بیچے بغیر کسی گائے یا بھینس کا مالک اس کا خرچہ پورا نہیں کرسکتا۔ پریشان ہوکر اسے قصائی کو بیچنے کو مجبور ہوجاتا ہے۔لوگ مگر یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ وبا سے جانبر ہوئے جانور کا گوشت بھی مضر صحت ہوتا ہے۔سائنسی اعتبارسے یہ دونوں مفروضے قطعاََ غلط ہیں۔ان کی بابت ہماری سرکار مگر عوامی آگاہی کا فریضہ سرانجام نہیں دے رہی۔یہی چلن جاری رہا تو چند ماہ بعد ہمارے ہاں دودھ اور گوشت کا شدید ترین بحران نمودار ہوسکتا ہے۔
ایل ایس ڈی نامی وبا ہمارے ہاں آئی بھی نہ ہوتی تو ممکنہ بحران ٹالنا ناممکن نظر آتا۔حالیہ سیلاب نے سندھ اور بلوچستان میں کم از کم دس لاکھ جانوروں کو دریا برد کردیا ہے۔جو بچ گیا اسے سیلاب کی زد میں آیا مالک چارہ فراہم کر نہیں سکتا۔وہ خود سرکار اور امدادی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ خوراک کا بے بسی سے منتظر ہے۔سیلاب کی زد میں آئے شخص کی اولین ترجیح اس وقت خود کو اور اپنے بیوی بچوں کوفاقہ کشی کی موت سے بچانا ہے۔وہ بچا تب ہی اپنا جانور بچانے کی کوشش کرے گا۔
سیلاب زدگان کی فوری امداد کے لئے ان دنوں محفوظ مقامات پر خیمہ بستیاں آباد کرنے کی کاوشیں ہورہی ہیں۔ان بستیوں میں انسانی استعمال کے لئے خوراک کی رسد یقینی بنانا جائز بنیادوں پر اولین ترجیح ہونا چاہیے۔اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے لیکن یہ پہلو بھی نگاہ میں رکھنا ہوگا کہ سیلاب سے بدحال ہوئے فرد کے لئے اس کا دودھ دینے والا جانور ’’کمائوپوت‘‘ ہے۔خیمہ بستیاں عموماََ شاہراہوں کے کنارے لگائی جاتی ہیں۔ان کے گرد ’’چراگاہیں‘‘ موجود نہیں۔خیمہ بستیوں کے لئے راشن فراہم کرتے ہوئے سرکار اور غیر سرکاری امدادی تنظیموں کو وہاں موجود جانوروں کے لئے چارہ مہیا کرنے کی تراکیب بھی سوچنا ہوں گی۔ سیلاب سے بدحال ہوکر خیمہ بستی میں پناہ گزین ہوا فرد سیلابی پانی کی وحشت سے محفوظ رہ جانے والے جانور کا دودھ بیچ کر اپنے لئے کچھ نقدی کا بندوبست کرسکتا ہے۔ یہ نقدی اس کی بحالی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ہمارے ہاں دودھ کو پیکٹوں میں فروخت کرنے والی چند اجارہ دار کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں۔انہیں اس ضمن میں پیش قدمی دکھانا ہوگی۔وہ ٹرکوں کے ذریعے خیمہ بستیوں کو چارہ فراہم کرسکتے ہیں۔اس کے عوض بچائے اور سنبھالے جانور کا دودھ خرید کر بے بس ولاچار محسوس کرتے فرد کو معمول کے مطابق زندگی کی بحالی کو نسبتاََ تیز تر بنایا جاسکتا ہے۔