ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے 10 ہزار371 حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین متاثر ہوئیں،سب سے زیادہ تعدادتحصیل تونسہ شریف میں ہے جو 3ہزار953 ہے اور تحصیل کوہ سلیمان میں 3ہزار سے زائد خواتین پریشان حال ہیں.
رات کے اندھیرے میں آنے والا سیلابی ریلا گھر کی چار دیواری میں محفوظ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے پردے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ یہ کوئی حیرانی، تجسس اور بے یقینی والی بات نہیں بلکہ حقیقت اور زمینی حقائق پرمبنی تصویر کشی ہے۔یوں تو جنوبی پنجاب ہمیشہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں رہتا ہےمگر افسوس کہ ہر بارسیلاب اپنے ساتھ مزید تباہی لے کر آتا ہے۔
گیارہ سال قبل جون 2011ء میں وسطی پہاڑی سلسلے کوہ سلیمان پر ہونے والی مون سون بارشوں میں ڈیرہ غازی خا ن کے تین پہاڑی نالوں میں طغیانی سے د رجنوں مواضعات زیر آب آگئے تھے۔ رود کوہی کے سیلابی ریلوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں بھی متاثر ہوئیں۔ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی اس علاقے کی قسمت نہیں بدلی کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کے پانی کا رخ کیسے تبدیل کیا جائے ایسی کوئی حکمت عملی آج تک سامنے نہیں آئی ۔حکومتی اعدادوشمار کے مطابق حالیہ سیلابی ریلے سے ضلع ڈی جی خان میں 8 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ ۔سیلاب سے ضلع بھر میں ہونے والے نقصانات جس میں فصلوں کی تباہی ،مکانات کا بہہ جانا،خوراک کی کمی ،صحت کے مراکز کا ڈوب جانا ان سب کا اندازہ حکومت کئی ماہ تک نہیں لگاسکتی ۔
حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلے سے جہاں بچوں بوڑھوں سمیت ہر طبقہ متاثر ہوا ہے وہاں خواتین کے مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ عمومی طور پرجنوبی پنجاب میں آنے والا سیلابی ریلا اپنے ساتھ وہاں کی با پردہ،جفا کش اورمحنت مشقت کرنے والی عورتوں کے لئے قیامت سے کم نہی ہے۔
اڑتیس سالہ جنت بی بی نے اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں پانی رات کے وقت داخل ہوا۔جب انکو خبر ہوئی تب تک پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہو چکا تھا کہ وہ صرف اپنے بچوں کو ہی وہاں سے اٹھا کر کسی محفوظ جگہ لے جانے میں ہی کامیاب ہوسکیں۔ انہیں نہ تو کوئی کپڑا اٹھانے کا ہوش تھا اور نہ ہی اپنا قیمتی سامان ہمراہ محفوظ رکھ سکیں۔ رات کے اندھیرے کی وحشت اور اس کے ساتھ ساتھ تیز بہاؤ کے ساتھ آبادی کی طرف بڑھتےپانی کی دہشت سے وہ اپنے سروں کی چاردوں تک اٹھانا بھول گئیں تاکہ اپنے بچوں کی زندگیاں بچا سکیں۔
[pullquote]کیا مسائل سےگِھری خواتین ذہنی دباؤسے نکل پائیں گی؟[/pullquote]
کیمکل ذدہ پانی سے خواتین مخصوص جلدی امراض کا شکار تونسہ شریف کی یونین کونسل نتکانی 61ہزار 580کی آبادی پر مشتمل علاقہ جس میں خواتین کو مخصوص قسم کی جلدی بیماری لا حق ہو ئی ہے۔فلاحی اداروں سے منسلک ایک رضا کار کے مطابق قریباً 600سے زائد خواتین اس بیماری کا شکار ہوئیں، جنہیں طبی امداد مہیا کی گئی ان میں سے 232 حاملہ خواتین تھیں۔ گورنمنٹ کے اعدو شمار کے مطابق اس علاقے میں سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 18ہزار564ہے جن میں مرد افراد بھی شامل ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ جب ان اعدادوشمار کا حوالہ وہاں پر کام کرنے والی پرائیویٹ فلاحی تنظیموں سے کیا گیا تو انہوں نے حکومتی اعدادوشمار کوماننے سے انکار کردیا۔مقامی لوگون کا کہنا ہے کہ کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی تیزابی نوعیت کا تھا جس سے سب سے زیادہ نقصان وہاں کی بے یارو مددگار خواتین کو پہنچا۔ پانی کی سطح اتنی اونچی تھی کہ خواتین کئی کئی گھنٹے اسی پانی میں کھڑی رہیں،گھنٹوں کی مسافت طے کرکے پانی میں کھڑے رہنا یہ عظیم اور با ہمت عورتوں کی بہترین مثال ہے۔
دوسراہم پہلو یہ تھا کہ بھوک سے بے حال جب حکومتی فضائی امداد خشک میدان میں آسمان سے زمین کی طرف پھینکی جاتی تو اپنے خاندان کو بھوک و پیاس سے بچانے کے لئے یہی عورتیں سیلا بی پانی کو چیرتی ہوئی خوارک کی طرف لپک جاتیں۔ فلاحی ادارے سے منسلک خاتوں صحافی انیلا اشرف نے زمینی حقائق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ کیمپوں اور خیمہ بستیوں میں خواتین کے لئے ضرورت کا سامان لے کر آئیں تو وہاں موجود ہر عورت کی آنکھ آشک بار تھی۔خواتین سے بات چیت کے دوران سلمیٰ (فرضی نام )نامی خاتوں جو کہ 2بچوں کی ماں تھی کہ انہیں اور بعض دیگر خواتین کو ٹانگوں پرخارش کی وجہ سے تکلیف ہو رہی تھی۔ خواتین کی حالت دیکھتے ہوئے وہاں میڈیکل کیمپ کے قیام کے ساتھ فی میل ڈاکٹر کا بھی بندوبست کیا گیا تاکہ ان خواتین کے مرض کا علاج ہوسکے۔
دوران تشخیص معلوم ہوا کہ یہ خواتین مخصوص قسم کی جلدی مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ فلا حی تنظیموں کی طرف سے یہاں خواتین کے لئے میڈیکل ٹیم نےخواتین کو سیلابی پانی میں کھڑے رہنےکی وجہ سے جلدی بیماری اور الرجی کی تشخیص کی۔ مختلف کیمپوں سے جب خواتین سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ دن بدن اس بیماری سے خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔انیلہ کے مطابق اس میڈیکل کیمپ میں خواتین ڈاکٹرز ہونے کے باوجود خواتین اپنی جلدی بیماری کے بارے میں بتاتے ہوئے شرم محسوس کر رہی تھیں۔
"(خوارک کی کمی،بیت الخلا نہ ہونا،ادویات کی عدم دستیابی،گھروں کی مرمت،پینے کا پانی نہیں،کپڑے گندے ،زندگی مشکل سے مشکل ترین ہو گئی” )
[pullquote]حمل اور دودھ پلانے والی مائیں ذہنی دباؤ کا شکار [/pullquote]
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ضلع بھر میں 10 ہزار371، حمل اور دودھ پلانے والی خواتین متاثر ہوئیں ہیں ۔ڈی جی خان کی خواتین کی روزانہ کی خوارک کی بات کریں تو ان کی خوارک میں تین چیزیں سب سے اہم ہیں، جن میں گندم،بکری ،گائے، بھینس کا تازہ دودھ اور کھجوریں شامل ہیں ۔سیلاب کے پانی سے آئندہ 8 ماہ کے لئے محفوظ کی گئی گندم بہہ گئی،مویشی بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے جبکہ کھجوروں کے درخت جڑوں سے اکھڑ گئےایسے حالات میں حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو صحت مند خوراک ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگیا ہے۔
ضلع بھرمیں خواتین کی آبادی کا تناسب ساڑھے 48 فیصد ہے، جنکی اکثریت پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار رہتی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مزید کمزور ہو جائیںگئی،جس کا اثر زچہ و بچہ پر براہ راست پڑے گا۔خواتین کی بنیادی ضروتوں کا خیال رکھتے ہوئے یونیسیف نے جو امداد ی سامان مہیا کیا اس میں خواتین کی ادوایات،بچوں کےلئے خشک دودھ اور کیلشیم کے ساتھ ساتھ، خواتین کو کو سینیٹری پیڈز بھی دیے گئے۔ مقامی فلاحی ادارو ں سے تعلق رکھنے والی رضا کاروں کے مطابق خواتین نے بچوں کو ڈبے والا دودھ پلانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ کہ ہم اپنے بچوں کو کیمکل والا دودھ نہیں پلائیں گے۔
[pullquote]خواتین کے لیے بیت الخلا کھلا آسمان[/pullquote]
آنکھوں دیکھا حال کیا ہو گا اگر سن کر ہی انسان شرم سے سر اٹھانے کے قابل نہ رہے،رفع حاجت کے لئے خواتین کوصبح سےسورج غروب ہونے کا انتظار رہتاہے کیونکہ انکے پاس اپنی عزتوں کو محفوظ رکھنے کے لئےچاردواری کرنے کے لئے کپڑے کی چادریں تک میسر نہیں ،سب کچھ سیلاب میں چھوڑ کر آنے والی خواتین ایک دوسر ے کا سہارا بھی نہ بن سکیں۔علاقائی روایات کے مطابق وہاں کی خواتین اپنے گھروں سے کم نکلتی ہیں اور اگر گھروں سے نکلنا بھی ہو تو پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔تونسہ شریف کی خواتین بے یارو مدد گارکھلے آسمان کے نیچےرفع حاجت کرنے پر مجبور کسی کو بھی انکی بے بسی پر ترس نہیں آیا۔اپنے علاقے کے لوگوں کو اس عذاب سے بچانے کےلئے دن رات فلاحی کاموں میں مصروف رضا کار تنزیل کا کہناہے کہ جن علاقو ں سے پانی نیچے اتر گیا وہاں لوگ اپنے گھروں کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں ۔گھروں کو واپسی ہو تو رہی ہے مگر تباہ شدہ گھروں کو پھر سے تعمیر کرنا ایک بڑامسئلہ ہے۔ جب گھر کی چار دیواری ہو گی تو اپنی عزتوں کا تحفظ کرنے والی خواتین بیت الخلا جیسے مسائل سے باہر نکل پائیں گی۔ جنت بی بی کا کہنا ہے کہ انکے خاندان کی بہو اور بیٹیاں سارا دن انتظار کرتی ہیں ک کہ کب سورج غروب ہو اور ہم رفع حاجت کر سکیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری فلاحی اداروں کی اولین ذمہ داریوں میں یہ شامل ہونا چاہیے کہ وہ پورٹ ایبل ٹائلٹس کا فوری انتظام کریں۔
جہاں الفاظ ساتھ چھوڑ وہاں غالب فرماتے ہیں:
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
تونسہ شریف میں سرکاری پناہ گاہ خواتین کے لئے بھی نہیں کھولی گئی بے حس اہل اقتدار،سابق وزیر اعلی عثمان بزادر نے تونسہ شریف میں 250بستروں پر مشتمل6کڑوڑ کی لاگت سے سرکاری پناہ گاہ سیلاب سے متاثرہ خواتین اور بچوں کے لئے بھی نہیں کھولی۔وہاں کی مقامی صحافی نے جب اس معاملے پر سرکاری عہدے دار کا موقف لیا تو انکاکہنا تھا کہ ضلع کی اعلی قیادت نے انہیں پناہ گاہ کھولنے کا حکم جاری نہیں کیا تھا۔ اگر اس پناہ گاہ کو سیلاب متاثرین کیلیے کھول دیا جاتاتو تونسہ شریف کی 3ہزارنو سو سے زائد حاملہ اور شیرخواروں کو دودھ پلانے والی بہت سی ماؤں کو رہنے کیلیے چھت میسر آسکتی تھی۔