تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے کیسز کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اورتعلیمی اداروں کی انتظامیہ ہی ایسے معاملات میں غیر سنجیدگی اختیار کرتی ہے۔ اور بؑض اوقات سٹاف ہی ملوث ہوتا ہے اور اگر طالبات کو تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہو تو وہ شکایات کرنے سے بھی کترانتی ہیں ۔
اکثر تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم ہیں تاہم وہ فعال نہیں ہیں۔ اگر فعال ہیں بھی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اگر طالبات کی جانب سے کوئی ایشو اٹھایا جائے یا شکایت کی جائے تو اساتذہ اور اتھارٹیز کی جانب سے بہت سے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں اور انہیں بغیر سنے اور بنا تحقیقات کیے معاملے سے پیچھے ہٹ جانے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنی والی طالبات تو اس پہ بات بھی نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ اگر وہ شکایت کریں تو مزید مسائیل پیدا کر دئیے جاتے ہیں ۔
تعلیمی اداروں میں طلبا اور بالخصوص طالبات کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ انہیں ایک طرف طلبا کی طرف سے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسری جانب یونیورسٹی یا کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ کی جانب سے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو طلبا اور ان کے والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
ان مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے تو قصوروار شکایت کرنے والے کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور تعلیمی کیرئیر خطرے میں پڑ جاتا ہے کیونکہ آواز اٹھانے کی صورت میں اساتذہ کی جانب سے کم نمبرز یا فیل کر دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یوں طالبعلم خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنا تعلیمی کیرئیر داﺅپر نہیں لگانا چاہتے۔ جب آپ ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہوں جہاں تعلیم دلوانا بہت سے مسائل کا باعث بنتا ہو تو خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں رہتا۔ اور مذہبی اقلیتیوں کو تو دیگر معاشرتی ناہمواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح اقلیت سے تعلق رکھنے والی طالبات تو شکایت کرنے کی ہمت بھی نہیں کرتی ہیں ۔
سٹوڈنٹس کو جسمانی طور پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی انہیں ذہنی اذیت دینے کے لیے مختلف حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں،جیسے جملے کسنا،لباس اور شکل و صورت پر منفی کمنٹس کرنا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عام رویہ ہے کہ اگر کوئی تعلیمی اداروں میں ہراسگی پر بات کرے تو معاشرہ اسے ہی شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے جو ذہنی اذیت کا اگلا اور تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ اور صورتحال مزید دگر گوں ہوجاتی ہے ۔ اور مزید بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے جب طلباءکا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے بھی ہو۔
نجی یونیورسٹی کی طالبہ نیلم(فرضی نام اور اقلیت سے تعلق رکھتی ہیں ) نے بتایاکہ ریسرچ ورک کے دوران ان کو اپنے میل سپروائزر کی جانب سے کئی مسائل پیش آئے اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں آئے روز سپروائزر کی جانب سے طرح طرح کھانوں کی فرمائشیں کی جاتی ہیں اور ان کے کپڑوں اور چال ڈھال پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ طالبہ کا کہنا تھا کہ چھیڑ چھاڑ کرنا، جملے بازی کر کے ذہنی اذیت پہنچانا اور آنکھوں سے ایکسرے کا سامنا معمول کی بات بن چکی ہے۔ اور پھر ان کی مذہبی پہچان ایک اور بڑے مسلے کے طور پہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ نئے سال اور کرسمس پہ ان کو ذومعنی گفتگو بھی سننی پڑتی۔ جس جو وہ غصے کی طرح پیتی رہی اور ڈگری مکمل ہونے کا انتظار کرتی رہیں۔
نیلم کا کہنا تھا کہ اپنے پسندیدہ سٹوڈنٹس کو دوسرے طلبا پر ترجیح دینا، طلبہ کا ریسرچ پیپر اپنے نام سے شائع کروانا، جان بوجھ کر اپنے پسندیدہ سٹوڈنٹس کا نام دوسرے طالبعلموں کے ریسرچ پیپر میں لکھوانا، مفت میں سٹوڈنٹس سے اپنا کام کروانا جو ان کے متعلقہ مضمون سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی ان کو کچھ فائدہ دیتا ہے۔ اگر کوئی طالبہ کسی بات سے انکار کر دے تواس کو نتائج کے لیے بھی تیاررہنا پڑتا ہے۔ اور یہ عام سی بات بن چکی ہے کہ مذہبی شناخت کی بناءپر ذومعنی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
طالبہ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنا ریسرچ پیپر جمع کروایا تو سپروائزر کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ان کے نام سے شائع کرایا جائے اور جب میں نے انکار کیا تو دھمکی آمیز انداز میں بتایا گیا کہ آپ اس کو خود شائع کروا کے دکھائیں۔جب اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا جائے گا تو میں اظہار لا تعلقی کر دوں گا اور اس بات سے انکار کر دوں گا کہ آپ نے میری سرپرستی میں کام کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کے لیے ڈیفنس اور وائیوا کلئیرکرنا بھی آسان نہیں ہو گا کیونکہ میں اس وقت آپ کا ساتھ نہیں دوں گا اور اس طرح میری ساری محنت ضائع ہو گئی۔
ایک اور طالبہ وینس (فرضی نام اور عیسائی مذہب رکھتی ہیں) سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دوسرے طلبہ کی نسبت زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بطور اقلیت اساتذہ کی نظر میں بھی رہتے ہیں اور وہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم کسی سطح پر اپنا احتجاج نہیں ریکارڈ کر سکتے کیونکہ کوئی ایسی کمیٹی نہیں بنائی گئی جو ہماری شکایات کا ازالہ کر سکے۔ ایک تو ہم اقلیت ہیں اور دوسرا یہ خوف بھی غالب رہتا ہے کہ ہمارے خلاف کوئی لابی نہ بن جائے اور کسی قسم کا لیبل نہ لگ جائے۔ بعض اوقات ہمیں مذہبی شناخت چھپانی پڑ جاتی ہے تاکہ ہمیں کوئی پہچان کر ٹرولنگ نہ کر سکے۔
ہراسمنٹ جیسے جرم کو روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ متاثرین کا خاموشی اختیار کرنا اس کا حل نہیں ہے بلکہ ایسے چہروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ تاکہ ہماری نئی نسل کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔ جنسی ہراسگی کے حوالے سے قانون بھی موجود ہے جس کی ا?گاہی سے متعلق اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ تعلیمی اداروں میں طلبا کو سازگار اور محفوظ ماحول میسر آ سکے اور کسی کا استحصال نہ ہو۔
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسیت کا ازالہ اور روک تھام کیسے ہوسکتی ہے اس حوالے سے ڈاکٹر صائمہ کلثوم جو شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں کہتی ہیں کہ انسدادا جنسی ہراسیت پہ قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے شعور وآگاہی اشد ضروری ہے۔ کمیٹی کے ممبران کی تربیت کا بھی فقدان ہے۔ قانون کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے اور جنسی ہراسیت کی حساسیت کاادراک نہ ہونابھی ایک مسئلہ ہے۔