ہر دور میں صحافیوں کو سنسر شپ، الزامات، مقدمات اور دباﺅ کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں صحافت کرنا تو کبھی بھی آسان نہیں رہا اور خواتین کے لیے صحافت کی دنیا میں آگے بڑھنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں میڈیا انڈسٹری میں خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے وہیں ان کو ”صنفی امتیاز“ کا بھی سامنا ہے۔
یہاں تک کہ کچھ اداروں میں صنفی تفریق کا رجحان پایا جاتا ہے اور خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو آسان ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے اور جب وہ صحافی ہوں تو ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے حملے کیے جاتے ہیں اور انہیں ٹرول کیا جاتا ہے جس کا مقصد ان پر دباﺅ ڈالنا ہوتا ہے۔
چند سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز سے خاتون صحافیوں کی تضحیک کی جاتی ہے۔ کچھ نیٹ ورکس میڈیا میں کام کرنے والی خواتین پر منظم انداز میں حملے کرنے ہیش ٹیگ اور ناشائستہ مہم شروع کرنے اور چلانے میں ملوث ہوتے ہیں۔
آن لائن یا آف لائن، دونوں صورتوں میں انہیں صنفی تفریق کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے اظہار رائے کی زیادہ آزادی فرام کی ہے لیکن اسی بنیاد پر صحافی برادری کو آن لائن ٹرولنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا ہے یہاں تک کہ ان کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔ آئے روز ٹوئٹر پر کسی نا کسی صحافی کے خلاف ٹرینڈ چل رہا ہوتا ہے اور جب بات خواتین صحافیوں کی آئے تو ان کو نا مناسب القابات سے نوازتے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔
اگست 2020 میں پاکستان کی کچھ معروف صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کے بارے میں مشترکہ بیان بھی جاری کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ خواتین صحافیو ں کو نشانہ بنانے کے پیچھے حکومتی اہلکار ہیں جن کہ شہہ پر یہ سب شروع ہوتا ہے۔ یہ سب منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے انہیں بدنام کیا جا رہا ہے۔
خواتین کو کمزور اور آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ دفاتر میں بھی ہراساں کیا جاتا ہے اورخواتین اس حوالے سے بہت محتاط رہتی ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے ساتھ ہونے والے ہراسگی کے واقعات کی تشہیر کی جائے۔
جب خواتین صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو ان کے لیے انتہائی عامیانہ گفتگو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پر جنسی نوعیت کے جملے کسے جاتے ہیں، غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہے تاکہ اس سے ان کو ڈرایا جاسکے اور وہ اپنے اظہار رائے کے حق کو مکمل طور پر استعمال نہ کرسکیں اور ڈر کر خاموش ہوجائیں۔
اب ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے کہ خواتین صحافیوں کو کام کے بجائے لباس اور چال ڈھال کے حوالوں سے پرکھا جاتا ہے اور جیسے ہی کسی خاتون نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا یا اختلاف رائے کیا وہیں لفافہ صحافی یا جانبداری کا لیبل لگ جاتا ہے، کبھی ذو معنی جملوں میں بات کی جاتی ہے تو کبھی آپ کی ساکھ پر سوال اٹھا دیے جاتے ہیں، جو امتیازی سلوک ہے۔
اکثر و بیشتر ہراسگی کی شکایت پر خواتین کو ان کے ایڈیٹرز، سپروائزرز یا ادارے کی جانب سے مناسب حمایت نہیں ملتی اور وہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں سے خاموش ہو جاتی ہیں کیونکہ اس کردار کشی سے نہ صرف ان کی نجی زندگی بلکہ ساکھ بھی داﺅ پر لگ جاتی ہے۔
پھرہراسگی سے تنگ آکراکثر خواتین نہ چاہتے ہوئے بھی ہراساں کیے جانے اور دھمکیوں سے تنگ آ کر خود ساختہ سنسر شپ اختیار کر لیتی ہیں یا پھر میڈیا انڈسٹری ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ اپنے کیریئر میں آگے بڑھنا چاہیں تو ان کے اہلخانہ یا معاشرے کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خواتین صحافیوں کو اس لیے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ادارے جانبدار ہو تے ہیں وہ شکایت کرنے والے کی راہنمائی کرتے ہیں اور نہ ہی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ سب جانتے ہوئے بھی ادارے جب رسپانس نہیں کرتے تو ہراساں کرنے والوں کو مزید گنجائش مل جاتی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہو گی اور پھر زیادہ تر معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، یہ ایک ایسا تسلسل ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
بعض حلقوں کی جانب سے اس سب کی مذمت تو کی جاتی ہے لیکن خواتین صحافیوں کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور اکثر اوقات ان کو نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
خواتین صحافیوں کے لیے تو اظہار پر بھی سزا ہے اور انکار پر بھی بقول شاعر فاضل جمیلی
مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی
ہم مانگنا چاہیں گے انکار کی آزادی
میڈیا انڈسٹری میں اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں عورت ہونے کے ناطے کرائم، کورٹ، دفاع، سیکیورٹی اور سیاسی موضوعات کی خبروں پر کام نہیں کرنے دیا جاتا اور صرف موسم یا فیشن کی بیٹ کے لیے فورس کیا جاتا ہے۔
وہیں وہ اپنے ساتھی مرد صحافیوں کے مقابلے کم تنخواہیں دینے کی شکایات بھی کرتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں اخبارات کے مقابلے میں تنخواہیں بہتر ہیں مگر صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے، مفادات اکثر صحافت پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اسے ضرورت اور مجبوری کا نام دے کر صحافیوں کے پیشہ وارانہ ایشوز اور معاشی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ میڈیا تنظیمیں، یونینز اور حکومتی عہدیداران خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل، بد سلوکی، دھونس، خوف اور سنسر شپ کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور ان سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اس ماحول کو ختم کرنے، جائز شکایات کی تلافی کے لیے اور ایسی چیزوں کی روک تھام کے لیے باقاعدہ میکینزم اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔