اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن کی خواتین اراکین

عدالتی معاملات ’خواہ سیاسی مقدمات ہوں، کرپشن کیس ہوں، وائیٹ کالر کرائم، خانگی یا پھر جرائم سے متعلق‘ بہت حساس ہوتے ہیں جن پر فریقین کے وکلا کی جرح، شہادتوں، ججز کی شنوائی اور فیصلوں سمیت دوران سماعت ریمارکس بعد از اپیلوں وغیرہ تک کی نوبت ہر سطح پر وکلا کی اپنے کلائنٹس کا تحفظ کرنے اور انصاف دلانے کی محنت جبکہ ججز کی جانب سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مراحل میں ان کی لمحہ بہ لمحہ روداد عوامہ دلچسپی کی خبریں صحافتی رموز واوقاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے ناظرین و قارئین تک پہنچانا "عرق ریز محنت” کا کام ہے ۔

کورٹ رپورٹنگ میں محنت کرنے والے صحافیوں کا شمار قانون کی باریکیاں سمجھنے والوں میں ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں خواتین صحافت کی مختلف بیٹس (شعبوں) میں اپنا نام بنا رہی ہیں وہاں ہماری خواتین صحافی عدالتی رپورٹنگ میں بھی نام پیدا کر رہی ہیں ۔ ہر قسم کے کیس کی رپورٹنگ چیلنج سمجھ کر کرتے ہوئے اس بیٹ سے انہیں اس قدر لگاؤ ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ بیٹ خواتین کے لئے ہی ہے۔

فرح کیانی اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن کی جوائنٹ سیکرٹری ہیں وہ بتاتی ہیں کہ ہائی کورٹ کی رپورٹنگ کے دوران مجھے ڈسپلن سیکھا۔ عدالت میں وقت پر پہنچنا، اہم مقدمات کا وقت اور تاریخ نوٹ کرنا، مقدمات کا مکمل فالو اپ رکھنا اور عدالتی کاروائی سمجھنے کے لئے چوکنا رہنا ہی عدالتی رپورٹنگ میں کامیابی کا راز ہے۔

فرح کیانی جوائنٹ سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن

فرح بتاتی ہیں کہ پیشہ وارانہ فرائض کے دوران عورت ہونے کے ناطے بہت سے کیسز مجھے حساس بھی بنا دیتے ہیں جن وجہ سے وہ دل لگا کر کام کرتی ہوں۔
انہوں نے ایک مقدمہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کیس میں جب وہ صحافی مظفر نارو کیس میں ان کا تین سال کا بیٹا دیکھتی ہیں تو انہیں دکھ ہوتا ہے کہ اس کے والد لاپتہ ہوگئے اور ماں صدمے سے اس دنیا میں نہیں رہی۔ اسی طرح نور مقدم قتل کیس، سات سالہ فرشتہ بی بی زیادتی و قتل کیس، معصوم بچی کے جلائے جانے جیسے کئی کیسز کسی بھی خاتون رپورٹر کو حساس بناتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کیسز کی رپورٹنگ کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتی ہیں۔
فرح کہتی ہیں کہ چونکہ وہ بھی ماں ہیں اور وہ اکثر اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کو ساتھ لے آتی ہیں۔ تاہم بڑے کیسز کی سماعت کے دوران جب تمام دن کھڑے رہنا پڑتا ہے وہ بچے کو گھر چھوڑ کر آتی ہیں۔
فرح بتاتی ہیں کہ وہ اور ان کے شوہر دونوں ہی صحافی ہیں اور دونوں عدالتی رپورٹنگ کرتے ہیں اس لئے فیملی میں انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ وہ کہتی ہیں چونکہ ہائی کورٹ کی تمام عدالتیں ایک ہی عمارت میں ہے اس لئے انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور رپورٹر ایسویسی ایشن کی وجہ سے ہمیں کیسز سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
فرح کہتی ہیں کہ عدالتی رپورٹنگ میں نئے آنے والی خواتین کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ان کو یہ سمجھنا چاہئیے کہ صحافت جُز وقتی نہیں ہے یہ پورا وقت مانگتی ہے۔ بہت سی مشکلات آ رہی ہیں لہذا خواتین صحافیوں کو اب اپنی مہارتیں دیگر شعبوں میں بھی آزمانی ہوں گی کیونکہ یہاں مواقعوں میں کمی آ رہی ہے۔

نیلم ارشد ایک ٹی وی رپورٹر ہیں وہ کہتی ہیں کہ مجھے فخر ہے کہ میں عدالتی رپورٹنگ کرتی ہوں جہاں صنف نازک جیسا احساس نہیں رکھا جاتا۔

نیلم ارشد ایک ٹی وی رپورٹر ہیں

ہم مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہیں اور بریکنگ نیوز بھی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی مقدمات میں منفرد خبر کے لئے جھمگھٹوں میں بھی جانا پڑتا ہے اور لوگ تعاون کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں پیش آیا اور اس کی بڑی وجہ ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن بھی ہے کیونکہ ہمارا اتحاد ہمیں پیشہ وارانہ بنیادوں پر بھرپور سپورٹ کرتا ہے۔
نیلم کہتی ہیں کہ ہم نے ایک ایک کیس کی کوریج کے لئے کئی گھنٹوں کھڑا رہ کے فرائض کی انجام دہی کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ محنت ہی کامیاب کیرئیرکی ضمانت ہے۔
میں (عمرانہ کومل) خود بھی عدالتی رپورٹر ہوں میرا ماننا ہے کہ کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے سے پہلے جب تک ہمارا خاندان ہمارے ساتھ نہ ہو اس وقت تک پُراعتماد ہو کر کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ میرے والدین نے پُر خطر ترین واقعات کی انویسٹی گیشن رپورٹنگ میں میرا حوصلہ بڑھایا جو ناقابل فراموش ہے۔

عمرانہ کومل عدالتی رپورٹر ہیں

اس کے ساتھ ملازمت کے لئے آپ کا انٹرویو اور امتحان ہوتا ہے لیکن عدالتی رپورٹنگ کا مطلب قانون پر عبور حاصل ہونا ہے۔ میں نے ملتان کی فیملی کورٹس، سیشن عدالتوں اور ہائی کورٹس میں خواتین کے حساس معاملات پر رپورٹنگ کی جن میں تیزاب گردی، غیرت کے نام پر قتل، ونی، پنچایت کیسز، بھٹہ مزدوروں اور انسانی حقوق کے مقدمات کی تحقیقاتی رپورٹس بناتی تھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ قانون کی تعلیم ضروری ہے لہذا عدالتی رپورٹنگ کو بھرپور انداز میں کرنے کیلئے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
انسانی حقوق کمیشن، ملتان ٹاسک فورس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے فورمز کی گرانقدر شخصیات عاصمہ جہانگیر، سید سجاد حیدر ذیدی، راشد رحمان خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سمیت سینئر صحافیوں اور وکلا سے سیکھنے کا موقع ملا.
اب میں گزشتہ 6 سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹنگ کر رہی ہوں اور اس دوران ہر سطح پر نئے تجربات کا سامنا رہتا ہے خاص طور پر حساس مقدمات میں ان کیسز کی چھان بین کے لئے فریقین کے وکلا کے نکات اور کیسز میں دفعات سمیت یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ ہم نے متاثرہ فریقین کی شناخت کتنی کرنی ہے .
خاص طور ایسے مقدمات میں اقلیتی برادری کی لڑکیوں کی جبری شادیوں جیسے حساس نوعیت کے انسانی حقوق کے مقدمات ہیں۔
ایسے میں عزت مآب ججز کے ریمارکس اور کاروائی پر بھرپور نظر رکھنے سمیت قانون پر بھی گرفت ضروری ہے کیونکہ ہر کیس میں سیکھنے کیلئے بہت کچھ نیا ہوتا ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن کی یہ کامیابی ہے جس کی بدولت ہمیں میڈیا روم بھی میسر ہے اور کورٹ میں انٹری بھی مسئلہ نہیں رہتا۔
ہماری ایسوسی ایشن کی یہی کامیابی ہے کہ ہمارے جب بھی انتخابات ہوتے ہیں خود چیف جسٹس صاحب کی جانب سے نہ صرف تہنیتی پیغام آتا ہے بلکہ ہائی کورٹ کے ہال میں ہماری حلف برداری ہوتی ہے جس میں وکلا برادری شریک ہوتی ہے جبکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ ہماری ایسویسی ایشن سے گاہے بگاہے ملاقات کرتے ہیں جن سے صحافت کے رموز و اوقاف سیکھنے کا موقع ملتا ہے .
میں سمجھتی ہوں کہ عدالتی رپورٹنگ لائف ٹائم اپنانے کے لئے جنون ضروری ہے خود کو نیا سیکھنے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔

عنبرین علی کہتی ہیں کہ چار دیواری پر محیط ہماری بیٹ مجھے بہت پسند ہے یہاں روزانہ کی بنیاد پر نیا کیس آنا کچھ نیا سیکھنا ہر وقت چوکنا رہنا ہے یہ بیٹ خواتین اور مرد حضرات کی صلاحیتیں منوانے کا بھر پور موقع فراہم کرتی ہے ۔

عمبرین علی کا ماننا ہے کہ ہمارے رپورٹرز کو جہاں کورٹس میں انٹری، وی آئی پی کیسز کی رپورٹنگ کے لئے انٹر پاس ادارے کے ساتھ ساتھ بطور کورٹ رپورٹر خود کو منوانے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے ایسے میں ہماری ایسویسی ایشن ہر سطح پر ہمارے شانہ بشانہ رہتی ہے۔
ایسویسی ایشن میں ہم خواتین کو انتخابی عمل اور مشاورت میں نمائندگی ملتی ہے۔
عنبرین علی لائیٹر موڈ میں کہتی ہیں کہ انہیں عدالتی رپورٹنگ کرتے ہوئے سات سال ہوئے ہیں ۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ بیٹ جینڈر فرینڈلی ہے.
کیونکہ ایک تو ہم ہائی کورٹ کی چاردیواری میں ہیں ہمارا اپنا میڈیا روم ہے جبکہ واش روم جیسے مسائل بھی نہیں اور بھاگ دوڑ فیلڈ کرتے ہوئے جلد پر اثر نہیں پڑتا۔ ایسے میں ہم کام پر زیادہ فوکس رکھتے ہیں۔
ٹی وی رپورٹر آسیہ کوثر کہتی ہیں کہ میری فیورٹ بیٹ کرائم ہے لیکن ہائی کورٹ بیٹ کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔

ٹی وی رپورٹر آسیہ کوثر

یہاں اکثر حساس مقدمات کی رپورٹنگ کے دوران پولیس، فریقین اور رپورٹرز میں تناؤ کی سی صورتحال بھی ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات رپورٹرز کو بھیڑ کی وجہ سے سپاٹ پر بھی نہیں جانے دیا جاتا جبکہ ہر قسم کی رُکاوٹ ہماری ایسویسی ایشن کے عہدے دار معاملہ فہمی سے دور کرتے ہیں جو قابل تعریف ہے ۔
ان کا کہناہے کہ خواتین ہوں یا مرد اس بیٹ میں یہ جان کر آئین کہ یہاں صرف محنتی لوگوں کی جگہ ہے ۔ آسیہ کوثر کا ماننا ہے عدالتی رپورٹنگ میں ایک فل سٹاپ کی غلطی بھی کیرئیر تباہ کر دیتی ہے ہر لفظ پر محتاط رہنا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے منسلک مونا خان کا کہنا ہے کہ میں قانون کی طالبعلم نہیں رہی تاہم میں نے رپورٹنگ کا آغاز سپریم کورٹ رپورٹنگ سے کیا جو حساس اور مشکل مانی جاتی ہے۔

مونا خان ہائی کورٹ رپورٹرز ایسویسی ایشن کی نائب صدر ہیں

مونا خان ہائی کورٹ رپورٹرز ایسویسی ایشن کی نائب صدر بھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ رپورٹنگ کے دوران انہوں نے سیکھا ہے کہ بطور کورٹ رپورٹر مختلف قوانین کا پی ڈی ایف سیل فون میں محفوظ ہونا چاہیئے۔
ان کا ماننا ہے کہ سینئرز نے پہلے پہل بہت مدد کی کیونکہ ہماری رپوٹنگ کے دوران غلطی کی گنجائش بالکل نہیں۔ اسی طرح مجھے عاصمہ جہانگیر، مخدوم علی خان، انور منصور ایڈووکیٹ سے سیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ جب چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی بطور وکیل انٹرویو کرنے کا موقع ملا ۔
مونا خان کہتی ہیں کہ اس بیٹ کو بطور کیرئیر اپنانے والوں کو میرا مشورہ ہے کہ صحافت کو محض کسی وٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے اور وٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرنے کی غلط فہمی میں نہ رہیں بلکہ خود سمجھ کر رپورٹ کرنا چاہئیے۔ زیر سماعت مقدمات اور قانون آپ کی فنگر ٹپس پر ہونے چاہئیں۔ ک
سی بھی پیٹیشن کو سمجھنے اور فوری خبر بنانے کی صلاحیت، فیصلوں اور ریمارکس کو پک کرنا آنا اور بروقت رپورٹنگ ہی ہماری ذمہ داری ہے۔
صدر اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن ثاقب بشیر کہتے ہیں کہ ہماری ایسوسی ایشن کے 54 اراکین میں 6 خواتین ہیں یہ ایسویسی ایشن جو 2010 سے قائم ہے جبکہ 2017 سے زیادہ متحرک ہے۔
ثاقب بشیر ہائی کورٹ رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر ہیں

تنظیم میں خواتین کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی رویہ نہیں رکھا جاتا۔ گزشتہ دوسال سے جب سے میں صدر بنا یہی کوشش ہے کہ مشاورت اور انتخابی عمل میں ہماری ساتھی خواتین شامل ہوں۔
فیلڈ میں کسی بھی خبر کے سورسز یا کسی بھی اسٹوری میں اپنی ساتھی کولیگز سے پیشہ وارانہ سطح پر تعاون کیا جاتا ہے کیونکہ سب محنت کرنے والی خواتین ہیں ہمارا مثبت ورکنگ ریلیشن شپ ہماری ایسویسی ایشن کی کامیابی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے