اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں اپنی گائیکی کے ذریعے مداحوں سے داد پانے والی ثنا عمانوئیل اپنے بچے کو گود میں اٹھائے، اپنے شوہر کے ہمراہ گائیکی کے سازوسامان کو ترتیب دیتی ہیں تو وہاں موجود ہر فرد انہیں قدر کی نگاہ دیکھتا ہے۔ اس میں ماں کی ممتا نظر آتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد کی خاطر محنت کر رہی ہے۔ آنکھوں میں گھر بنانے کے خواب سجائے اپنے بچے کو تھپکی دیتے ہوئے ثنا جب گاتی اور مسکراتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے مامتا اپنی اولاد کو سکھ چین کی زندگی دینے کا خواب پورا کر رہی ہو۔
ثنا بتاتی ہیں کہ وہ 25 سال سے گائیکی کر رہی ہیں۔ انہوں نے مختلف ہوٹلز میں کام کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک فنکار کا کام لوگوں کو خوشیاں دینا ہے اسی وجہ سے فنکار عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں اور داد کے ادا کئے جانے والے دو بول ان کے اطمینان کیلئے کافی ہوتے ہیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ کورونا 19 سے قبل ان کی شادی ہوئی جب وبا آئی تو وہ امید سے تھیں ۔ تاہم روزگار کے خاتمے کے باعث ان کیلئے حالات مشکل ہو گئے، جمع پونجی خرچ ہوگئی تھی۔ مکان کے کرایے، یوٹیلٹی بلز سمیت ایک بچے کی دنیا میں آمد اور اخراجات کی بھرمار نے انہیں بہت پریشان کر دیا تھا تاہم اب ان کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ کام کے اوقات میں بچہ ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ملتی لیکن جہاں وہ اب کام کر رہی ہیں تو وہاں بچہ ساتھ رکھنے کی اجازت ملی تو ان کے دل سے دعا نکلی۔ ثنا کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر بھی ان کے ساتھ گٹار پرفارم کرتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کام کرتے ہیں تو زندگی کا پہییہ چلتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اخراجات ابھی بھی پورے نہیں ہو رہے تاہم وہ محنت کر رہے ہیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ وبا کے دوران حکومت سمیت کسی سطح پر کوئی مدد نہیں ملی۔ اور نہ ہی مقامی سطح پر فنکاروں کی کوئی ایسی تنظیم ہے جو ان کے مسائل اُجاگر کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو اپنا مسئلہ بڑا محسوس ہوتا ہے لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کا اپنا گھر نہ ہونا ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کا ذاتی گھر ہو، مہنگائی سے نجات ملے اور ان کی اولاد کو بڑے ہو کر ایسے مسائل کا سامنا نہ ہو جن مسائل کا انہیں سامنا ہے۔
ثنا حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کیلئے بنائی جانے والی ہاوسنگ کالونیوں کی طرز پر مقامی افنکاروں کے لئے آرٹسٹ ٹاؤن بنائے جہاں انہیں مفت گھر ملیں یا ایسی اقساط ہوں کہ ہم جیسے محنت کشوں کو ساتھ ہی قبضہ ملے اور ساتھ ہی ہم وہاں رہتے ہوئے اقساط جمع کروائیں کرائے کے مکان سے بچ جائیں۔ اس سے فنکار ایک جگہ اکٹھے رہ سکیں گے۔ اس کے علاوہ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے نادار فن کاروں کو ماہانہ وظیفہ فراہم کیاجائے۔
ثنا کہتی ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے بغیر کچھ نہیں اوراسی طرح وہ بھی پاکستان کا اثاثہ ہیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ ملکہ ترنم نور جہاں ان کی آئیڈیل ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ثنا کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابرارالحق، فریحہ پرویز، شبنم مجید، حدیقہ کیانی سمیت متعدد نامورگلوکاروں کے ساتھ پرفام کیا اور ان سے بہت سیکھا۔ ان کے رائلٹی شوز میں مقامی فنکاروں کو پرفارم کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مقامی فن کاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی ایوارڈز کا اعلان کیا جانا چاہئیے کیونکہ وہ بھی فن کی خدمت کر رہے ہیں۔
ثنا اس بات سے رنجیدہ ہیں کہ ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن میں فن کاروں کو انتہائی کم معاوضہ ملتا ہے جس سے پیٹرول کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے اس لئے مقامی فنکار وہاں پرفارم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ریڈیو اور ٹی وی نے ان کے فن کی پذیرائی کرنی ہے تو وہ معاوضہ بڑھائیں۔
ثنا کا ماننا ہے کہ فن کار ٹیلنٹ لیکر پیدا ہوتے ہیں لیکن ایک اچھا استاد اس کا فن کو نکھارتا ہے اور ان کے استاد سموئیل گل تھے جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔
ثنا کا مطالبہ ہے کہ فنکار کمیونٹی حساس کمیونٹی ہے وہ اپنے معاشی مسائل نہیں بتاتے لیکن حکومت کو ان کی خود داری کا بھرم رکھنا چاہئیے اور ان کی مشکلات سمجھتے ہوئے ایسی پالیسی بنائے کہ ہم اپنے ملک اور فن کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی کفالت اچھے طریقے سے کر سکیں۔
اسلام آباد کے مقامی ہوٹل کے منیجر کا کہنا ہے کہ ہم ثنا کی اپنی اولاد کے لئے قربانیوں کی قدر کرتے ہیں ہم بچہ ساتھ لانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ اولاد ماں کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے۔