صحافت میں خواتین کا کردار

"وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ” اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی یہ رنگا رنگی خواتین کے دم قدم سے ہے۔

گھر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں خاتون خانہ موجود نہ ہو، کہنے کو تو وہ شریک حیات بھی ہے، ماں کے عظیم رتبے پر بھی فائز ہے، وہ ایثار وفرض شناسی کی بہترین مثال ہے اور اس کی یہی خوبی اسے باہر کی دنیا میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔

جہاں افراد زندگی کو منفرد انداز میں گزارنے کے لیے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں تاکہ وہ معاشی ومعاشرتی طور پر اپنے آپ کو اس قابل بنا سکیں کہ سفر زیست پر آسائش ہو سکے، دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات نے بہت سے شعبوں کو متعارف کروایا ہے۔

طب، انجیینئرنگ، ٹیکنالوجی کے قدم رجحانات آج یکسر بدل گئے ہیں مگر وہ علوم ابھی بھی باقی ہیں جن کی بنیاد پر یہ معاشرہ کھڑا ہے۔

صحافت بھی ایک ایسا شعبہ ہے جو زمانہ قدیم سے ہی انسان کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت تبدیل ہوتی رہی ہے۔

پتھر کی سلوں اور درختوں کی چھال سے ہوتا ہوا دریا کے کنارے ریت پر اشکال میں ڈھل تصویری رسم الخط تک پہنچا۔ کامیابی کا سفر کبھی سست روی کا شکار رہا اور کبھی برق رفتار گھوڑے کی طرح منزل پر پہنچ گیا۔

آج صحافت جس شکل میں ہے وہ صدیوں کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے آج اس نے ایسے ہتھیار کی شکل اختیار کر لی ہے جو مرہم اور زخم دونوں لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تمہید ذرا طویل ہو گئی ہے معافی کی درخواست گزار ہوں، جہاں تک صحافت میں خواتین کا کردار ہے تو میں بتا چکی ہوں کہ وہ فطرتاً محنتی اور ایماندار ہوتی ہیں ان کی رسائی چونکہ مردوں کی نسبت فیلڈ میں کم ہوتی ہے وہ اپنے کام پر بھرپور توجہ دیتی ہیں۔

یادش بخیر آج سے چار دہائیاں قبل جب میں نے اور میرے ساتھ کی خواتین نے اس شعبے میں قدم رکھا تو یقین جانیے ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی بہت بڑے منصب پر فائز ہو گئے ہیں اور ہمارے معاشرے میں پھیلی برائیوں اور نا انصافیوں کو روکنا ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمارے ایڈیٹرز نے بھی ہمیں یہی باور کرایا تھا کہ آپ لوگوں کے مددگار ہیں آپ نے سرکاری اداروں کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرنی ہے، معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور پوری دیانتداوری سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں سرکاری ہسپتالوں میں جائیں دیکھیں نادارمریضوں کو ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات مسیر آ رہی ہیں۔

اپنے علاقے کے تعلیمی اداروں کی کوریج کیجیے تاکہ بچوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ کوتاہیوں کی نشاندہی اسی انداز میں کیجیے کہ انتظامیہ اصلاح کی جانب توجہ دے سکے۔

ان اداروں میں جائیں جن کا تعلق براہ راست پبلک سے ہے اور دیکھیں کہ وہ اپنے امور کس طرح انجام دے رہے ہیں۔

یہ وہ درس ہوتا تھا جو صبح ہر صحافی جس میں مرد و خواتین کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی تھی ملکر اپنی صحافتی ذمہ داریوں کا آغاز کرتا تھا۔

جس زمانے کی میں بات کر رہی ہوں اس وقت فیلڈ میں گنتی کی چند خواتین ہوتی تھیں راولپنڈی اسلام آباد میں محترمہ فریدہ حفیظ صاحبہ، شیخ اکرام الحق، انیس مرزا صاحبہ، فوزیہ شاہد، رباب عائشہ، انور سلطانہ، صالحہ اور بھی کئی خواتین ہوں گی مگر یہ سب اپنے شعبے میں نمایاں مقام رکھتی تھیں.

اس زمانے میں خواتین کے صفحے ادب پارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نہیں تھا تو لوگ اخبار بہت شوق سے پڑھتے تھے۔

محترمہ رباب عائشہ کا اس وقت روزنامہ جنگ میں چھپنے والا خواتین کا صفحہ بے حد مقبول تھا اندازہ ان خطوط سے لگایا جاتا جو پسندیدگی کی سند کے طور پر موصول ہوتے۔

فریدہ حفیظ کی رپورٹنگ مضامین اور شمیم اکرام الحق کی خوبصورت اور جاندار تحریریں، شاعری آج بھی پرانے قارئین کو یاد ہوں گی۔ محترمہ انیس مرزا انگریزی اخبار سے وابستہ ایسی کالم نگار اور رپورٹر تھیں جن سے بڑے بڑے حکومتی عمائدین بھی کنی کتراتے تھے۔

کیونکہ ان کا قلم کاٹ دار تھا۔ فوزیہ شاہد نے میگزین روزنامے کے علاوہ صحافتی تنظیموں میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

انور سلطانہ نے نوائے وقت میں ایک طویل عرصہ اپنے ہنر کا جادو جگایا اور اس کے بعد کئی اخباروں میں کام کیا ۔

صحافت میں جو فرق آج اور کل میں ہے وہ بڑا واضح ہے، اپنے دور میں ہم خواتین پیدل اور بسوں ویگنوں میں سفر کرتے تھے سب کا یہی حال تھا۔

اپنے پروفیشن سے محبت نے ہمیں کبھی تھکنے نہیں دیا کیونکہ ہمارے نزدیک اس وقت صحافت ایک مشن اور عبادت کا درجہ رکھتی تھی، اگر آج کے دور کا موازنہ کیا جائے تو آج کی صحافی خواتین نے پرانی صفات چھوڑ نئے زمانے کے رنگ اپنا لیے ہیں، وہ زیادہ پُر جوش اور بااعتماد ہیں۔

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ یوں بھی وہ صحافت دم توڑ گئی جس کا مقصد معاشرتی فلاح و بہبود لوگوں کی خدمت اور مفلس اور نادار لوگوں کو انصاف دلوانا تھا۔

لفظوں کی حرمت کو ہر حال میں برقرار رکھنا تھا۔ مگر آج کے دور میں لفظ بے توقیر ہو چکے ہیں۔ زمانے کے چلن کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں بدلاﺅ آ گیا ہے۔ سچائی، نیکی، ایمانداری ان کے مفہوم بھی بدل گئے ہیں۔

زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے مگر ہم پرانے دور کی صحافی خواتین آج بھی ان روایتوں میں زندہ اور پرانی اقدار کے سہارے جی رہی ہیں۔

آج کی صحافی خواتین جن سنہری اصولوں پر گامزن ہیں اس سے ان کی ترقی کی راہیں کھل گئی ہیں۔ آج پبلک کی بھلائی نہیں اقتدار کے ایوانوں میں رسائی ہے۔

عوام کے مسائل کی نشاندہی کی صحافت کی بجائے سیاسی جماعتوں کی ترجمانی عروج پر پہنچ چکی ہے، سب سے بڑے ناقدین تو عوام خود ہیں جو چاہے سوشل میڈیا ہو یا مرغے لڑاتے ٹاک شوز ہر طرف فیڈ بیک یہی ملتا ہے کہ صحافی بکاﺅ ہیں اس رائے کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ صحافت جو پیغمبرانہ پیشہ ہے اس کی آبرو بچائی اور قائم رکھی جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے