عام انتخابات میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹ کی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ تمام صوبوں میں بعض ایسے حلقے ہیں جہاں اقلیتی ووٹوں کی تعداد 40فیصد سے زیادہ ہے ۔
1985ء کے انتخابات میں انکے ووٹوں کی تعداد 9لاکھ 85 ہزار338 تھی جبکہ 2018ء کے انتخابات میں 26 لاکھ 46 ہزار133 ووٹوں کے اضافے کے بعد 36 لاکھ 31 ہزار471 تھے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کا جائزہ لیں تو انتخابی تاریخ میں اقلیتی ووٹوں میں صفر اعشاریہ 5 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔
مذہبی اقلیتوں کی جانب سے قانون ساز اسمبلیوں میں غیر مسلم نشستوں کی تعداد میں اضافے کے مطالبے پر حکومتی اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی توجہ مرکوز کروائی جاتی رہی ہے۔
اس سلسلے میں عام انتخابات کے بعد نئی قانون سازاسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد کے حوالے سےمتعدد بار بل بھی پیش کئے گئے ۔
2013ء میں ڈاکٹر رمیش کمار نے آئین میں ترمیم کابل پیش کیا جس میں آبادی کے تناسب سے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کا مطالبہ کیا گیا۔
بعدا زاں اس بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
آئین پاکستان کے مطابق تمام اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اٖضافہ انکی آبادی کے تناسب کو دیکھ کر کیا جائے گا۔
ادارہ شماریات کی مردم شماری "جن میں 1981،1998اور 2017 شامل ہیں” میں مذہبی اقلیتوں کی درست آبادی کے اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جو کہ اقلیتوں کی نشستو ں کی تعداد میں اضافے کا سبب بننا چاہئے ۔
آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لئے دس نشستیں مخصوص کی گئیں اس شق کی مزید وضاحت کے لئے آئین میں لکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے،وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارلحکومت کے لئے متعین کی جائیں گی بلوچستان کے5اضلاع میں مذہبی اقلیتی رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 50سے بھی کم ، سندھ کے 6اضلاع میں یہ تعداد 1لاکھ سے زائد مذہبی اقلیتوں کا کتنے فیصد ووٹ بینک بڑھا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعدوشمار کے مطابق 2022میں اقلیتوں کےرجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 تک پہنچ گئی ہے ۔
خیال ظاہرکیا جارہاہے کہ یہ ووٹ آئندہ آنے والے انتخابات میں امیدواروں کی ہار اور جیت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ملک بھر میں ہندو ووٹرز 20 لاکھ 73 ہزار 983 مسیحی 17 لاکھ 3 ہزار 288 ہیں اور باقی اقلیتوں کے ووٹ 1 لاکھ 74 ہزار 165 ہیں۔
2018ء کے جنرل الیکشن میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 36 لاکھ 31 ہزار 471 تھی۔
گزشتہ 37 سالوں اور 9 جنرل الیکشنز میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کا تناسب دیکھا جائے تو 26 لاکھ 46 ہزار 133 رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔
1985ء کے عام انتخابات میں اقلیت کے 9لاکھ 85ہزار 338ووٹ رجسٹرڈ تھے ۔
اس انتخاب میں مسلم امیدواروں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری نے بھی اپنے اپنے امیدواروں کو ووٹ کاسٹ کئے تھے۔
1985ء کے عام انتخابات میں ملک بھر میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 43 لاکھ 96 ہزار661 تھی جبکہ اس میں اقلیتی ووٹ کا تناسب 3.3فیصد تھا
اسی طرح 2018ء کے عام انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد10کڑوڑ 59لاکھ55ہزار409تھی جبکہ الیکشن میں اقلیتی ووٹوں کا تناسب3.8فیصد تھا۔
گزشتہ9انتخابات میں اقلیتوں ووٹوں کے تناسب میں صرف 0.5فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چیتن لال نے بتایا کہ اصل مسئلہ نیشنل ڈیٹا بیس میں رجسٹریشن کا ہے جس پر نہ تو حکومت اور نہ ہی مذہبی اقلیتوں کے فلاحی ادارے توجہ دے رہے ہیں۔
مزید کہا کہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندو ووٹروں کی تعداد تقریبا 18 لاکھ تھی جو 2013 کی انتخابی لسٹوں کے مقابلے میں تقریبا ساڑھے تین لاکھ زیادہ ہے۔
تعلیم کی کمی اور سماجی آگاہی نہ ہونے کی وجہ مذہبی اقلیتیں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ انکی اصل آبادی کا تعین بھی نہیں ہو پاتا۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹ کی تعداد کہیں کم کہیں زیادہ مذہبی اقلیتوں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں مرد رجسٹرڈ ووٹ 21لاکھ 52ہزار143ہےجبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18لاکھ41ہزار193 ہے ۔
اعداد وشمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد صوبہ سندھ میں ہے
جس میں مذہبی اقلیتوں کے کُل ووٹوں کی تعداد22لاکھ17ہزار141اور ہند وووٹرز کی تعداد 19لاکھ36ہزار7449،2لاکھ54ہزار731مسیحی ووٹرزجبکہ دیگراقلیتی ووٹرز کی تعداد 25ہزار661ہے۔
دوسرے نمبر پر پنجاب میں کُل اقلیتی ووٹرز کی تعداد16لاکھ41ہزار838 ہے ۔
یہاں مسیحی برادری کا ووٹ بینک زیادہ 13لاکھ99ہزار468ہے جبکہ ہندو کمیونٹی کے ووٹرز کی تعداد 1لاکھ3ہزار658 جبکی دیگر اقلیتی ووٹرز 1لاکھ38ہزار709 ہے۔
بلوچستان میں اقلیتی رجسٹرد ووٹرز کی تعداد 51ہزار245ہے جس میں ہندو ووٹرز کی تعداد 28ہزار 551 جبکہ مسیحی ووٹرز20ہزار761 اور دیگر اقلیتی ووٹرز1ہزار933 ہیں ۔
کے پی کے میں کُل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 46ہزار 115 جس میں مسیحی ووٹرز کی تعداد 33ہزار328 جبکہ ہندو ووٹرز 5ہزار25 جبکہ دیگر اقلیتوں کے ووٹ 7ہزار762ہیں ۔
اسلام آباد میں کُل اقلیتی ووٹرز کی تعداد41ہزار 9سو77ہے۔ جس میں مسیحی ووٹرز38ہزار744دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3 ہزار 233 ہے۔
صوبوں میں مذہبی اقلیتوں کے زیادہ اور کم ووٹوں والے اضلاع کون سے؟
کے پی کے میں زیادہ رجسٹرڈ ووٹوں میں ضلع پشاور19ہزار749،نوشہرہ4ہزار723،کوہاٹ30ہزار036،خیبر2ہزار314اور ایبٹ آباد1ہزار951شامل ہیں۔
خیبر پختو خوا میں 5 اضلاع ایسے ہیں جن میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد100سے بھی کم ہے ۔
ان میں کولئی پالس8،کوہستان لوئر12،چترال اپر19،کوہستان اپر25اورکرک میں 89 افرادشامل ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ اقلیتی ووٹوں کی تعداد ضلع کوئٹہ میں 19ہزار567 ہےدیگر اضلاع میں جعفرآباد 5115،لسبیلہ 4278،خصدار2503اور کیچ 2771شامل ہیں۔
صوبے کے پانچ اضلاع ایسے ہیں جن میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد 50سے بھی کم ہے اس میں موسیٰ خیل 12 ،واشک 45 ،سوراب 30 ,باکھران24اورآوران50شامل ہیں۔
صوبہ پنجاب میں 4اضلاع میں اقلیتی رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 1لاکھ سے زیادہ ہے ۔ان میں سیالکوٹ 110906 ،لاہور 352606 ،گوجرانوالہ 126291 اور فیصل آباد 180986شامل ہیں۔
سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع میں راجن پور528،پاکپتن3984،لودھراں3043،ڈیرہ غازی خان1485بھکر میں 1389شامل ہیں۔
صوبہ سندھ میں 6اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 1لاکھ سے زیادہ ہے۔ جس میں عمر کوٹ تھر پارکر 339392 ،ٹنڈوالہیار 123179 ،سانگھڑ 216611،میر پور خاص272480اور بدین میں 183821شامل ہیں۔ اسی طرح سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع میں سجاول12466،نو شہرو فیروز11743،کراچی ویسٹ14123،ومبر شہدات کوٹ6318 شامل ہیں۔