دنیا کے کسی بھی نخلستان ، محل یا بلند بالا بنگلے کو جیل کا نام دے دیاجائے تو وہاں رہنے والے افراد کو بھی گھٹن کا احساس ہونے لگے گا۔ آسائشیں کتنی ہی کیوں نہ ہوں آزادی خواہش بن ہی جاتی ہے ۔ لیکن جہاں حقیقت میں جیل ، قید اور قیدیوں کی سہولیات کی بات آئے تو اصولی طور پر حکومت اور متعلقہ حکام قید خانوں میں قیدی کی حیثیت ہی سے کیوں نہ ہو ۔
آنے والوں کو جیل کی حد تک رہائش خوراک بنیادی ضرورتوں کی فراہمی، سمیت اپنے اپنے مذاہب کے مطابق مذہبی عبادات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قانونی چارہ جوئی کے لئے امداد کی فراہمی یقینی بنانا قیدیوں کے حقوق جبکہ جیل حکام کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ لیکن جہاں بات آتی ہے اقلیت کی تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدی اپنے اپنے قید خانوں میں بھی اقلیت ہی میں ہیں وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی 116 جیلوں میں 88 ہزار 650 قیدی موجود ہیں۔
جن میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدی بھی شامل ہیں۔تاہم ہمارا سروے بتاتا ہے کہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں 15سو سے 18 سو کے لگ بھگ قیدی موجود ہیں جبکہ محتاط اعداد و شمار کے مطابق سندھ کی مختلف جیلوں میں 150سے 200تک اقلیتی قیدی، بلوچستان میں 8 سے 10 جبکہ کے پی میں 20 سے 25 اقلیتی قیدی موجود ہیں ۔
تاہم مختلف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کے مسائل جاننے کے لئے "پاکستان بھر کی جیلوں میں قید مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کے مسائل اور ان کا حل” کے موضوع پر خصوصی سروے کیا گیا۔
جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں متحرک اقلیتی قیدیوں کے حقوق کے لئے عملی کام کرنے والے حکومتی نمائیندگان ، متعلقہ جیل حکام ، سیاسی و سماجی شخصیات ماہرین قانون و سماجی تنظیوں کے نمائیندگان مذہبی اقلیتی نمائیندگان نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ تمام ملک کی جیلوں میں اقلیتی قیدیوں کے لئے ان کے مذاہب کے مطابق عبادت گاہیں قائم کی جائیں ۔ علاوہ ازیں مزہبی کورسز کرنے والے قیدیوں کو بھی قران پاک حفظ کرنے والے قیدیوں کی طرح سزا میں معافی دی جائے۔
سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذہبی اقلیتی قیدیوں کو غربت اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے جبکہ مطلوبہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بروقت قانونی امداد نہیں ملتی۔ تاہم اقلیتی قیدی جیل انتظامیہ کی جانب سے ملنے والی سوشل ویلفئیر افسران سے رابطہ کاری اور ضابطہ کے مطابق سہولیات کی فراہمی کو غنیمت جانتے ہیں،
اس حوالے اقلیتی قیدیوں کی تعداد 15سو سے 18سو کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب میں وا اقلیتی قیدیوں کے لئے سرگرم سماجی ادارہ راہ نجات منسٹری پاکستان کے چئیرمین صفدر چوہدری کہتے ہیں کہ ان کے مشاہدہ میں یہی بات آئی ہے کہ اقلیتی قیدیوں کے گھر والے انتہائی غریب بے بس ہوتے ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لئے معلومات ہوتی ہیں نہ ہی وسائل۔
صفدر چوہدری بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم جہاں تک ممکن ہوسکے قانونی امداد فراہم کرتی ہے جبکہ ہر ماہ پنجاب بھرکی ترتالیس جیلوں کے اقلیتی قیدیوں کے لئے صابن ٹوتھ پیسٹ برش بنیادی ضروری اشیا بھی فراہم کی جاتی ہیں انہوں نے بتایاکہ اس حوالے سے تمام جیلوں کے متعلقہ حکام اور عملہ کھلے دل سے تعاون کرتا ہے ۔
ان کا کہناہے کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں گو کہ اقلیتوں کے لئے الگ سے عبادت گاہیں قائم نہیں ۔ لیکن ہر جیل میں ایک کمرے کو اقلیتی قیدیوں کے کلاس روم کادرجہ دیتے ہوئے وہاں ایک ٹیچر تعینات ہے جہاں اقلیتی قیدی صبح 8بجے سے لے کر دن 10بجے تک تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔
چوہدری صفدر بتاتے ہیں کہ ہم ہر جیل کے دورے پر قیدیوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں ۔جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان سے معافی مانگیں ائیندہ جرم نہ کرنے کا عزم کریں تاکہ جب آپ ازاد ہوں تو باعزت زندگی گزار سکیں اور ملک پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔
صفدر چوہدری مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت مذہبی کورسز کرنے والے اقلیتی قیدیوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے ۔
راہ نجات منسٹری پاکستان اسلام آباد کے کوآرڈینیٹر ندیم صدیق کہتے ہیں کہ کوٹ لکھ پت اڈیالہ جیل ساہیوال ملتان لاہور سمیت جہاں بھی انہوں نے دورہ کیا پنجاب بھر میں جیل عملہ قیدیوں کی فلاح کے لئے کام کرنے والوں کے لئے کھلے دل سے تعاون کرتاہے ۔ جبکہ میانوالی جیل سوشل ویلفئیر افسران نے ہمارے دورے کے دوران ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی۔
جہاں تک قیدیوں کے مسائل ہیں اقلیتی قیدی دوہرے ذہنی تناو کاشکار ہیں کیونکہ انہیں تو جیل میں روٹی میسر آجاتی ہے لیکن وہ اپنی اولاد والدین گھروالوں کی بھوک وافلاس و بے بسی کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں ۔
ندیم صدیق بتاتے ہیں کہ ان کا ادارہ ایسے قیدیوں کی فیمیلیز کے لئے بھی فاحی کام کرتاہے تاہم پاکستان میں سماجی انصاف قائم کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کی ضروت ہے ۔ غربت بے روزگاری کا خاتمہ ۔
معاشی مسائل کا حل یقینی بنایاجائے ، حکومت اس حوالے سے بلاامتیاز مذہب و علاقہ آئین پاکستان کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے ۔
ندیم صدیق بتاتے ہیں کہ 10 سے 15 ہزار جرمانے والے قیدیوں کے جرمانے ادا کرتے ہوئے ان کی رہائی ممکن بنائی جاتی ہے ۔ جبکہ مذہبی تہوار اقلیتی قیدیوں کے ساتھ منانے کا اہتمام کیاجاتاہے ، ندیم صدیق کامطالبہ ہے کہ جس طرح سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کرسمس کے موقع پر جیلوں میں قیدیوں کے لئے سرکاری تقریبات کا اہتمام کیاتھا ایسے ہی مستقبل میں اقدامات اٹھائے جائیں تمام اقلیتی قیدیوں کے تہواروں پر انہیں تنہائی کا احساس نہ ہونے دیاجائے۔ ان کی فیملیز سے ملاقات کا بھی اہتمام کروایاجائے۔جبکہ مذہب کے لئے عبادت گاہ قائم ہونی چاہیئے،
پیپلز پارٹی کے ایم این اے رکن انسانی حقوق کمیٹی برائے قومی اسمبلی، رکن قومی اسمبلی کمیٹی برائے مذہبی امور نوید عامر کہتے ہیں کہ ہماری ہی پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اقدامات کے تحت جیلوں میں اقلیتی قیدیوں کے لئے عبادت کے لئے خصوصی کمرے مختص کئے گئے جب شہباز بھٹی وفاقی وزیر تھے انقلابی اقدامات دیکھنے کوملے تاہم اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدی دوہری اذیت کاشکار ہیں کیونکہ انہیں سزاؤں میں ریلیف کے ضابطوں میں امتیازی سلوک کاسامنا ہے ان کا کہناہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سئینیر پارلیمنٹرین پنجاب سردار مہیندرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کی کاوشوں سے پنجاب کی جیلوں میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے قیدی خواہ کسی بھی مذہب سے ہوں قید کے دوران اپنی مذہبی کتب کا کورس کریں تو ان کی قید میں ریلیف کے لئے حکمت عملی وضع ی جارہی ہے ۔
جیسے مسلمان قیدیوں کو قران پاک حفظ کرنے پر ریلیف ملتا ہے اسی طرح ہوم ڈیپارٹمنٹ سے مل کراقلیتی قیدیوں کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی ماہر قانون روتھ بشیر ایڈووکیٹ کا کہناہے کہ اکثریتی و اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو ساتھ مساوی سلوک رکھاجاتاہے جیل ضابطہ جات کے مطابق خوراک و سہولیات مہیا کی جاتی ہیں تاہم قید میں معافی کے لئے مذہنی کورسز کرنے والے اقلیتی قیدیوں کو بھی میرٹ پر ریلیف دینے کااہتمام کیاجائے۔
لاہور کے ماہر قانون ایڈووکیٹ جمشید رحمت اللہ کہتے ہیں کہ قانون سب کے لئے برابر ہے جیلوں میں ضابطے کے مطابق قیدیوں کو سہولیات میسر ہیں اقلیتی قیدیوں کی قانونی مدد کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ضروری ہے۔
ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب بار کونسل کی رکن ایڈووکیٹ سونیا جیمز کہتی ہیں کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے حوالاتی قیدیوں کا سب سے بڑامسلہ ان کی غربت بے بسی ہے معمولی کیس میں بھی ضمانت کروانے کے لئے کوئی ملکیتی رجسٹری نہیں ہوتی نہ ہی کوئی غریب کی ضمانت دیتاہے جس کی وجہ سے سزا ملنے سے قبل ہی سزا بن جاتی ہے گھروں میں غربت بدحالی گھیرے دالے رکھتی ہے ۔
جس کے لئے کوئی ٹھوس حل ضروری ہے ۔ ایسے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے۔
پاکستان میں صوبہ سندھ میں ہوم ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام 24 جیل قائم ہیں جن میں ایک تخمینے کے مطابق لگ بھگ 20 ہزار افراد پابند سلاسل ہیں جبکہ اقلتیتی قیدیوں کی تعداد 150 سے 200تک ہے جبکہ جن میں ہندوؤں کی تعداد دیگر کی نسبت زیادہ ہے۔
ذرائع کے مطابق ہندوؤں میں ذات پات اور رتبے کی تفریق کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کی جائے تو ہندو قیدیوں میں بھی اکثریت نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔
اس حوالے سے آل پاکستان ہندو پنچایت کے سیکرٹری جنرل، رکن سندھ کمیشن برائے حیثیت نسواں ،رکن اسٹریننگ کمٹی برائے اقلیتی امور سندھ روی دوانی سترم داس کہتے ہیں کہ ہم نے ہندو پنچایت کے تحت حکومت کو متعدد خطوط ارسال کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جس طرح قران حفظ کرنے کے بعد مسلمان قیدی کو 6 ماہ سزا معافی دی جاتی ہے۔
اسی طرح کا حق غیر مسلم قیدیوں کو بھی دیا جانا چاہئے کہ اگر کوئی مسیحی بائبل پڑھے یا کوئی ہندو گیتا کا پاٹھ کرے تو اس کی سزا میں بھی کمی ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا۔
یہ طرز عمل امتیازی سلوک پر مشتمل ہے،جو کہ خلاف آئین و قانون ہے۔ ہم نے اس پر کافی باربات کی ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے کیلئے رولز میں ترمیم کرنا ضروری ہے اور رولز میں ترمیم صوبائی اسمبلی کرسکتی ہے۔
روی دوانی سترم داس کہتے ہیں کہ ہمارا سندھ اسمبلی سے مطالبہ ہے کہ وہ ایسی ترمیم کریں تاکہ تمام قیدیوں کے ساتھ آئین کے مطابق یکساں سلوک ہوسکے۔
روی دوانی بتاتے ہیں کہ اندرون سندھ کے جیلوں میں غربت کی انتہائی سطح کے قیدی عورتیں اور بچے موجود ہیں جن کے حالات ناقابل بیان ہیں اس حوالے سے ہم لیگل سوسائیٹی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمارے داتھ ایک ایم او یو کے تحت اپنی قانونی امداد فراہم کرنے کا بیرہ اٹھایاہے تاہم اس اہم ایشو پر بہت ساکام ہونا چاہیئے
جس کے لئے بھرپور آواز اٹھا رہے ہیں ان کا کہناہے کہ کراچی لارکانہ سکھر ، حیدرآباد، کشمور ، کے جیلوں میں اقلیتی قیدیوں کے حالات قدرے بہتر ہیں جبکہ اندرون سندھ میں بے بسی انتہاکو ہے جہاں جبری مشقت کرنے والے سود در سود کے شکار خاندانوں کے خاندان قید میں ہیں ان کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ جہاں کی جیلوں میں 20 سے 25 اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس حوالے سے کے پی میں اقلیتی قیدیوں کو قانونی امداد و ضروری اشیا کی فراہمی کے لئے سرگرم سماجی تنظیم پرسنرز مشن سوسائیٹی آف پاکستان کے بانی ڈائریکٹرمورس شہباز کہتے ہیں کہ کے پی جیلوں میں اقلیتی لاوارث اقلیتی قیدیوں کو رہائی کے مسائل ہیں ۔
ان کا کہناہے کہ پاکستان میں کے پی میں دیگر صوبوں کی نسبت اقلیتی قیدیوں کے لئے بہترین سہولیات ہین مسیحیوں کو کلاس کی جگہ فراہم کی گئی ہے مورس شہباز کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ تمام جیلوں سے رابطے میں رہتے ہوئے کوشش کرتا ہے کہ غریب اقلیتی قیدیوں کی ہر ممکن قانونی مدد کی جائے ان کا کہناہے کہ قیدیوں کے بڑے مسائل میں غریبت اور معلومات کا نہ ہونا سرفہرست ہے ۔ تان کا کہناہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مستقل امداد کی فراہمی سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔
صوبہ بلوچستان کی جیلوں میں اس وقت 8 سے 10 اقلیتی قیدی موجود ہیں اس حوالے سے ڈی آئی جی پرزنرز بلوچستان ضیااللہ خان ترین بتاتے ہیں کہ اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو جیل مینوئیل کے مطابق خوراک اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ان پر کوئی مذہبی قدغن نہیں یہاں تک کہ ان کے تہواروں کرسمس ایسٹر وغیرہ پر الگ الگ بیرکوں میں ہونے والوں کو بھی مبارک دی جاتی ہے ۔
تاکہ ان کا تہوار اچھا گزرے اسی طرح اقلیتی قیدیوں کے لئے قانونی امداد و دیگر فلاحی اداروں سے رابطہ رہتاہے تاکہ ایسے قیدیوں کو کوئی بھی مسئلہ ہوتو حل ہوسکے ان کا کہناہے کہ ہمارے جیل قوانین کے مطابق سزا میں معافی بھی میرٹ پر دی جاتی ہے۔