ہماری قومی نفسیات اور کوفتہ دونوں قریب قریب ہیں‘ ہم کوفتہ کیسے بناتے ہیں؟ ہم گوشت کے ٹکڑے لیتے ہیں‘ ان کی بوٹیاں بناتے ہیں‘ انھیں باریک پیس کر قیمہ بناتے ہیں‘ پھر قیمے کو گوندھ گوندھ کر دوبارہ بوٹی بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘ بوٹی نہ بن رہی ہو تو ہم اس میں ایسے مصالحے اور ایسے اناج ڈالتے ہیں جو قیمے کے اجزاء کو آپس میں جوڑ دیتے ہیں اور ہم جب اس عظیم کارنامے سے فارغ ہو جاتے ہیں تو پھر ہم بوٹی کو کوفتے کا نام دیتے ہیں۔
پکاتے ہیں‘ دانتوں میں پیس پیس کر ایک بار پھر قیمہ بناتے ہیں اور ہم اس سارے پراسیس کے دوران ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے ہم نے اگر بوٹی ہی کھانی تھی تو پھر ہم اس کا کوفتہ کیوں بناتے رہے اور اگر یہ جہد مسلسل سے ایک بار کوفتہ بن گیا ہے تو پھر ہم اسے دانتوں میں پیس کر دوبارہ قیمہ کیوں بنا رہے ہیں؟
آپ اگر کسی دن کوفتے کو ذہن میں رکھ کر اپنے آپ کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو ہم من حیث القوم کوفتہ محسوس ہوں گے‘ ہم ہر فیلڈ میں 75 برسوں سے بوٹی کو کوفتہ اور پھر کوفتے کو قیمہ بناتے نظر آئیں گے‘ عمران خان اس پراسیس کی تازہ ترین مثال ہیں‘ ہم نے انھیں 2011 میں بوٹی سے کوفتہ بنانا شروع کیا۔
ہم نے اس کوفتہ سازی کے دوران کیا کیا نہیں کیا؟ 126 دن کا دھرنا کرا کر پوری دنیا میں ملک کا تماشا بنا دیا‘ دھرنے کے باوجود نواز شریف کم زور نہیں ہوئے تو پاناما کیس بنا دیا گیا‘ ٹی ایل پی کو بھی تین بار اسلام آباد لایا گیا‘ نگران جج بٹھا کر‘ ججوں کو واٹس ایپ پر فیصلے بھجوا کر نواز شریف کو اقتدار سے فارغ کیا گیا‘ الیکٹ ایبلز اکٹھے کر کے بنی گالا کی طرف ہانک دیے گئے۔
عمران خان کی سیف لینڈنگ کے لیے جہانگیر ترین کو بھی قربان کر دیا گیا اور الیکشن سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز کو جیل میں بھی ڈال دیا گیا لیکن اس کے باوجود ٹاسک مکمل نہیں ہوا تو الیکشن کی رات آر ڈی ایس بٹھا دیا گیا‘ یہ بندوبست بھی کام نہیں آیا توچھ پارٹیوں کو اکٹھا بٹھا کر عمران خان کا اتحادی بنا دیا گیا اور یوں کوفتہ بن گیا‘ اب اس کوفتے کو گلانے کے لیے بھی ساڑھے تین سال ہر قسم کا مصالحہ ڈالا گیا‘ اتحادیوں کو بھی باندھ کر رکھا گیا۔
فوج ملکوں ملکوں پیسے بھی مانگتی رہی اور معافیاں بھی مگر حکومت پرفارم نہ کر سکی‘ حکومت کی بدانتظامی کی حالت یہ تھی ورلڈ بینک کی ثالثی عدالت نے ریکوڈک کیس میں جولائی 2019 میں پاکستان کو پانچ ارب ڈالر جرمانہ کر دیا‘ حکومت مزے سے لیٹی رہی یہاں تک کہ جرمانے کی ادائیگی کا وقت آ گیا اور یہ معاملہ بھی دوسرے معاملات کی طرح فوج کے سر پر آ گرا‘ آرمی چیف نے تحقیق کرائی‘ پتا چلا پاکستان کے فارن ریزروز نیویارک میں پڑے ہوئے ہیں اور امریکا کسی بھی وقت ان میں سے پانچ ارب ڈالر نکال کر آسٹریلین کمپنی کو دے دے گا‘ یہ جان کر جی ایچ کیو میں دوڑیں لگ گئیں۔
اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ سے پوچھا گیا‘ وہ اس نزاکت سے واقف ہی نہیں تھے‘ وزیراعظم اس وقت سعودی عرب میں تھے‘ فوری طور پر خط لکھا گیا‘ خط جہاز پر سعودی عرب بھجوایا گیا‘ وزیراعظم کے سائن کرائے گئے‘خط بذریعہ جہاز نیویارک بھجوایا گیا اوریوں فارن ریزرو یو اے ای اور چین شفٹ کرائے گئے اور اس کے بعد فوج نے ٹیتھیان (Tethyan) کاپر کمپنی کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد معاملہ سیٹل کیا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیشن تک فوج کراتی تھی‘ اتحادیوں کو قومی اسمبلی تک لانا اور بلوں کے حق میں ووٹ دلانا بھی فوج کی ذمے داری تھی اور اپوزیشن کو مخالفانہ تقریروں سے باز رکھنا بھی لیکن پھر اس کوفتے کا کیا نتیجہ نکلا؟ہم آج اسے ایک بار پھر دانتوں کے نیچے رکھ کر قیمہ بنارہے ہیں اور کیا یہ کھیل یہاں ختم ہو جائے گا؟ جی نہیں! عمران خان کو تلوار بنا کر نواز شریف اور مریم نواز کے سر پر لٹکا دیا جائے گاتاکہ یہ بھی کام نہ کر سکیں۔
ہمارے باقی تمام ملکی سسٹم بھی کوفتے ہیں مثلاً آپ دو چھوٹی چھوٹی مثالیں لے لیں‘ ڈاکٹر فیصل سلطان صحت پر وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے‘ انھوں نے پی آئی ایم ایس کو امریکی اسٹائل میں خود مختاری دے دی جس پر مستقل ملازمین نے ہڑتالیں شروع کر دیں اور اسپتال میں ڈنڈے چلنے لگے‘ بہرحال بڑی مشکل سے پاکستانی اسپتال امریکی اسپتال بن گیا‘ چھ‘ چھ لاکھ روپے تنخواہ پر کنسلٹنٹ ڈاکٹرز بھرتی کر لیے گئے‘ حکومت تبدیل ہو گئی۔
عبدالقادر پٹیل وزیر صحت بن گئے اور انھوں نے قلم دان سنبھالتے ہی ماضی کے تمام فیصلے ری ورس کر دیے اور یوں ایک ہی جھٹکے میں امریکی اسپتال ٹنڈوآدم کا اسپتال بن گیا اور اب کنسلٹنٹ رو رہے ہیں‘ یہ احتجاج کر رہے ہیں‘ آپ دیکھ لیں ہم نے کتنی خوب صورتی سے کوفتہ بنایا اور پھر اس کوفتے کو دوبارہ قیمہ بنانا شروع کر دیا‘ بالکل اسی طرح طویل کوششوں سے ایم ڈی کیٹ کا سسٹم شروع ہوا تھا‘ اس سسٹم کے تحت پورے ملک کے اسٹوڈنٹس کا امتحان لیا جاتا تھا اور پھر انھیں میڈیکل کالجز میں داخلہ ملتا تھا۔
ہم نے اس سسٹم پر اربوں روپے خرچ کر کے کوفتہ بنایا اور عبدالقادر پٹیل نے آتے ہی اسے بھی ری ورس کر دیا‘ 13 نومبر کو نئے سسٹم کے تحت پیپر ہوئے اور اس وقت لاکھوں اسٹوڈنٹس‘ وزارت صحت اور میڈیکل کالجز رو رہے ہیں۔
ہم نے ایک بار پھر کوفتے کو قیمہ بنا دیا ہے‘ آپ سسٹم کی حالت دیکھیے‘ سڑک بنانے والے سڑک بنا لیتے ہیں تو بجلی اور گیس والوں کو یاد آ جاتا ہے ہم نے یہاں پائپ بچھانے تھے اور یہ باری باری آ کر سڑک توڑ دیتے ہیں اور خدا خدا کر کے یہ عمل مکمل ہوتا ہے تو ہم نئے سرے سے سڑک بنانا‘ اسے توڑنا اور پائپ بچھانا شروع کر دیتے ہیں کیوں کہ اس وقت تک پرانے پائپ ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔
گیس لیک ہو رہی ہوتی ہے اور بجلی ٹرپ کر رہی ہوتی ہے‘ ملک میں اس سال خوف ناک سیلاب آیا‘تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے‘ حکومت اب اربوں ڈالر خرچ کر کے انھیں بحال کرے گی لیکن اگلے سال پھر سیلاب آئے گا اور یہ لوگ اس سے بھی متاثر ہوں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم یہ سوچ کر انھیں ایک بار پھر پانی کی گزر گاہوں پر آباد کر رہے ہیں کہ اگلے سال کا سیلاب زیادہ گیلا نہیں ہو گا۔
یہ آئے گا‘ سلام کرے گا اور آگے نکل جائے گا اور ہم سردیوں میں گیس اور گرمیوں میں بجلی کو ترستے ہیں لیکن زمین سے گیس نکال رہے ہیں اور نہ کوئلے اور سولر کے پلانٹس لگا رہے ہیں‘ ملک میں آج بھی گیس کا کنواں فوج کی نگرانی میں کھودا جاتا ہے اور انجینئرز اور عملہ بکتر بند گاڑیوں میں لایا اور لے جایا جاتا ہے اور یہ لاکھوں میں سے چند مثالیں ہیں۔
دنیا 2050 تک پٹرول اور ڈیزل کے انجن ختم کر رہی ہے جب کہ ہم آج تک نالہ لئی پکا نہیں کر سکے‘ نریندر مودی نے چھ دن قبل برطانوی وزیراعظم رشی سوناک سے ملاقات کی اور برطانیہ نے بھارتی شہریوں کے لیے ویزے کی نئی اسکیم شروع کر دی۔
برطانیہ بھارت کے تین ہزار ہنرمندوں کو ہر سال ملازمت کے ویزے دے گا‘ یورپ 2023کے گلوبل ری سیشن سے نبٹنے کی پلاننگ کر رہا ہے‘ ماہرین کا خیال ہے اگلے دو سال معاشی لحاظ سے بہت ٹف ہوں گے۔
چین اپنی انڈسٹری کو سلو ڈاؤن کر کے اپنا سرمایہ گلوبل انفرااسٹرکچر میں لگا رہا ہے اور بھارت 2050 تک چین کی جگہ لینے اور سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کی تیاری کر رہا ہے جب کہ ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور عمران خان کا لانگ مارچ ہے‘ لوگ سارا دن ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں نیا آرمی چیف کون ہو گا؟ صدر کے پاس 48 (1) کے تحت اختیار ہے یہ حکومت کی کسی بھی ایڈوائس کو پندرہ دن اور پھر دس دن تک روک سکتا ہے چناں چہ یہ آرمی چیف کی تعیناتی 25 دن تک ڈیلے کر سکتا ہے۔
کیا عارف علوی ایسا کریں گے اور عمران خان اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کیوں جا رہے ہیں؟ آپ ذرا سنجیدگی ملاحظہ کیجیے‘ دنیا کدھر جا رہی ہے اور ہم کس طرف دوڑ رہے ہیں‘ دنیا کے کیا کیا مسائل ہیں اور ہم مسائل کے ڈھیر پر بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں؟ گوشت کو کوفتہ بناتے ہیں اور پھر کوفتے کو قیمے میں تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ایک حکومت لاتے ہیں‘ اس کے مخالفین کو غدار اور کرپٹ ثابت کرتے ہیں اور پھر ان ’’کرپٹ‘‘ اور ’’غداروں‘‘ کو نہلا دھلا کر کرسی اقتدار پر بٹھا دیتے ہیں اورپرانے کو سڑکوں کا رزق بنا دیتے ہیں‘ ہم نے دس سال سڑکوں کو آرام نہیں کرنے دیا‘ ہم دس سال سے ملک میں عدم استحکام بو اور کاٹ رہے ہیں اور اس کاشت کاری کے بعد ایک دوسرے سے یہ بھی پوچھ رہے ہیں ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے؟ ہم کشکول لے کر در در کیوں پھر رہے ہیں؟
مجھے بعض اوقات یہ ملک ایک ایسی گاڑی محسوس ہوتا ہے جسے ہم نے راؤنڈ اباؤٹ پر چلا چلا کر کھٹارہ بنا دیا‘ ہم میٹر دیکھتے ہیں توہم ہزاروں کلومیٹر سفر کر چکے ہیں لیکن جب باہر دیکھتے ہیں تو ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم چلے تھے لہٰذا ٹھنڈے دل سے سوچیے جو قوم 75 برسوں میں آرمی چیف کی تعیناتی کا فول پروف سسٹم نہیں بنا سکی‘ جو ہر تین سال بعد تعیناتی کے ہیجان میں مبتلا ہو جاتی ہے وہ دنیا کا کیا مقابلہ کرے گی‘ وہ کتنی دیر سلامت رہ لے گی چناں چہ پیرا شوٹ کھولیں‘ زمین اب 200 فٹ سے زیادہ دور نہیں ہے۔