[pullquote]محفوظ بچپن قسط نمبر 7 :[/pullquote]
انسانی سماج بہت دلچسپ ہے، اس کا ہر فرد اپنی جگہ الگ شخصیت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی سوچ اور اقدار کا حصہ بھی ہے۔ یعنی ایک ہی وقت میں وہ انفرادی سوچ بھی رکھتا ہے اور سماجی دھارے سے بھی منسلک ہے۔ اس لئے ایک بچے کی پرورش کے وقت والدین پر بھی دوہری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے بچے کی منفرد شخصٰیت کو بھی نکھارنے میں مدد دیں اور اسے معاشرتی اقداربھی سکھائیں۔ اور یہیں پر اکثر والدین پہلا حصہ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ بچوں کو پہلے سے طےشدہ نظریات کے خانے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ نظریات والدین کی اپنی پرورش کے وقت ان کے دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ ہوتے ہیں جن پر سماجی دباؤ سے مزید پختگی آ جاتی ہے۔
یہ نظریات ہی اصل میں رویہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہیں سے شدت پسند طرز کی پرورش کی بنیاد پڑتی ہے۔ والدین کے مذہبی یا سماجی جھکاؤ کو بچوں میں منتقل کرنے کے لئے سخت گیر طریقے اپنا لیتے ہیں۔ جن کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
خیبرپختونخواہ کے ایک نسبتا دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والی ام رباب ( فرضی نام) نے محفوظ بچپن کو اپنی کہانی بھیجی اور کچھ سوالات بھی پوچھے۔
”بابا ہماری ہر ضرورت کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن فطرتاً بہت ہی غصیلے اور اصول پرست تھے مجال ہے جو ان کی مرضی کے بنا پتہ بھی ہل جائے ، وہ شہر سے باہر ایک فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے،جب انھوں نے آنا ہوتا تو ہم سب سہم جاتے تھے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہم سے پیار نہیں کرتے تھے لیکن،ان کا بات بات پر غصہ بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ، سزا دینا، چیخنا چلانا ،انا پرستی اور ضد ہمیں ہلا کر رکھ دیتا تھا ۔ مگر وہ دوستوں اور عزیز و اقارب کے بچوں کے ساتھ نہایت شفیق ہوتے تھے۔
بچپن سے ہم انھیں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے اور ان کے آنے پر بالکل بھی خوش نہیں ہوتے تھے، ہفتے میں وہ صرف ایک دن کے لئے ہی آتے تھے اور پورا دن ہم ذہنی اذیت میں گزارتے تھے ،بات بات پر طعنے دینا بھڑک اٹھنا ان کا معمول تھا، ہم پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دیتے،کزنز سے بھی بات چیت نہ کرنے دیتے نہ ان کے گھر جانے دیتے یوں لگتا تھا ہمیں اک ڈربے میں بند کر کے رکھا ہوا ہے جب ان کی مرضی ہوئی تب سانس لیا ورنہ گھٹن زدہ ماحول ہمارا مقدر بن چکا تھا،اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول ۔۔۔
ہم پانچ بہن بھائی تھے،تین بہنوں دو بھائیوں میں،میں سب سے چھوٹی تھی، اماں کی لاڈلی ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑی ڈرپوک بھی تھی، بابا کے غصیلے رویہ کی بدولت میں اپنا اعتماد بچپن میں ہی کھو چکی تھی اور بہت کوشش کے باوجود ابھی تک میں اسے بحال نہیں کر پائی ، اب بھی جب کوئی غصہ کرتا ہے یا لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو میرے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،بی پی لو،دل کی دھڑکن تیز، آنکھوں کے آگے اندھیرا،آواز کا گلے میں پھنس جاتی ہے۔ اب بھی میں ڈر سی جاتی ہوں اور غصیلے لوگوں کے سائے سے بھی میں دور بھاگتی ہوں”
[pullquote]سخت گیر طریقہ پرورش کے چند بنیادی خدوخال[/pullquote]
1: بچے کے ہر رویے، ہر حرکت ، یہاں تک کے سوچ پر بھی گرفت رکھنے کی کوشش
2: غلطی کی گنجائیش نا دینا
3: سرد مہری یا ایسے تعلقات جن میں گرم جوشی نا ہو، جذباتی دوری ہو
4: بغیر وضاحت کا موقع دیئے سزا دے دینا
5: بچوں کو رائے دینے کا حق نا دینا
6: بات بے بات جھڑک دینا، مار پیٹ کا ماحول
7: اونچی آواز میں بات کرنا
8: اپنی سخت گیر تربیت کو دوسروں کے سامنے کامیاب پرورش کا گُر بتانا اور شیخی بگھارنا
9: اپنی کسی بھی غلطی کو تسلیم نا کرنا
10: بچوں پر اعتماد نا کرنا
مندرجہ بالا کے علاؤہ بھی کئی ایک ایسی باتیں ہو سکتی ہیں جو غصہ ور والدین کی روٹین ہو۔ ہمارے سماج میں مرد کی عمومی برتری دیکھنے میں آتی ہے اور اکثر سخت گیر باپ کا رویہ بیوی اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ بھی سخت ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں والدین میں سے ایک غصے کی وجہ سے بچوں سے دور ہو جاتا ہے اور دوسرا مظلوم کے درجہ رکھتا ہے۔ اس لئے بچوں کے ذہنوں میں مثالی فرد کا کوئی تصور نہیں بن پاتا جو متوازن شخصیت کا مالک ہو۔
بےجا سختی کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق اب جرمنی کی یونیورسٹی آف میونسٹر کی پروفیسر ایولِن وان ایشے نے کی ہے جو تحقیق کے وقت بیلجیئم کی جامعہ لیوون سے وابستہ تھیں۔ اس کی تفصیل یورپی کالج آف نیوروسائیکولوجی فارماکولوجی کی کانفرنس میں پیش کی گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو مارنے اور ان پر چیخنے چلانے کا عمل جین پڑھنے کے قدرتی عمل کو متاثر کرسکتا ہے اور یوں بچے کی مجموعی نشوونما متاثر ہوتی ہے.
پڑھنے کے لیئےلنک پر کلک کریں:
سخت گیر ماحول اور غصیلے والدین اور بےجا سختیاں
ہماری آج کی کہانی ام رباب کی زندگی میں والد کی سخت مزاجی نے انہیں زندگی بھر کے لیئے متاثر کیا ہے.
بچپن میں جو ڈر ذہن میں سما جائے اسے نکالنا اتنا آسان نہیں ہوتا،میرا ذہن انتشار کا شکار ہو چکا تھا ،میں ہر وہ بات جو موقع و محل کی مطابقت سے کہنا ہوتی تھی وہ میرے ذہن میں تو آتی تھی لیکن زبان پر آ کر رک جاتی تھی،اک وحشت گھبراہٹ کی کیفیت مجھ پر طاری ہو جاتی تھی،میں کچھ بھی نہیں کہہ پاتی تھی،یوں اکثر ٹھیک ہونے کے باوجود مجھے غلط ثابت کیا جاتا تھا اور ایسی صورتحال میں مجھ سے سب کچھ الٹ پلٹ ہو جاتا ، مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی میں اب کیا کروں….
والدین بظاہر بچوں کی اپنے حساب سے بہترین تربیت کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوتے ہیں لیکن جب اس سخت گیر پرورش کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں جیسے کہ
1: اعتماد کی کمی
2: دوسروں کو خوش کرنے کی کوششوں میں اپنی خوشی کو نظرانداز کرنا
3: اپنے حق کے لئے آواز نا اٹھانا
4: خود کو مظلوم سمجھنا
5: عزت نفس کی کمی
6: اداسی، مایوسی اور زندگی سے بےزاری
7: خود کشی کے خیالات
8:غلط لوگوں/ اجنبیوں پر اعتماد
9: فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان
10: عملی اقدامات کے بجائے خیالی پلاو پکانا
11: نئے رشتے بنانے/ نبھانے میں دشواری
12: دوسروں کی نیت پر شک اور حقیقی دوستوں پر بھی عدم اعتماد
ہماری کہانی میں ام رباب نے کم و بیش یہ تمام مشکلات دیکھی ہیں۔ ان کی شادی ہو چکی ہے، شوہر اچھا آدمی ہے لیکن ام رباب کے لئے آج بھی اپنی بات کرنا بہت مشکل ہے .
"جب میری شادی ہوئی تو میں بہت خوش تھی کہ شاید اب نئے ماحول میں اس کیفیت سے خود کو نکال پاؤں لیکن یہاں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں پائی ،سسرال والے بھی میری طبعیت کو جان چکے تھے اس لئے روز میری معصومیت کا فائدہ کوئی نہ کوئی اٹھاتا تھا اور ابتدائی سالوں میں شوہر کے ساتھ بہت کم وقت گزرانے کا موقع ملا کیونکہ شادی کے فورًا بعد وہ بیرون ملک جاب کے لئے چلا گیا جب واپس لوٹا تو اس کے ساتھ دو سال گزارنے کا موقع ملا وہ عادات و اطوار عام مردوں سے بہت ہی مختلف تھا،میرا بہت خیال بھی رکھتا تھا میری بہت عزت کرتا تھا اور مجھے ہمیشہ کہتا جو بات بھی ہو مجھ سے کر لیا کرو لیکن مجھے اس سے بھی بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ بھی سخت مزاج تھا گھر والوں سے اکثر و بیشتر مخلتف وجوہات پر لڑائی جھگڑا لگا رہتا جس کی وجہ سے میں اس سے بھی ڈرنے لگی اور اپنی کوئی بات اس سے کرنے سے کترانے لگی یوں ہمارے بیچ دوریاں بڑھتی گئیں اور ہم ایک دوسرے کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائے ۔
میرے اور اس کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا حیرت کی بات تو یہ تھی کہ باوجود اس کے ہماری کبھی لڑائی نہیں ہوئی ہم دونوں اک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرتے تھے لیکن دل کی بات میں کسی سے نہیں کہہ پاتی تھی،کسی محفل میں جانا ہو یا کسی گفتگو میں حصہ لینا ہو میں ہر جگہ سہمی سہمی سی رہتی تھی اسی وجہ سے میری پوری زندگی ختم ہو کر رہ گئی،آہستہ آہستہ میرے شوہر کی دلچسپی بھی مجھ سے ختم ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اسے شوخ چنچل باتونی بیوی چاہئے تھی اور میں اس کی خدمت گزاری میں تو بہترین بیوی تھی لیکن اس کے ذوق پر پورا اترنے سے قاصر تھی،پانچ چھ سال یوں ہی گزر گئے اور اب بھی ایسا ہی چل رہا ہے.
والدین کے لئے بچے یقیناٰ سب سے قیمتی متاع ہوتے ہیں اور وہ ان کی پرورش کرتے ہوئے اپنے خیال میں بہترین ماڈل کا انتخاب کرتے ہیں، بچوں پر سختی بھی شاید ان کی نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہے، لیکن ہر چیز کا حد سے بڑھ جانا نقصان دہ ہوتا ہے.
بچوں کے ساتھ نرمی برتنا، ان کی عزت کرنا، ان کو مشاروت کے عمل میں شامل کرنے سے ان کی شخصیات میں نکھار آتا ہے، وہ پر اعتماد کرتے ہیں اور اپنے مشکل میں آپ کی طرف دیکھتے ہیں۔گویا آپ ان کے رول ماڈل ہیں۔ تو پھر کیا آپ ایک برے رول ماڈل بننا چاہیں گےَ؟