محمد حسین کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے ہے۔ ان کی عمر 33 سال ہے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ وہ شادی شدہ ہیں، ان کے دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔
زوار حسین بتاتے ہیں کہ وہ 2013 میں یورپ کے ملک اٹلی گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ان کے حالات بہت تنگ تھے۔ فاقوں تک نوبت آ چکی تھی۔ ایک دن میرے دوست نے مجھے بیرونِ ملک جانے کا مشورہ دیا اس نے ہی مجھے ایجنٹ کے بارے میں بتایا۔ ایجنٹ سے میرا براہ راست رابطہ نہیں تھا بلکہ میرے دوست کا ایجنٹ سے رابطہ تھا۔ میرے دوست نے ہی مجھے کہا کہ ایجنٹ کو 1500 یورو ادا کرنے ہوں گے۔
اس وقت یورو 140 روپے تھا میں نے دو لاکھ 10 ہزار روپے دیے۔ ایجنٹ نے میرے دوست کو کہاں کہ بیرونِ ملک رہائش اور کام کے تمام تر انتظامات ہو جائیں گے ،پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے امید سی ملی کہ باہر جا کر میں اپنے گھر کے حالات بدل سکوں گا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ میرے پاس کچھ پیسے تھے کچھ اودھار رقم لے کر پیسے پورے کیے۔ میں نے جانے کی تیاری شروع کر دی۔
میرے گھر والوں نے خوشی سے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ایجنٹ نے مجھے یونان کے رستے اٹلی پہنچایا۔ جب میں اٹلی پہنجا تو مجھے پتا لگا کہ مجھے غیر قانونی طریقے سے لایا گیا ہے۔ تب میرے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا نہ تو میں پاکستان واپس جانا برداشت کر سکتا تھا۔ مجبوراَ مجھے اٹلی میں ہی رہنا پڑا۔ میں رات سٹرکوں پر گزارتا تھا۔
2013 میں اٹلی میں پناہ گزین کیمپ بھی نہیں تھے۔ وہاں جا کر ہر وقت یہ ہی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں میں پکڑا نہ جاؤں۔ اس لئے کسی سے مدد کے لیے بھی کہتے ہوتے ڈر لگتا تھا۔ دیارِ غیر میں اپنوں سے دور مشکل حالات میں رہنا ایک دردناک اذیت سے کم نہیں تھا۔
گھر والوں کو بھی میں اپنے حالات نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ انہوں نے مجھ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لیں تھیں۔ 2016 میں اٹلی کی حکومت نے پناہ گزین کیمپ بنائے۔مجھے پناہ گزین کیمپ کا پتا چلا تو میں نے وہاں پناہ لی۔ کیمپ میں جانے سے پہلے تین سال تک میں سڑکوں پر ہی سوتا تھا۔
اس وقت کیمپ میں ایک ہزار دو سو افراد رہائش پذیر تھے۔ 60 میٹر لمبائی کا ایک ہال تھا، جس میں صوفے لگے ہوئے تھے اس میں 50 کے قریب افراد رہتے تھے۔ کیمپ میں پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، لیبیا، افریقہ اور افغانستان کے غیر قانونی طریقے سے آئے مہاجر مقیم تھے۔ کھانے میں پاستہ وغیرہ دیتے تھے۔ کھانے کا مسئلہ زیادہ تھا کیونکہ سب کے لیے ایک جیسا ہی کھانا بنتا تھا۔ اگر اپنے پاس پیسے ہوں تو باہر سے بھی کھانا خرید سکتےتھے۔ صفائی کا ناقص انتظام تھا۔ ان دنوں 75 یورو ہر مہینے خرچہ دیتے تھے۔ اتنی کم رقم سے پورا ماہ گزرا کرنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ 2016 تک تو مجھے کام نہیں ملا۔ اب کچھ گزرا ہو جاتا ہے۔ جس سے کھانے پینے کا خرچہ نکل آتا ہے۔ اب میں نے کیمپ چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہاں قانون ہے جب کسی کو کام مل جاتا ہے تو اسے کیمپ کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ دوسرا مسئلہ جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہاں میرے جیسے افراد جن کے پاس ڈاکومنٹس نہیں ہوتے انہیں کام کی ادائیگی بھی کم پیسوں میں کی جاتی ہے مثال کے طور پر ایک کام کے اگر دس یورو ملتے ہیں تو یہ پانچ یورو ادا کرتے ہیں۔ یہاں کا قانون ہے کہ دس سال بعد آپ کو پاسپورٹ ملتا ہے۔ دس سال سے پہلے آپ دوسرے ملک نہیں جا سکتے ورنہ جلا وطنی کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہاں جتنے بھی لوگ آتے ہیں وہ بہت مشکل حالات میں آتے ہیں کوئی بھی یہاں سے واپس نہیں جانا چاہتا۔
کیمپ میں رہنے کے لیے کسی قسم کی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوتی، جن افراد کے پاس ڈاکومنٹس ہوتے ہیں وہ دیکھا دیتے ہیں جن کے پاس نہیں ہوتے انہیں ایک جج کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے وہاں زیادہ تر لوگ پناہ لینے کے لیے یہ کہہ دیتے ہیں کہ انہیں ان کے ملک میں جان کا خطرہ ہے اس لیے واپس نہیں جانا چاہتے تو جج بھی انہیں کیمپ میں رہنے کی اجازت دے دتیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان آنے میں ڈاکومنٹس اور ٹکٹ کے مسائل ہیں۔ میں جلاوطن نہیں ہونا چاہتا کیونکہ میں مجبوری کی وجہ سے آیا تھا۔ اتنے سال ذلیل و خوار ہوا۔ اب یہاں رہنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، میری فیملی نے بھی بہت مشکل وقت دیکھا میری وجہ سے انھیں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری کہانی لاہور کے 52 سالہ محمد خان کی ہے۔ محمد خان شادی شدہ ہیں ان کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ محمد خان بھی پاکستان میں بےروزگاری کی وجہ سے پریشان تھے۔ کام کوئی ملتا نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے یورپ جانے کا فیصلہ کیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایجنٹ سے رابطہ کیا ۔ ایجنٹ نے انہیں کہا کہ انہیں 20 لاکھ ادا کرنا ہوں گے۔ میں نے اس امید پر کہ بیرونِ ملک جانے سے میرے گھر کے حالات بدل جائیں گے میں نے رقم ادا کرنے کی حامی بھر لی۔ میں نے کچھ رقم اپنی بہن سے ادھار لی کچھ دوستوں سے پکڑ کر ایجنٹ کو 20 لاکھ ادا کر دیئے۔ میں بہت خوش تھا کہ اب تھوڑا ہی وقت لگے گا میں اپنے بیوی بچوں کو ایک خوشحال زندگی دے سکوں گا۔ میرے گھر والے بھی میری خوشی میں خوش تھے۔
میرے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے جنہوں نے بھی 20، 20 لاکھ ایجنٹ کو ادا کیے تھے۔ 2013 میں میں نے اپنا پورپ کا سفر شروع کیا۔ پہلے ہم نے پاکستان سے ایران کا سفر کیا پھر ایران سے ترکی کا اور پھر یونان کا کبھی ٹیکسی میں کبھی پیدل میں 2017 میں اٹلی پہنچے میں کامیاب ہوا۔ راستے کا سفر اتنا تکلیف دہ ہو گا اس بارے میں میں نے سوچا نہیں تھا۔ چار سال میں نے سفر کیا۔ خدا خدا کر کے سربیا، کروشیا اور سلوینیا سے اٹلی کے شہر ٹریسٹی پہنچا تو وہاں بھی نہ رہائش تھی نہ کوئی کام۔ میں رات کسی ریلوےاسٹیشن یا سڑک پر ہی بسر کرتا تھا۔ پھر وہاں ایک خدا ترس انسان نے مجھے ٹریسٹی کے پناہ گزین کیمپ کا بتایا۔ میں چھ ماہ تک کیمپ میں رہا وہاں میرے ساتھ تقریباَ 850 کے قریب مختلف ممالک سے آئے اور لوگ بھی رہائش پزیر تھے۔ جن ممالک کے لوگ کیمپ میں مقیم تھے، ان میں پاکستان، افغانستان، ایران، مراکش اور یوکرین شامل تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کے ساتھ فیملز بھی کیمپ میں مقیم تھیں ، انہیں صرف دو دن کیمپ میں رکھا جاتا ہے پھر انہیں الگ رہائش کے لیے گھر دے دیا جاتا ہے۔
کیمپ میں دو وقت کا کھانا دیا جاتا تھا۔ ایک ہال تھا جہاں ہم رات کو سوتے تھے۔ کیمپ میں کھانا سب کے لیے جو بنتا تھا وہ ہی کھانا پڑتا تھا اس حوالے سے کافی مسئلہ رہتا ہے کیونکہ میں اکثر کھانا نہیں کھاتا تھا۔ جیب بھی خالی تھی باہر سے بھی کچھ نہیں لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کپڑے جوتے بھی استعمال شدہ دیے جاتے ہیں۔ زبان کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مجھے مقامی زبان نہیں آتی تھی اس لیے اپنا مسئلہ کسی کا بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ کیمپ میں ماہانہ 75 یورو دیے جاتے تھے لیکن اتنی کم رقم سے گزرنا کرنا بہت مشکل تھا۔ پھر میں نے یہاں بریانی بیجنے کا کام شروع کیا۔ اب میں کیمپ میں نہیں رہتا ہوں۔ اب گزرا ہو جاتا ہے لیکن اپنی فیملی کی اب بھی میں مدد نہیں کر سکتا۔ میں پاکستان جانا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس لیگل کوئی ڈاکومنٹ نہیں ہے۔ یہاں کا قانون ہے جب ہم پناہ لے لیتے ہیں تو پھر پاسپورٹ یہ اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ اگر پاکستان جانا چاہیں تو کام کے ویزے پر جا سکتے ہیں۔ وہ بھی تب ممکن ہے جب ڈاکومنٹس پورے ہوں۔
انٹرنیشنل سنٹر فار مائیگریشن پالیسی ڈویلپمنٹ کی دسمبر 2021 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہر سال، ہزاروں پاکستانی نوجوان، جن میں زیادہ تر مرد حضرات شامل ہیں، اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے بے قاعدہ طور پر یورپ میں داخل ہوتے ہیں، جس نے پاکستان کو یورپ میں بے قاعدہ طریقوں سے داخلوں پر سرفہرست ممالک میں شامل کر دیا ہے۔
2017 اور 2020 کے درمیان، تقریباً 21 ہزار 405 پاکستانی غیر قانونی طریقوں سے یورپی یونین میں داخل ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے 28 رکن ممالک میں پاکستانی شہریوں کی پہلی بار سیاسی پناہ کے حوالے سے 2015 میں 46 ہزار 510 جبکہ 2016 میں 47 ہزار 655 درخواستیں موصول ہوئیں، اس کے بعد سے یہ تعداد 25 ہزار سے اوپر ہی رہی ہے۔ پچھلی دہائی میں اٹلی پاکستانی پناہ کے متلاشیوں کے لیے یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک بن گیا تھا، اس کے بعد یونان ہے۔ پاکستانی پناہ کے درخواست دہندگان کے لیے یورپی یونین کے دیگر اہم مقامات میں جرمنی، برطانیہ ، ہنگری اور فرانس شامل ہیں۔
نادیہ کاشف، مائیگرنٹ ریسورس سینٹر لاہور میں کوآرڈینیٹر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مائیگرنٹ ریسورس سینٹر بیرونِ ملک جانے والے افراد کو رہنمائی اور کونسلگ فراہم کرتا ہے۔ اس میں دو طرح کے افراد شامل ہوتے ہیں ایک وہ جو بیرونِ ملک جا رہے ہوتے ہیں اور دوسرے جو جانا چاہیتے ہیں۔ اسے افراد کے لیے تعارفی سیشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مائیگرنٹ ریسورس سینٹر کمیونٹی میں جا کر بھی آگاہی پروگرام کا انعقاد کرتے ہیں جس میں غیر قانونی ہجرت کے نقصانات اور خطرات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ محفوظ ہجرت کے طریقوں کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ اگر کسی کو ایجنٹ کے متعلق شکایت ہو یا نوکری کے جعلی اشتہارات کے بارے میں مدد درکار ہو تو انہیں مائیگرنٹ ریسورس سینٹر متعلقہ اداروں جیسا کہ ایف آئی اے سے رابطہ کروانے میں ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کسی ورکر کو بیرونِ ملک کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اسے کمیونٹی ویلفئیر آتاشی سے رابطہ کروایا جاتا ہے۔
افراد کی اسمگلنگ کی روک تھام کےایکٹ 2018 کے مطابق کوئی بھی شخص جو طاقت، دھوکہ دہی یا زبردستی جبری مشقت یا تجارتی جنسی عمل کے لیے کسی دوسرے شخص کو بھرتی کرتا ہے، بندرگاہ، نقل و حمل، فراہم یا حاصل کرتا ہے، یا ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسےافراد اسمگلنگ کے جرم کے مرتکب ہونگے۔ ایسے افراد کو سات سال قید یا جرمانے کے ساتھ جو دس لاکھ تک ہو سکتا ہے دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
صفدر محمود، ڈائریکٹر پالیسی بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ بتاتے ہیں کہ بیرونِ ملک ملازمت کے خواہش مند تمام افراد کے لئے لازم ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے تحت چلائے جانے والے ادارے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے دفتر میں حاضری دیں تا کہ انہیں بیرونِ ملک پہنچ کر اپنے حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنی شکایات درج کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات مل سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ غیر قانونی بھرتی کے اداروں اور نوکری کے جعلی اشتہارات کی تشہر کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیتا ہے۔ بعض اوقات بھرتی کی کمپنیوں کے لائنسنس منسوخ کر دیے جاتے، انہیں سزا بھی چھ ماہ سے 14 سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔
شہزاد احمد انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کےنیشنل پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ آئی ایل او کی جانب سے مزدوروں کے حقوق کےتحفظ کے لیے ایک پالسی بنائی گئی، جیسے 2018 میں منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو پیش کیا گیا لیکن اس وقت سے یہ پالسی تاخیر کا شکار ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ پالیسی لاگو ہو جاتی تو ملازمت کے معاہدے واضع اور شفاف ہو جاتے اور محنت کشوں کے ساتھ دھوکہ بازی یا ان پر دباؤ ڈالنے کے واقعات میں کمی آ جاتی۔
[pullquote]تعارف:[/pullquote]
الویرا وقاص
الویرا وقاص کا تعلق ساہیوال پنجاب سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، سیاسی، سماجی اور ماحولیات کے مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔