پاکستان سمیت دنیا بھر میں مردوں پر تشدد ہونے کی حقیقت کو ماننے کا وقت ہو چکاہے۔ کئی صدیوں سے مرد ذات تشدد کی زد میں ہیں مگر خواتین کے تشدد مارچ ،عورت مارچ کے دباؤ کا شکار ہوکر مرد اپنے خلاف ہونے والے تشدد کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے یہ مانا بہت ضروری ہے کہ مرد بھی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اس پرکوئی کیوں بات نہیں کرتا۔ سوچوں کے دروازے کھول دیجیئے خواتین پر تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے بہادر حضرات تشدد پر بات کر رہے ہیں ۔
تو چلیں آج ہم آدھی گواہی والی عورت پر تشدد کے حوالے سے نہیں بلکہ پوری گواہی والے مردوں کے دکھ بیان کرتے ہیں۔مرد تشدد کا شکار ہوتے ہیں مگر کس سے اور کیسے؟جی پریشان نہ ہو،مرد بھی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ابھی بیان کئے دیتے ہیں۔
مرد پر تشدد بچین سے ہی شروع ہو جاتا جب بیٹے کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کر کے خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ بہن کی پلیٹ سے بوٹی بھائی کی پلیٹ میں ڈالی جاتی ہے۔جوانی میں تعلیم میں ناکامی اور بہن کی کامیابی پر باتیں سننے کو ملتی ہیں تشدد کی اقسام شروع ہو جاتی ہیں ۔
پھر آغاز ہوتا ہے شادی سے پہلے لڑکی ہاتھ نہ آئے یا انکار ہو جائے تو مرد تشدد کا شکارہونا شروع ہو جاتا ہے۔شادی ہو جائے وہ بھی محبت کی اور گرل فرینڈ کو معلوم ہو جائے تو تشدد کا شکار،پھر شادی کے بعد بیوی کے اخراجات یا بیوی کی تنخواہ ہاتھ نہ آئے تو تشدد۔ مرد اللہ کی جانب سے زمین پر سب سے بے بس مخلوق ہے جیسے تشدد برداشت کرنے کی ذمہداری سونپی گئی ہے۔
بچے ہو جائیں تو دودھ ،پیپرز کے اخراجات بیوی مانگ لے تو تشدد ،بیوی اپنے علاج کے لیے یا کچن میں راشن کے لیے خرچے کا بولے تو تشدد کا شکار،دوسری یا تیسری یا پھر چوتھی شادی مناظر عام پر آ جائے تو بے چارہ مرد تشدد کا شکار ہو جاتا ہے۔رک جائیں زرا صبر کریں ۔۔.ابھی تو مرد پر ہونے والی خاص تشدد کی اقسام پر بات کرنا باقی ہے۔
غیر ازدواجی تعلقات بیوی کے علم میں آ جائیں اور بیوی رو رو کر اپنی وفا اور محبت کا شور کریں تو تشدد، اس کے علاؤہ گرل فرینڈ کے علم میں دیگر افیئرز آجائیں تو پھر خود سوچیں تشدد کی اقسام ختم ہوجائیں گی مگر ان پر تشدد نہیں ۔۔۔۔۔۔مسکرائیں نہیں یہ ایک سنجیدہ اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
اب بیان کرتے ہیں اگر بیوی ، ماں ، بہن کی جانب سے نمازپڑھنا، بسمہ اللہ کرنا، سونے جاگنے ،دن اور را ت کی تمیز کرنا، صفائی نصف ایمان ہے، پر عمل کرنے کا بولا جائے تو تشدد ۔چھوٹے چھوٹے بچوں اور بیوی کو وقت دینے اور ضروریات پورا کرنے کا بولا جائے تو تشدد ۔۔۔۔۔
بیوی اگر مرد کے گھر والوں کی جانب سے ذہنی،جسمانی اور معاشی بدسلوکی پر آواز اٹھائے تو مرد ہاتھوں اور پاؤں کے ساتھ زبان کا استعمال کر کے بھی تشدد سے نہیں بچ سکتا۔۔۔۔۔
ایک نمبر مخلوق مرد سکول کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا اور بیوی کو معلوم ہو جائے خاوند تعلیم یافتہ نہیں تو تشدد ۔
اب آجاتا ہے ملازمت کی جگہ پر کسی خاتون کی تنخواہ زیادہ ہو جائے یا اچھے عہدے پر فائز ہو تو مرد پر تشدد کی انتہا ہو جاتی ہے۔ خواتین کا کسی مسئلہ پر اتفاق ہو جائے تو مرد تشدد کا ذکر کرنا بھی گوارہ نہیں کرتا ۔۔۔۔۔
معاشرے کا یہ وہ تلخ پہلو ہے جس پر مرد تشدد کا شکار ہو کر بھی انصاف کے حصول سے محروم ہے ،دیکھئے میں تھک گئی ہوں مرد کے خلاف اس ظالم معاشرے کی حقیقت بیان کرتے کرتے… قلم بھی رو رہا ہے، اس لیے مردوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے مردوں کی آواز کا ساتھ دیا تاکہ مردوں کو انصاف کی طاقت کا علم ہو سکے۔
مرد کے خلاف تشدد کرنے والی عورتوں سے انصاف کی اپیل ہے۔ مرد بے زبان اور مظلوم ہوتے ہیں ان کے مسائل کا حل آپ کی چپ میں ہے، برائے مہربانی اس بے زبان مخلوق کو سوچ سمجھ کو لگام دیں۔