کبھی کبھار محافظ ہی سب سے بڑے درندے ہوتے ہیں

ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول با ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے اقلیتوں کے حقوق کے اساس معاملات دین میں جبرو اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی۔

” دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے سو جو معبودان باطل کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئیے ٹوٹنا ممکن نہیں اور اللہ خوب جاننے والا ہے”۔

آج سرزمین پاکستان پہ بسنے والے انسانی حقوق کے تحفظ کی بات تو کرتے ہیں لیکن انسانی حقوق کا تحفظ کرنا بھول چکے ہیں آج انسان کی سوچ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کرنے میں انسانیت کا لفظ کھو چکی ہے حالانکہ ہمیں یہ سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کیا ہے ہم اپنی زندگیوں میں اس قدر مصروف ہو چکے کہ صرف اپنا آپ ہی سوجھتا ہے ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے یہ جاننے کی کبھی زحمت ہی نہیں کی .کتنی بیٹیوں کی عزت پامال ہو رہی ہے یہ جاننا مناسب ہی نہیں سمجھا.

جی ہاں! آج ہم انسانی حقوق بلکہ ان خواتین کی بات کر رہے ہیں جن کا شمار اقلیت میں ہوتا ہے اقلیتوں کے حقوق بارے تو ہمارے قائد بھی واضح الفاظ میں اعلان کر گئے تھے.

"آپ آزاد ہیں آزاد رہیں ، آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں, مسجدوں یا مندروں میں جانے کے لیے ، آپ کا مذہب کیا ہے ؟ ذات کیا ہے ؟ قوم کیا ہے ؟ اسکا حکومکے معاملات سے کوئی تعلق نہیں”

اس آزادی کا ہمارے معاشرے کے لوگوں نے غلط فائدہ اٹھایا بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کی کمزوری یا انکی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ استعمال کرتے ہیں عورت ایک معاشرے کا اہم اور بنیادی حصہ ہے ہم عورتوں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں کہ ہر عورت کو اسکے بنیادی حقوق, عزت اور محبت دی جائے اگر وہ باہر جائے تو کوئی بھی اسکو نقصان دینے سے پہلے سو بار سوچے, اسکو کوئی وحشی اپنی حوس کا نشانہ بنانا چاہے تو قانون کی سختیاں اور ہتھ کڑیاں,بیڑیاں اسکے دل و دماغ کی گندگی کے آڑے آجائیں.

اس طرح کے اور بھی بہت سے حقوق کی ہم بات کرتے ہیں.حتی کہ انصاف دلانے کے لیے قانون بھی بناتے ہیں.جس میں سے کچھ کو تو اپنے اوپر ہوۓ ظلم کا انصاف مل جاتا ہے مگر افسوس کچھ کو تو صرف باتوں کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے. مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عورتیں باہر کے ساتھ اپنے گھروں میں بھی محفوظ ہیں؟ اب آپ میں سے تقریبا سب ہی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک عورت اپنے گھر سے زیادہ اور کہاں محفوظ ہو گی لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کچھ عورتوں کے لئیے باہر سے زیادہ گھر جنہم ہوتا ہے. "گھر” جدھر وہ پیدا ہوتی ہے اور وہاں پر کوئی اور نہیں بلکہ اسکا اپنا باپ اور بھائی ہی اسکو وحشی جانوروں کی طرح استعمال کرتا ہو .

تو کہانی کچھ یوں ہے کہ اتفاقاً میری ملاقات ایک دن ایک ایسی خاتون سے ہوئی جس کی عمر لگ بھگ پینتیس برس ہے .بقول انکے وہ "اپنوں کی ڈسی ہوئی” ہے ، میں نے حیرت کی نگاہ سے انہیں دیکھا کچھ دیر مجھ پر سکتا طاری رہا میں عجیب و غریب نظروں سے انکو دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کے یہ کیا بول گئیں. مجھے ایسے لگا کہ جیسے قیامت کا سماں ہو میں نے انکو آواز دے کر روکا ان سے چند لمحے رکنے اور ان تین لفظوں کا مطلب جاننے کی کوشش کی تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنے ہی بھائی اور باپ کے ہاتھوں ذلیل ہوتی ہیں.مجھے اس وقت یہ جاننے کا تجسس ہوا کے کوئی عورت باپ اور بھائی کے ہاتھوں کیسے ذلیل ہو سکتی ہے؟

جی ہاں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی رہائشی فرزانہ ایک ایسی ہی دردناک کہانی سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں نم آنکھوں کے ساتھ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے انہوں نے اپنی دردناک کہانی میرے سامنے بیان کر دی. وہ کہانی جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا . مسیح برادری سے تعلق رکھنے والی فرزانہ جسکو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا لیکن غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل نہ کر سکی. بغیر کتابیں پڑھے وقت اور دنیا نے اسکو بہت سے سبق سکھلا دیئے .یہاں ایک ادارے کا شخص استاد نہیں بلکہ دنیا والوں کے وحشیانہ رویے اس کے استاد بن گۓ.غربت کا سامنا کرتے کرتے فرزانہ اب تھک چکی تھی لیکن پھر بھی ہار نہ مانی اور ایسے ہی محنت کرتے کرتے فرزانہ نے خود کو اس قابل بنا لیا کہ وہ خود باہر نکل کے بِنا اپنا درد بتائے محنت کرے گی.

اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی اپنے گھر والوں کا پیٹ پالے گی یہ سوچ کر کہ شاید وہ اور اسکے گھر والے غربت سے آزاد ہو جائیں لیکن اسکے گھر والے تو جاہلیت کی وجہ سے رشتوں کا تقدس بھول گئے مگر فرزانہ کو یہ معلوم نہیں کہ اسکے گھر والے اس کی محنت سے کمائے گئے پیسوں کا غلط استعمال کریں گے .باپ اور بھائی کو فرزانہ کے کمائے گئے پیسوں کی لت لگ گئی اور اسکو کمائی کا ذریعہ سمجھا اسکی حلال کی کمائی کو نشے میں استعمال کرنا شروع کر دیا آخر کار فرزانہ عمکے اس حصے کو پہنچ گئی جب اسکی شادی کی عمر جانے کو تھی. باپ کو نہ صرف بیٹی بلکہ بیٹی کا فرض ادا کرنا بھی یاد نہیں تھا اگر بات صرف اتنی ہوتی تو شاید وہ برداشت کر لیتی لیکن جب باپ اور بھائی جیسے رشتے نے اپنی ہی بیٹی اور بہن کو درندگی اورجنسی حوس کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تب اس بنت حوا کا نازک وجود کانپ اٹھا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا واقعی یہ میرے اپنے ہیں؟ کیا میں یہاں اپنے گھر میں محفوظ ہوں ؟ میں کس منہ سے باہر والوں سے تحفظ مانگوں جب کے میرا باپ اور بھائی ہی میری عزت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور ان سے سوال کرنے والا بھی کوئی نہیں ایسے حالات میں وہ شادی کا فیصلہ بھی خود ہی لیتی ہے باپ کو تو فرض ادا کرنے کا یاد بھی نہیں تھا کیونکہ گھر کے وحشیوں کو صرف اپنی عیش سے مطلب تھا معاشرہ بھی جینے نہ دے اور گھر والے بھی تو عورت کہاں جا کے عزت کی چھت تلاش کرے. اپنی مرضی سے گھر والوں کے بغیر خوجائز نکاح کرے, تو معاشرہ بے غیرت بولے گا اور اگر صرف بیٹی بن کے رہے تو روز باہر کے دھکے کھا کر دو وقت کی روٹی کما کر باپ کے نشے کا سامان اور اس باپ بھائی کی حوس کا نشانہ بنتی رہے گی. بےچاری فرزانہ جائے تو جائے کہاں؟ ،باہر لوگوں کی حوس کا نشانہ بھی نہیں بن سکتی, حرام موت کو بھی گلے نہیں لگا سکتی,گھر باپ اور بھائی کے ہاتھوں اپنی عزت کا جنازہ بھی نکالنے نہیں دسکتی.آخر بے بس, مجبور اور لاچار فرزانہ گھر والوں کو شادی کے لئے راضی کر ہی لیتی ہے کیونکہ یہ معاشرہ عورت کو ان رشتوں کے بغیر عزت سے نکاح بھی نہیں کرنے دیتا لیکن اس معاشرے کو کیا پتہ کہ کبھی کبھار یہ محافظ ہی سب سے بڑے درندے ہوتے ہیں فرزانہ کا شادی کے لئیے قدم اٹھانا اسکی بہترین زندگی گزارنے کے لئیے بہترین فیصلہ تھا .بحرحال شادی کے بعد سسرال اور خاوند نے اسکو عزت کے چھت فراہم کر دی جدھر وہ اپنی زندگی احسن اور خوشحال طریقے سے گزار رہی ہے یہ سب سننے کے بعد مجھے افسوس ہوا کہ عورت کہیں بھی محفوظ نہیں چاہے اپنے ہوں یا غیر .

عورت کبھی تو اپنے گھر والوں کے ہاتھوں کھلونا بنتی ہے تو کبھی سسرال والوں کے ، تو کبھی باہر دنیا کے ہاتھوں . اس کی عزت کے ساتھ کھیلا جاتا ہے لوگ عورت کو حوس کا نشانہ بنانا نہیں چھوڑتے.مگر خوشی اس بات کی کے یہ سب جانتے ھوۓ بھی فرزانہ کے شوہر نے اسے عزت کی چادر اوڑھائ.مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے معاشرے میں جہاں باپ اور بھائی ہی عورت کی عزت کو پامال کررہے ہوں، تو وہاں عورت اپنی حفاظت کیسے کر سکتی ہے.

ایسے میں اگر عورت تحفظ لینا چاہتی بھی ہے تو صرف وہ خدا سے ہی التجا کر سکتی ہے .ورنہ یہاں تو اس بات پر ہی یقین کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں کہ ایک باپ جس کو جنت کی کنجی اور ایک بھائی جس کو بہن کا محافظ کہا جاتا ہے کیا وہ بھی ایسی حرکات کر سکتے ہیں.

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں نعمت, رحمت کے روپ میں نظر آتی ہیں.خدارا اپنی پھول جیسی بیٹیوں کی خود حفاظت کریں. کیونکہ جس باغ کا کوئی وارث نہیں ہوتا وہاں کے پھول اکثر اجڑ جایا کرتے ہیں .اللہ تعالی سب کی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے آمین ۔

شہر بھر کی زلیخاؤں کو پردے کی نصیحت کرنے والے بہت ہیں

کوئی میرے شہر کے یوسفوں سے بھی کہے کے نگاہیں نیچے رکھیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے