پاکستانی نظامِ تعلیم کے بنیادی نقائص

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی نظام کو ترتیب دینا تھا۔ ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی ملک جب آزادی حاصل کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے غلامانہ دور کی باقیات کو جڑ سے ختم کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ پاکستان میں یہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ یہاں اسی نظامِ تعلیم کے نڈھال پودے کی اس امید پہ آبیاری کی گئی کہ اس سے آنےوالے وقت میں علم و ہنر کا پھل ملے گا۔ مگر یہ اس وقت کے حکمرانوں کی خام خیالی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان سے اگر اسکی ڈگری کے حوالے سے کوئی بات پوچھی جائے تو اسکا جواب متاثر کن نہیں ہوتا۔

نوجوانوں کو تعلیم کے نام پر صرف ڈگری فراہم کی جارہی ہے، اسکی تربیت اور شعوری بڑھوتری کے لیے کوئی خاطرخواہ کام نہیں ہو رہا۔ اسکی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے بڑی وجہ تو اس تحریر کے ابتداء میں ہی بیان کر دی گئی ہے۔ دوسری وجہ گریڈنگ سسٹم ہے جس میں اپنی بہتر جگہ بنانے کے لیے طلباء دن رات کتابوں کا رٹہ لگانے میں مصروف رہتےہیں۔ ہمیں اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہے کہ وہ جو کچھ بھی پڑھیں اسے دلچسپی سے پڑھیں اور منطقی سوالات اٹھائیں تاکہ کچھ نیا سیکھنے کو ملے۔ دوسری وجہ تعلیم کو روزگار کے حصول کا ایک ذریعہ بنانا ہے۔ بلاشبہ تعلیم اس سلسلے میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے مگر اسکی بنیادی وجہ ہرگز نہیں ہوسکتی۔ تعلیم انسان کی پہچان کرواتی ہے اور اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھاتی ہے۔

اسکے بعد آتے ہیں انتظامی معاملات جس میں ہمیشہ حکومتی مشینری کی ناقص کارکردگی سامنے آئی ہے۔ حکومتی کی جانب سے سالانہ بجٹ میں تعلیم کبھی ترجیحات کا حصہ نہیں رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق ایران میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح 52 فیصد، بھارت میں 25 فیصد، سری لنکا 17 فیصد، بنگلہ دیش 13 فیصد جبکہ پاکستان میں سب سے کم صرف 9 فیصد ہے جو کہ ایک خطرے کی علامت ہے۔ اسکے بعد طبقاتی نظام تعلیم نے غریب طلباء کے لیے کئی مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ سرکاری جامعات میں بنیادی تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے، جب ایک سرکاری یونیورسٹی کا طالب علم کسی پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالب علم سے ملتا ہے تو دونوں کی رائے میں زمین آسمان کافرق ہوتا ہے کیونکہ پرائیویٹ اداروں میں سلیبس کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی بہتر ہوتی ہیں۔

مزید یہ کہ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے نئے تعلیمی پروگرامز کا اجراء وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس، بائیو ٹیکنالوجی اور اینی میشن کے حوالے سے کئی تعلیمی پروگرامز متعارف کروا چکی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی تعلیمی شعبے کے اپروول پر کم از کم پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ اتنے وقت میں دوسرے ممالک اس فیلڈ میں اپنی جگہ بنا چکے ہوتے ہیں۔ فیکلٹی ڈویلپمنٹ، انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور کریکولم کو اپڈیٹ کرنے کےلیے کئی اہم اقدامات ناگریز ہیں جن پر حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش کام نہیں ہورہا۔ ہر سال ہزاروں طلباء اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک سفر کرتے ہیں جہاں وہ چار سے پانچ سال قیام کرتے ہیں۔ اس تمام تعلیمی سفر پر ان بچوں کے والدین کی ساری عمر کی جمع پونچی لگ جاتی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان سے ہر ماہ کروڑوں روپوں ان ممالک میں جاتے ہیں جہاں یہ بچے تعلیم حاصل کرنے گئے ہیں جس سے زرمبادلہ پہ اثر پڑتا ہے۔

سیاسی اثررسوخ نے بھی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ وہ درسگاہیں جہاں علم و عرفان کے پھول کھلتے ہیں وہاں سیاسی جماعتیں اپنی گروہ بندی میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ نوجوانوں کو سیاست کے قریب ہونا چاہیئے مگر سیاستدانوں کے قریب نہیں۔ جیسے کسی انتخابی مہم کا وقت آتا ہے تو سیاسی رہنما ان تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں اور نوجوانوں کی ترجیحات کو متاثر کرتے ہوئے انہیں ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان سب مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے، ایک بار تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر تعلیمی مسائل کی ایک تفصیلی فہرست تیار کرنا ہوگی، اسکے بعد ان مسائل کے حل کے لیے اپنے تمام تر مفادات کو پسِ پشت رکھتے ہوئے نوجوانوں اور ملک پاکستان کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تعلیمی اداروں کی بہتری اور ان میں زیر تعلیم طلباء کےشعوری فروغ کے لیے دن رات ایک کرنا ہو گا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے کارکردگی پر رپورٹ طلب کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی پر جواب دہ ہو اور اسے اندازہ ہو کہ کونسے مسائل درپیش تھے اور ان مسائل کو ذمہ داران تک کیسے لے کر گئے۔ صوبائی حکومتوں کو وائس چانسلرز کی تعیناتی تعلیم و تجربے کی بنیاد پر کرنا ہو گی نا کہ سیاسی بنیادوں پر اور دیکھنا ہو گا کہ آنے والے وقت کے مسائل کیا ہو سکتے ہیں انکا سدباب کیسے ممکن ہے۔

یہ تمام مسائل ہماری روزمزہ زندگی کا حصہ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم نے آنے والا وقت بھی صرف ان مسائل پر بات کرکے گزارنا ہے یا انکے سدباب کے لیے کچھ کرنا ہے۔ کیونکہ اب یہاں تاجِ برطانیہ کی حکومت تو ہے نہیں کہ ہم سامراج کو اسکا ذمہ دار ٹھہرائیں، اب تو ہم نے خود اس ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور ہم نے خود آنے والی نسلوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک کے شہری ہیں جہاں تعلیم و تربیت کا بہترین نظام موجود ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے