ہم میں آخر کیا کمی ہے؟

آغا حسن عابدی پاکستان کے بہت بڑے بینکر تھے‘ عابدی صاحب نے 1972میں بی سی سی آئی بینک (بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل) کے نام سے بینک بنایا اور کمال کر دیا‘ بی سی سی آئی کی 78 ملکوں میں برانچیں اور 20 بلین ڈالر کے اثاثے تھے۔

یہ اپنے زمانے میں دنیا کا ساتواں بڑا پرائیویٹ بینک تھا اور ملکوں کو قرضے دیتا تھا‘ شوکت عزیز اور خواجہ آصف اس بینک میں ملازمت کرتے تھے‘ اس کے 77 فیصد شیئرز کے مالک یو اے ای کے حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان تھے۔

یہ شیخ کی اس دور میں سب سے بڑی سرمایہ کاری تھی اور یہ سرمایہ کاری شیخ نے ایک پاکستانی آغا حسن عابدی سے آدھ گھنٹے کی ملاقات میں کر دی تھی‘ یہ ایک زمانے میں پاکستان اور پاکستانیوں کی کریڈیبلٹی ہوتی تھی۔
شیخ زید بن سلطان النہیان 1960 کی دہائی میں پہلی مرتبہ پاکستان آئے تو صدر ایوب خان ان سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھے‘ آغا حسن عابدی اپنے کسی دوست کے گھر سے سرخ قالین مانگ کر لائے اور انھوں نے بڑی مشکل سے منتیں کر کے کمشنر راولپنڈی کوسلطان کو ریسیو کرنے پر تیار کیا۔

کمشنر راولپنڈی چند منٹوں کے لیے چکلالہ ائیرپورٹ آئے‘ شیخ کے ساتھ ہاتھ ملایا اور میٹنگ کا بہانہ کر کے غائب ہو گئے‘ آغا حسن عابدی نے انھیں انٹر کانٹیننٹل ہوٹل (آج کے پی سی) میں ٹھہرایا اور یہ بڑی مشکل سے پکڑ دھکڑ کر کے مختلف افسروں‘ صحافیوں اور وزراء کو ملاقات کے لیے ان کے پاس لے کر آئے تھے۔

سلطان کو ہوٹل کا لان بہت اچھا لگا‘ اس نے مالی کے بارے میں پوچھا‘ ہوٹل انتظامیہ نے مالی سلطان کے حضور پیش کر دیا‘ سلطان نے مالی کو ملازمت کی پیش کش کی اور اسے اپنے جہاز میں دوبئی لے گیا‘ وہ مالی اور اس کا خاندان بعدازاں کھرب پتی بن گیا اور یہ آج پاکستان کے ایک بااثر خاندان کا حصہ ہے‘ ہم 1960 کی دہائی میں یو اے ای کو اتنی اہمیت دیتے تھے۔

1970 اور 1980کی دہائی میں بھی پاکستان دنیا کا بڑا اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک تھا‘ یو اے ای کے حکمران خاندان نے ذوالفقار علی بھٹو کی تمام شرائط مان کر 1970 کی دہائی میں پاکستان سے ورکرز اور لیبر لی تھی اور ہمارے بارہ تیرہ لاکھ لوگوں نے صحرا کو دنیا کے کام یاب ترین شہروں میں تبدیل کر دیا تھا۔

ایمریٹس اس وقت دنیا کی تیسری بہترین ائیر لائین ہے‘ یہ ائیرلائین 1985 میں کراچی سے شروع ہوئی تھی اور پی آئی اے نے اپنے دو جہاز اور عملہ دے کر اس ائیر لائین کی بنیاد رکھی تھی‘ ایمریٹس کا مخفف ای کے (EK) ہے‘ ای سے ایمریٹس بنتا ہے اور کے سے کراچی لہٰذا ایمریٹس میں آج 37 برس بعد بھی کراچی کا’’ کے‘‘ موجود ہے مگر آج یو اے ای کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟ ہم دس برسوں سے یو اے ای سے قرضہ مانگ رہے ہیں۔

ہمارے اسٹیٹ بینک میںاس وقت بھی یو اے ای کے دوبلین ڈالرز کے ڈیپازٹس ہیں اور ہمارے وزیراعظم اور آرمی چیف پچھلے ہفتے یو اے ای سے ایک ارب ڈالرز مزید مانگ کر آئے ہیں اور ہم اس پر خوشی کے شادیانے بھی بجا رہے ہیں لیکن ہم آج بھی یہ سوچنے پر تیار نہیں ہیں دنیا ہم سے آگے کیسے اور کیوں نکل گئی اور ہم دنیا سے پیچھے کیوںہیں؟ آج آپ یقین کریں افغانستان بھی ہم سے آگے ہے۔

طالبان کے پاس ڈالرز بھی ہیں اور یہ ڈالر ہم سے 155فیصد سستا بھی ہے اور وہاں پاکستان سے زیادہ امن بھی ہے‘ وہاں اسمبلیاں ٹوٹ رہی ہیں اور نہ سیاست دان ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں اور نہ ہی وہاں سیاست دان اور فوج آمنے سامنے کھڑی ہے اور وہاں طالبان بھتے کی پرچیاں بھی نہیں دے رہے‘ سری لنکا ڈیفالٹ کے باوجود ہم سے آگے ہے۔

بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر33بلین ڈالرز ہیں اور اس نے ڈھاکا میں ماڈرن میٹرو ٹرین بھی چلا دی ہے‘ بھوٹان‘ نیپال اور مالدیپ میں ہمارے مقابلے میں 300 گنا زیادہ سیاح آتے ہیں‘ برما میں 30برسوں سے سیاسی تصادم چل رہا ہے لیکن وہاں آٹے کے لیے لائنیں لگ رہی ہیں اور نہ لوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھ رہے ہیں ’’ملک کا کیا بنے گا؟‘‘بھارت اب عالمی طاقت بن چکا ہے۔

اس میں اس وقت 221 بلیئنرز موجود ہیں اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر561بلین ڈالرز ہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا خانہ جنگیوں کے شکار افریقی ملک روانڈا‘ ایتھوپیا‘ برکینا فاسو‘ مالی‘ کیمرون اورموزمبیق بھی ہم سے آگے نکل گئے ہیں‘یہ بھی پرامن ہیں اور خوش حال بھی ہو رہے ہیں جب کہ ہم اس وقت صرف ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے در در بھیک مانگ رہے ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ ہم نے کبھی سوچا۔

ہم اگر اس ملک کو بچانا اور چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں فوری طور پر پانچ کام کرنا ہوں گے‘ہمیں فوری طورپر ملک میں استحکام لانا ہوگا‘ آپ خود سوچیے‘ ملک میں جب استحکام ہی نہیں ہوگا تو ملک خاک ترقی کرے گا‘ ہم نے 2007سے اس ملک کو چلنے نہیں دیا۔

پہلے عدلیہ کی تحریک تھی‘ اس نے ملک کی جڑیں ہلا دیں‘ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی‘ ہم نے اس کو بھی ٹک کر کام نہیں کرنے دیا‘ وہ لوگ پانچ سال اپنی دھوتی سنبھالتے رہے۔

اس ’’دھوتی سنبھال‘‘ دور کا نتیجہ خوف ناک لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کی شکل میں نکلا‘ نواز شریف آئے تو ان کے گلے میں دھرنا‘ پاناما اور ڈان لیکس کا ڈھول باندھ دیا اور وہ حکومت بھی پانچ سال ملک کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنی گردن بچاتی رہی‘ عمران خان آیا تو یہ بھی ایکسٹینشن‘ ایک کو نکالو اور دوسرے کو لاؤ اور اپوزیشن کو اٹھاؤ اور جیلوں میں ڈالو اور تقریریں کرتے رہو میں وقت ضایع کرتا رہا اور اس کے بعد تو انتہا ہو گئی۔

ملک میں حکومت ہے مگرحکمرانی نہیں ہے‘ عمران خان نے 10 مہینوں سے پورے سسٹم کو مفلوج کر رکھا ہے اور حکومت ملک کی فکر کے بجائے اسمبلیاں بچانے میں مصروف ہے اور یہ صورت حال اگلے الیکشنز کے بعد مزید گھمبیر ہو جائے گی چناں چہ پھر اس عدم استحکام کے ساتھ ملک کیسے چل سکے گا؟ میری درخواست ہے یہ گند جس نے ڈالا تھا صرف وہی اسے صاف کر سکتا ہے لہٰذا آپ کھلے دل کے ساتھ آگے آئیں۔

گند صاف کریں تاکہ ملک میں استحکام آ سکے ورنہ ہم برف کی طرح پگھل جائیں گے‘ دو‘ پورے ملک کو ٹریننگ کی ضرورت ہے‘ہاتھ ملانے سے لے کر قیادت تک لوگ کسی چیز سے واقف نہیں ہیں لہٰذا ہمیں فوری طور پر قوم کی ٹریننگ کا بندوبست کرنا ہوگا‘ ہمیں لوگوں کو سمجھانا ہو گا گھر اور شہر کو صاف رکھنا آپ کی ذمے داری ہے۔

آپ اگر اپنی نالیوں اور گلیوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو آپ کو نقصان ہو گا حکومت کو نہیں لہٰذا ہمیں نیشنل لیول پر ٹریننگ کا بندوبست کرنا ہوگا‘ ملک کے انتہائی غریب‘ بھکاری اور یتیم بچوں کے لیے این جی اوز بنائی جائیں اور یہ ان بچوں کی ماڈرن ایجوکیشن کا بندوبست کریں تاکہ نسلوں کی سمت ٹھیک ہو سکے۔

تین‘ہمیں فوری طور پر تعلیم کو سکل میں تبدیل کرنا ہوگا‘ میٹرک کے بعد 80فیصد طالب علموں کو ووکیشنل ایجوکیشن دیں اور یہ لوگ تیار ہو کر دوسرے ملکوں اور پاکستان کے اندر کام کریں‘ ملک میں اس وقت ساڑھے پانچ کروڑ لوگ بے روزگار ہیں‘پورے ملک میں کام کا ڈرائیور‘ کک‘ مالی اور چوکی دار نہیں ملتا‘ آپ اچھا پلمبر‘ الیکٹریشن اور پینٹر بھی نکال کر دکھا دیں۔

میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا ملک میں نالائقی زیادہ ہے یا بے روزگاری؟ ہم نالائق ہیں لہٰذا قوم کو لائق بنانا ہو گا اور اس کے لیے ووکیشنل تعلیم ضروری ہے‘ دنیا میں مزدور ٹھیکے دار اور پھر ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک بنتا ہے جب کہ ہم دھڑا دھڑ گریجویٹ پیدا کرتے جا رہے ہیں اور یہ ڈگریاں اٹھا کر گلیوں میں نوکریاں نوکریاں کرتے پھر رہے ہیں۔

ہمیں اپنی یہ اپروچ بھی بدلنا ہوگی‘ چار‘ اس ملک میں وسائل کم اور آبادی بے تحاشا زیادہ ہے‘ آپ کسی شہر میں نکل جائیں آپ کو سر ہی سر اور لوگ ہی لوگ نظر آئیں گے‘ ہم 1972 میںساڑھے چھ کروڑ تھے لیکن آج ہماری آبادی 23 کروڑ ہے جب کہ ہم سے 20گنا بڑے ملک روس کی آبادی ساڑھے چودہ کروڑ اور پورے یورپ میں 74کروڑلوگ رہتے ہیں۔

آج ہمارے پاس خوراک کم اور کھانے والے چار گنا ہیں‘ ہم اوسطاً روزانہ ڈیڑھ ارب لیٹر پینے کا میٹھا پانی واش رومز میں ضایع کرتے ہیں اور ہمیں روزانہ 60 کروڑ روٹیاں چاہیے ہوتی ہیں لہٰذا ملک کیسے چلے گا؟ اور پانچ‘ ہم من حیث القوم اینٹی بزنس‘ اینٹی پراگریس اور اینٹی سوشل ہیں‘ ہم خوش اخلاق لوگوں کو منافق‘ ترقی کرنے والوں کو خوشامدی اور بزنس مینوں کو چور سمجھتے ہیں جب کہ باقی دنیا میں یہ لوگ قومی اثاثے سمجھے جاتے ہیں۔

امریکا کو امریکا اس کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بنایا تھا جب کہ یہاں ہر کام یاب بزنس مین کی ٹانگیں کاٹ دی جاتی ہیں‘ ہر ترقی کرنے والے کو بے عزت کر دیا جاتا ہے اور ہر خوش اخلاق شخص کو سڑک پر جوتے مار دیے جاتے ہیں چناں چہ پھر یہ ملک کیسے چل سکے گا؟۔

ہم اگر واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہم ترقی یافتہ ملکوں کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟ ہم خود کو دوبئی‘ ترکی اور انڈیا کیوں نہیں بنا لیتے؟ کیا وہاں کوئی اور مخلوق رہتی ہے‘ کیا وہ انسان نہیں ہیں اگر ہیں تو پھر ہم کیسے انسان ہیں؟ ہم میں آخر کیا کمی ہے‘ ہم کیوں بھیک مانگ رہے ہیں؟۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے