پیر کے روز پشاور کی پولیس لائنز میں جو اندوہناک دہشت گردی ہوئی وہ ہمارے ذہنوں میں بے تحاشہ سوالات اٹھانے کا سبب ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سب یکسو ہوکر ان سوالات کے تسلی بخش جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔میڈیا میں تحریک انصاف کی جانب سے ”امپورٹڈ حکومت“ کے خلاف بنائے بیانیے ہی کا چرچہ رہا۔مذکورہ بیانیہ کے غیر منطقی اتباع میں یہ سازشی کہانی بھی بہت تیزی سے مقبول ہوئی جو اشاروں کنایوں میں تاثر دینا چاہ رہی تھی کہ پشاور کے نسبتاََ ”محفوظ“ علاقے میں جو واردات ہوئی اسے غفلت کی وجہ سے نہیں بلکہ ”جان بوجھ کر ہونے دیا گیا“ ۔ مقصد مبینہ لاپرواہی کا انتخابات سے فرار کی راہ ڈھونڈنا تھا۔
جو کہانی گھڑی اور پھیلائی گئی نظر بظاہر ”معقول“ نظر آتی ہے۔گزرے برس کے اپریل سے ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن ساز“ مستقل مزاجی سے یہ تاثر پھیلارہے ہیں کہ ”13سیاسی جماعتوں کے خلاف تنہا لڑتے“ عمران خان صاحب نئے انتخابات کی بدولت دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں واپس لوٹ سکتے ہیں۔ ”امپورٹڈ حکومت“ میں شامل جماعتیں مذکورہ امکان سے گھبرائی ہوئی ہیں۔میدان میں ہارکا خوف انہیں انتخابات سے فرار کے جواز ڈھونڈنے کو مجبور کررہا ہے۔
میں اس بحث میں الجھ کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ ”امپورٹڈ حکومت“ واقعتا انتخابات سے گھبرارہی ہے یا نہیں۔ مذکورہ سوال سے آگے بڑھنے کے لئے فی الفور تسلیم کرلیتے ہیں کہ بھان متی کا کنبہ دکھتی حکومت انتخابی میدان میں اترنے سے خوفزدہ ہے۔ اس کا مصنوعی یا حقیقی خوف مگر آئینی تقا ضوں کو بالائے طاق رکھ نہیں سکتا۔ ہمارے تحریری آئین میں شامل چند شقیں ”مالیاتی ایمرجنسی یا قومی سلامتی کو درپیش خطرات“ کے بہانے انتخابات ٹالنے کا جواز یقینا فراہم کرتی ہیں۔ان شقوں کو بروئے کار لانے کے لئے مگر پارلیمان کی منظوری لازمی ہے۔پارلیمان کا عالم جبکہ اتنا مضحکہ خیز ہے کہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی ا سمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت موجود ہی نہیں ہے۔ طویل اور بے جواز لیت ولعل کے بعد ان کے اجتماعی استعفے بالآخر منظور کرلئے گئے۔ ان کے استعفیٰ منظور ہونے سے قبل بھی قومی اسمبلی کے جو اجلاس ہوتے رہے ان میں اوسطاََ پچاس اراکین شریک ہوتے ہیں۔اس ایوان میں کورم برقرار رکھنے کے لئے جبکہ 84اراکین کی موجودگی ضروری ہے۔
ایوان بالا کے ساتھ مل کر پارلیمان اگر ”مالیاتی ایمرجنسی“ یا ”قومی سلامتی کو درپیش خطرات“ کے جواز تراش بھی لے تو اعلیٰ عدالتوں سے ان کی منظوری ممکن نظر نہیں آرہی۔ موجودہ حکومت نے ”پارلیمان کی منظوری“ سے حال ہی میں کئی قوانین متعارف کروائے تھے۔وہ عدالتوں میں چیلنج ہوگئے۔ آئین کی ”تشریح“نے حکومت کو بارہا نادم کیا ۔جس ندامت کا اسے مسلسل سامنا کرنا پڑرہا ہے اس نے مسلم لیگ (نون) کے مشاہد حسین سید کو برسرعام حکومت کو ”لولی لنگڑی‘ ‘پکارنے کا اکسایا۔ بارہا اس کالم میں ذاتی طورپر میں خود بھی شہباز حکومت کے ”بندھے ہاتھوں“ کا ذکر کرتا رہا ہوں۔
بدھ کی رات مگر دو اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں۔”امپورٹڈ حکومت“ کے مبینہ سرپرستوں کو مسلسل کڑی تنقید کی زد میں رکھتے صحافی عمران ریاض خان اور راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھر ے ”دبنگ باغی“ گرفتار کرلئے گئے۔ ان کی گرفتاری فوری طورپر پیغام یہ دیتی ہے کہ حکومت اب یہ ثابت کرنے کو تل گئی ہے کہ وہ ”لولی لنگڑی“ نہیں ہے۔پنجابی محاورے کے مطابق ”اپنی آئی پر“ آتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین اور ناقدین کی زندگی اجیرن بناسکتی ہے۔انہیں ”اغوائ“ دکھتے انداز میں رات گئے گھروں سے اٹھایا جاسکتا ہے۔اس کے بعد جھوٹے سچے مقدمات اور عدالتوں میں ضمانتوں کے حصول کے لئے ہوئی کاوشوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
گرفتاریاں اور عدالتی پیشیاں مگر ”لولی لنگڑی“ حکومت کو ”توانا“ نہیں دکھاسکتیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہرسیاسی جماعت کا جذباتی کارکن اپنے موبائل فون کی وجہ سے ”صحافی“ بھی کہلاسکتا ہے ”لولی لنگڑی“ حکومت کے ہاتھوں ہوئی گرفتاریوں کو ”فسطائیت“ کا اظہار بنادیتا ہے۔ عمومی تاثر اس کی وجہ سے یہ پھیلتاہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ”پہلی بار“ حکومت کے دبنگ ناقدین کے ”انسانی حقوق“ پامال ہورہے ہیں۔1950ءکی دہائی سے عوامی حقوق کے حصول کے لئے وطن عزیز میں قابل ستائش جدوجہد ہورہی ہے۔ہمارے بے شمار قد آور سیاستدان اس کی وجہ سے کئی برسوں تک جیلوں میں قید رہے۔لاہور کے شاہی قلعہ میں کئی دہائیوں تک سیاسی کارکنوں پر بہیمانہ تشدد ہوتا رہا۔ مجھ سمیت کسی بھی صحافی نے ا ٓج تک خود کو روزگار کے حوالے سے مطمئن محسوس نہیں کیا۔جی کو ہر وقت دھڑکا ہی لگارہتا ہے۔خوف سے مفلوج ہوئے اذہان ایک سطربھی لکھنے یا بولنے سے قبل سوبار سوچتے ہیں۔آزادی اظہار کی جدوجہد کے دوران ہزاروں سیاسی کارکن اور صحافی بقول فیض احمد فیض ”تاریک راہوں“ میں مرجانے کے بعد مگر بھلادئے گئے ہیں۔
ماضی کو بھلا بھی دیں تو اگست 2018ءسے اپریل 2022ءتک ”سیم پیج“ کی بدولت ہمہ وقت اتراتی عمران حکومت بھی اپنے ناقدین اور مخالفین کی زندگی اجیرن بناتی رہی۔اس کے سیاسی مخالفین محض ”چور اور لٹیرے“ ٹھہرائے گئے۔احتساب بیورو انہیں ذلیل ورسوا کرتا رہا۔صحافتی شعبے کو نہایت لگن سے ان ”تخریب کاروں“ سے نجات دلوائی گئی جو پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ میں ”دشمن“ کے آلہ کار شمار ہوتے تھے۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے صحافیوں کو ”غدار“ثابت کرنے کے لئے چند ”صحافی“ ہی استعمال ہوئے جو ان دنوں حق گوئی اور بے باکی کی علامت شمار ہورہے ہیں۔ مجھ جیسے کمزور دل شخص میں تاہم ایسی ڈھٹائی ہرگز موجود نہیں جس کی بدولت ان دنوں ”تیز ہوا“ کی زد میں آئے چراغوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے پھکڑپن کا نشانہ بناﺅں۔ریاست اور حکومت کا رویہ اگر عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دوران حامدمیر،اسد طور یا مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کے ساتھ بے رحمانہ تھا تو آج کے ”منہ پھٹ“ افراد کے ساتھ موجودہ حکومت کا رویہ بھی قابل مذمت ہے۔”آزادی¿ اظہار“ کا حق بھی لیکن چند حدود ”بے باکی“ سے پھلانگتے ہوئے یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔
اصل فکر اگرچہ مجھے یہ سوچتے ہوئے لاحق ہورہی ہے کہ ”لولی لنگڑی“ حکومت کے ہاتھوں بھونڈے انداز میں ہوئی گرفتاریاں ہماری توجہ ان سوالات پر مرکوز نہیں رہنے دے رہیں جو پشاور میں ہوئے سانحے کے بعد واجب وجوہات کی بنیاد پر ہمارے ذہنوں میں ابھرے تھے۔پشاور میں ہوئے سانحے کے بعد وسیع پیمانے پر جو ردعمل نمودار ہوا اس کا بغو ر جائزہ لیں تو خیبرپختونخواہ کا تقریباََ ہر رہائشی یہ سوچتا محسوس ہورہا ہے کہ ”پنجاب“ ان کی ذات،کاروبار اور طرز معاشرت کو درپیش خطرات پر کماحقہ توجہ نہیں دے رہا۔ میں اس سوچ کو ملی یکجہتی کے لئے انتہائی خطرناک تصور کرتا ہوں۔ ”لولی لنگڑی“ حکومت کے ہاتھوں بھونڈے انداز میں ہوئی گرفتاریاں مذکورہ سوچ کا مداوا نہیں۔ توجہ بھٹکانے کی احمقانہ کوششیں ہیں۔