معاملہ مزید الجھ گیا؟

تمام رات قیامت کا انتظار کیا۔ پھر صبح ہوئی ۔ انتخابات کی تاریخ کے متعلق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سامنے آیا تو حضرت داغ دہلوی یاد آئے جنہوں نے فرمایا تھا ’’غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا‘‘ جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تین دو سے فیصلے کا اعلان کیا تو ان کی عدالت میں پچھلی نشستوں پر موجود ایک ستم ظریف قسم کے بزرگ وکیل آس پاس موجود ساتھیوں کو میر تقی میر کا یہ شعر سنا رہے تھے؎

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

وکیل صاحب میر تقی میر کی زبان میں یہ فرما رہے تھے کہ چیف جسٹس صاحب نے آئین پاکستان کو بچانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن آئین کو بچاتے بچاتے اپنے ادارے کی عزت گنوا بیٹھے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ پیچھے رہ گیا اور اس ادارے کے جج صاحبان کے اختلافات آگے نکل گئے ۔چیف جسٹس صاحب نے ازخود نوٹس کی سماعت کیلئے نو رکنی بینچ بنایا تھا، سماعت شروع ہوئی تو بینچ میں سے چار جج نکل گئے۔

یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا کیس کی سماعت پانچ رکنی بینچ نے کی اس دوران ایک دوسرے بینچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار پر من مانی اور قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات لگا کر دراصل چیف جسٹس پر عدم اعتماد کردیا۔

عدلیہ کے اس اعلیٰ ترین ادارے میں ججوں کی تقسیم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تقسیم 2019ء میں بھی سامنے آئی تھی جب عمران خان کی حکومت کی طرف سے صدر عارف علوی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس بھیجا گیا اور انہوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا

اس ریفرنس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں تقسیم پیدا ہوئی اور اس تقسیم کے باوجود ریفرنس مسترد ہوگیا۔ صدر عارف علوی اور عمران خان دونوں کو منہ کی کھانی پڑی۔پھر شہباز شریف وزیراعظم بنے اور ججز کی تقرری کے کمیشن میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے ۔

جج صاحبان کو چاہئے تھا کہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنے اختلافات کا خاتمہ کرتے لیکن اس دوران ان پر کچھ سیاستدانوں کے سہولت کار ہونے کا الزام لگنے لگا ۔ یہ الزام وہ لگا رہے ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف ججوں کو استعمال کرتے رہے اور آج عمران خان کے پیدا کردہ حالات کے جبر نے انہیں بادل ِنخواستہ ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے لیکن یہ صف بھی ٹوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔

شہباز شریف کی کنفیوژ حکومت کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جب اعلیٰ عدلیہ کے جج آپس میں لڑتے ہیں تو سیاسی حکومت مضبوط نہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہو جاتی ہے اور کچھ نہیں تو 1997ءکے تجربے سے سبق سیکھ لیں۔1997ءمیں نواز شریف بھاری اکثریت سے وزیر اعظم بنے تھے طاقت کے نشے میں انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سبق سکھانے کی کوشش کی ۔

پہلے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور پھر ججوں کو تقسیم کرکے سجاد علی شاہ کیخلاف ایک بینچ بنوادیا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ایک دوسرے کے خلاف فیصلے دیتے رہے اور ان فیصلوں کو معطل کرتے رہے، اس لڑائی میں جن ججوں نے نواز شریف کا ساتھ دیا ان میں سے رفیق تارڑ صاحب کو بعد میں صدر پاکستان بنایا گیا اور سعید الزماں صدیقی بھی صدارتی امیدوار بنے۔

چیف جسٹس کو زیر کرنے کے بعد نواز شریف نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو فارغ کیا اور پھر انکی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا ۔اسی مشرف نے نوازشریف کو 1999ء میں فارغ کیا تو عدلیہ اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ ایک ڈکٹیٹر کے سامنے کھڑی نہ ہوسکی ۔آج شہباز شریف وزیراعظم ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ حکومت کے اہم فیصلے نواز شریف کرتے ہیں۔

عمران خان کی گرفتاری کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی نواز شریف بنے ہوئے ہیں۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اور کچھ ریاستی اداروں میں محاذ آرائی کو مزید بڑھایا جائے لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ادارے کمزور ہونے سے صرف جمہوریت نہیں ریاست بھی کمزور ہو گی۔

1997ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ججوں میں صلح کرانے کی بھرپور کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہوئی۔ 2023ءمیں بار ایسوسی ایشن بھی اختلافات کا شکار ہے۔

صورتحال 1997ءسے زیادہ گمبھیر ہے اس صورتحال میں سپریم کورٹ نے نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے پانچ میں سے تین ججوں نے نوے دن کے اندر الیکشن کے حق میں فیصلہ دیا ہے دو ججوں نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ اس فیصلے نے بھی ججوں کی تقسیم کو مزید ابھارا ہے لیکن اس فیصلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے سیاست دان اور پارلیمنٹ ایک دفعہ پھر ایک سادہ سے سیاسی تنازع کو طے کرنے میں ناکام رہے اور آخر کار یہ تنازعہ سپریم کورٹ نے طے کرنے کی کوشش کی ۔یہ کوئی راز نہیں کہ شہباز شریف کو لندن سے حکم آئےگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کی جائے کیونکہ لندن والوں کے خیال میں پہلے عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے پھر الیکشن کرائے جائیں ۔یہ مزاحمت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک نئے امتحان سے دوچار کریگی۔

حکومت کے خلاف توہینِ عدالت کی نئی درخواستیں دائر ہونگی اور پھر یہ بحث ہو گی کہ ہماری عدلیہ یوسف رضا گیلانی، دانیال عزیز، طلال چوہدری اور سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف تو توہین عدالت کی کارروائی کرتی ہے لیکن عمران خان کے معاملے پر اس کا رویہ ’’بہارو پھول برسائو میرا محبو ب آیا ہے‘‘ والا کیوں ہو جاتاہے ؟

میری ذاتی رائے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے کسی کے سیاسی مفاد کو آئین پر بالادستی نہیں ملنی چاہئے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے عارف علوی اپنے فیصلے خود کرتے ہیں یا انہیں عمران خان کے حکم کی تعمیل کرنی ہوتی ہے؟ انکی آئینی فہم و فراست پر تین داغ لگ چکے ہیں۔ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر کارروائی کو آگے بڑھایا اور عدلیہ کے خلاف گہری سازش کا حصہ بنے ۔

انہوں نے اپریل 2022ء میں قومی اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی توثیق کی اور انکے فیصلے کو سپریم کورٹ نے مسترد کیا اور اب انہوں نے خود سپریم کورٹ میں اعتراف کیا کہ انہیں خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ عمران خان کی وقتی فتح ضرور ہے لیکن صدر عارف علوی کی مسلسل غلطیوں میں ایک اور اضافہ بھی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے