خواتین کا عالمی دن اور عورت مارچ

ہر سال کی طرح اس بار بھی 8 مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ پچھلے ایک سو سال سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد عورتوں اور مردوں کے درمیان عدم مساوات کے بارے میں بیداری پھیلانے کے ساتھ ساتھ خواتین کی معاشرتی، سیاسی اور معاشی میدان میں ترقی کو سراہنا بھی شامل ہے۔ اس دن کو باقاعدہ طور پر 1975 میں تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کیا۔ حالیہ کچھ سالوں سے پاکستان میں اس دن کو لے کر کافی بحث ومباحثہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس دن ہونےوالا عورت مارچ کچھ طبقوں کی طرف سے تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ سے خواتین کے حقوق کی بات تو زیر بحث رہی ہے اور چند گنی چنی خواتین نے ہر دور میں اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند بھی کی ہے مگر 2018 میں ان بکھری آوازوں کو "مارچ” کی صورت میں جلا ملی۔ اس سال پاکستان میں پانچواں سالانہ عورت مارچ نکالا گیا اور پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی ناقدین میں اضافہ نظر آیا۔ ہر سال 8 مارچ کے دن پورے ملک سے خواتین اور مرد سڑکوں اور چوراہوں پہ اکٹھا ہوتے ہیں اور خواتین کے حق میں نعرے بازی کی جاتی ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مارچ میں شرکت کرتی ہیں ۔ مارچ میں ویسے تو بہت سے موضوعات زیر بحث رہتے ہیں مگر اس کا بنیادی مقصد خواتین کے دقیانوسی صنفی کردار کو چیلنج کرنا، امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانا، تعصب کی طرف توجہ مبذول کروانا اور خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں برابری دلانا ہے۔

مگر کچھ خاص طبقوں کی طرف سے ہر سال عورت مارچ کو شدید مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مارچ ہونا ہی نہیں چاہیے کیونکہ اس سے خواتین کے مسائل حل نہیں ہوتے تو کسی کو اس مارچ کے احتجاج کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنھیں اس مارچ کے کچھ نعرے پسند نہیں آتے۔ ان کے نزدیک انکی مذہبی اور معاشرتی اقدار عورت مارچ کی اجازت نہیں دیتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی طبقہ فکر کے لوگ درست طور پر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دیے ہیں اور ہمارے معاشرے میں عورت کو بہت اونچا مقام حاصل ہے اسلئے یہاں ہر دن ہی "ویمن ڈے” ہونا چاہئے۔ میں اس بات سے متفق ہوں۔ بلاشبہ ہر دن ہی”ویمن ڈے” ہونا چاہئے۔

اگر ویمن ڈے پر کسی کو اعتراض نہیں اور نہ ہی خواتین کو حق دینے میں کوئی شبہ ہے ، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورت مارچ ایک بیکار عمل ہے؟ کیا چند خواتین کے ایک پارک میں نعرے لگانے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عورتوں نے ہمیشہ اپنی جنگ کا آغاز ایک تقریر، احتجاج، نعرے اور ایک مارچ سے کیا۔ یہ جنگ بنیادی حقوق کے حصول کی جنگ تھی اور یہ جنگ عورت کی معاشرتی اور قانونی حیثیت منوانے کی خاطر دنیا کے ہر حصے میں لڑی گئی۔ اور آج کی عورت کو اگر کوئی قانونی حقوق حاصل ہیں تو وه انہی نعروں اور تحریکوں کی بدولت ہیں جو تاریخ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہیں۔ یہ نعرے ضروری ہیں۔ یہ”مارچ” تب تک جاری رہنا چاہیے جب تک پاکستان کی آخری عورت اپنے تمام انسانی اور قانونی حقوق حاصل نہیں کر لیتی۔ اور یہ مارچ اس لئے بھی جاری رہنا چاہئے کہ پاکستان کا قانون اسکی اجازت دیتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمارا مذہب عورت کو رحمت تسلیم کرتا ہے۔ اسلام عورتوں کو جائیداد کا حق بھی دیتا ہے اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کا بھی اختیار بھی دیتا ہے۔ پھر بھی بیوی پر تشدد، بیٹی کو تعلیم اور جائيداد سے محروم کرنے اور سڑک پر چلتی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے ہزاروں واقعات ہمیں روز سننے کو ملتے ہیں۔

ایک اور اعتراض جو "مارچ” پہ کیا جاتا ہے وه مذہبی فرقوں کی جانب سے آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارچ میں کچھ شرکا ایسے قابل اعتراض پلے کارڈز اٹھاے ہوتے ہیں جن پہ لکھی تحریریں ہماری مذہبی اور معاشرتی تعلیمات کے برعکس ہیں۔ میں ان تمام لوگوں سے یہ گزارش کروں گی کے آپ ان چند پلے کارڈز کو ایسے ہی نظر انداز کر دیں جیسے ہمارے معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کو کیا جاتا ہے۔ قانون اور مذہب ضرور ہماری عورت کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ جنگ انہی لوگوں کے خلاف ہے جو نہ عورت کے مذہبی حق کو مانتے ہیں اور نہ اسے قانونی حق دیتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق پاکستان میں ہر برس ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو ‘غیرت’ کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، جبکہ 32 فیصد خواتین کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جولائی 2021 میں اسلام آباد میں نور مقدم کا قتل، ستمبر 2020 کا لاہور سیالکوٹ موٹروے ریپ کیس، جنوری 2018 میں کم سن زینب انصاری کا جنسی تشدد کے بعد قتل، سنہ 2016 میں ماڈل قندیل بلوچ کا غیرت کے نام پر قتل کرنے والے ہمارے ہی معاشرے کے مرد تھے اور یہ تمام ہماری بیٹیاں تھیں۔ ایسے دل دہلا دینے والے لاکھوں واقعات جو ہمیں آے روز کچہریوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں اس بات کا کی طرف اشارہ ہیں کہ ہمیں ابھی "عورت مارچ ” کی ضرورت ہے۔

نسلِ آدم کی امیں بھی تو یہی عورت ہے
روزِ فردا کا یقیں بھی تو یہی عورت ہے
اس نے قوموں کو زمانے میں بقاء بخشی ہے
اس نے ہر دور کی ظلمت کو ضیاءبخشی ہے
اس کو اسلام نے عصمت کی ردا بخشی ہے
میرے معبود نے خود اس کو حیا بخشی ہے
اس کی توقیر زمانے کو بھی کرنی ہو گی
اس کو خود اپنی یہ تقدیر بدلنی ہو گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے