پرسکون زندگی کے لیے ذہنی صحت کی اہمیت

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک ارب آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا 70 فیصد سے زائد افراد کو وہ مدد نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔ نفسیاتی دباؤ کے باعث انسان ڈپریشن اور اینگزائیٹی جیسی بیماریوں مبتلا ہوتا ہے اور عدم توجہی کے کی وجہ سے یہ مسائل سنگین ہوجا تے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق رپورٹ ہونے والے خودکشی کے مقدمات میں سے 90 فیصد کا تعلق ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض سے ہے۔ پاکستان نوجوان آبادی والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے لیکن غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس نوجوان آبادی کا بھی ایک تہائی سے زیادہ ڈپریشن کا مریض ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق خودکشی کی شرح کے حوالے سے 183 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 169 ہے۔ یہ اعداد و شمار بہت تشویشناک ہیں اور اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے. ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 34 فیصد آبادی کسی نہ کسی قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں گذشتہ دو دہائیوں میں ملک کی سکیورٹی صورتحال، غربت اور بیروزگاری کو قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے نفسیاتی مسائل میں ڈپریشن، اینگزائیٹی، اور پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ہیں۔

پاکستان میں ذہنی صحت کے مسائل کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ان میں غربت، بے روزگاری اور سماجی عدم مساوات جیسے سماجی و اقتصادی عوامل کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور مذہبی عقائد بھی شامل ہیں۔ یہ عوامل ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں اور بے خبری کے باعث لوگ اس کا علاج نہیں کرواتے۔ نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے ماہرین تک رسائی کا فقدان اور ملک میں ذہنی امراض کے علاج کے لئے پیشہ ور افراد کی کمی بھی علاج کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔ ویسے تو مجموعی طور پر ہمارے ہاں ذہنی صحت کے مسائل بہت زیادہ ہیں لیکن پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ ذہنی امراض پائے جاتے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق 100 میں سے 10 خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرتی مسائل ہیں۔ گھریلو مسائل اور ذمہ داریوں کے بوجھ کے باعث زیادہ تر خواتین ذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔

ذہنی امراض کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، پاکستان میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال پر ابھی تک مناسب توجہ نہیں دی جا سکی۔ پاکستان میں پائی جانے والی ذہنی امراض میں مینٹل ڈس آرڈر کی شرح 13 فیصد، ڈیپریشن کی شرح میں 4 فیصد، اینگزائیٹی کی شرح میں 7 فیصد سالانہ اضافہ ہورہا ہے۔ اور ان اعداد و شمار میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے. یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر ذی شعور انسان ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ انسانی ذہن میں آنے والے خیالات براہ راست جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک اور اہم عنصر پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے پائے جانے منفی خیالات ہیں۔ بہت سے لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ذہنی بیماری کسی کمزوری یا ذاتی ناکامی کی علامت ہے۔ یہ رویہ ان مریضوں کے لئے شرمندگی اور تنہائی کا باعث بنتا ہے۔ اور تنقید کا خوف لوگوں کو مدد حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ پاکستان میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال کے لئے وسائل اور بنیادی ڈھانچے کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ملک میں ذہنی صحت کے تربیت یافتہ پیشہ ور افراد بہت کم ہیں اور علاج کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ بہت سے لوگ علاج دستیاب ہونے کے باوجود علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ہیں.

ماہرین کے مطابق مزاج کا چڑچڑاپن، غصہ، اداسی، نیند اور بھوک کا ڈسٹرب ہونا، وزن میں کمی بیشی، یکسوئی اور اعتماد میں کمی اور مایوسی ذہنی صحت کے متاثر ہونی کی علامات ہو سکتی ہیں۔ اگر کسی کو ان علامات کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں کسی نیم حکیم کے علاج یا جادو ٹونے کی بجائےکسی مستند ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اگر آپ بھی کسی قسم کے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں تو خدارا اسے نظر انداز نہ کریں، کسی قابلِ بھروسہ اور سند یافتہ سائیکائٹرسٹ کے پاس جائیں ۔ اس بیماری کا بھی اسی طرح علاج کروائیں جیسے آپ دیگر جسمانی بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں۔ ذہنی صحت سے متاثرہ افراد کو اپنے معاشرے کا حصہ بنائیں، ذہنی امراض کو پاگل پن سے تشبیہ دینے کے تاثر کو ذائل کیا جانا چائیےاور ان لوگوں کو زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں۔

افسوس کی بات یہ کہ نفسیاتی بیماریوں کو حکومت کی جانب سے بھی کم توجہ ملتی ہے۔ ان بیماریوں کے علاج پر صحت کے بجٹ کا محض 0.4 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے زیادہ بجٹ مختص ہونا چاہیے کیونکہ نفسیاتی مسائل سے متاثرہ افراد کی تعداد دیگر مریضوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ذہنی صحت کی دیکھ بھال کو ترجیح دینے اور اسے قومی صحت کے ایجنڈے کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے