آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ہمارے بچے

گزشتہ روز ہمارے ایک صحافی دوست وہاب کامران نے ایک فیس بک پوسٹ میں بتایا کہ ان کے بھائی ایک چینل چلاتے ہیں جن کے چینل کے ویوز ایک ارب سے ذیادہ ہو چکے ہیں اور یہ پاکستان کے کسی بھی یو ٹیوب چینل کے سب سے زیادہ ویوز ہیں ۔ پوسٹ پڑھتے ہی میں نے اپنے ۵ سالہ بیٹے کو کہا کہ آپ یہ والا چینل ”شہر میں دیہات” دیکھا کریں۔ تو اس نے فورا سے جواب دیا کہ میں تو سطین بھائی (یعنی سبطین بھائی ) کا چینل ہی دیکھتا ہوں ۔

میری دریافت پر معلوم ہوا کہ گھر کے کئی بچے یہ چینل بڑے شوق اور تسلسل سے دیکھتے ہیں ۔ مجھے اپنی کم علمی پر کافی افسوس ہوا کہ یو ٹیوب پر کئی بڑے پاکستانی چینل چل رہے ہیں اور مجھے اس بارے میں ککھ معلوم نہیں۔

لیکن اس کے ساتھ میرے ذہن میں جو اہم سوال اٹھا وہ یہی تھا کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کن خطوط پر کر رہے ہیں؟ اب زمانہ بدل رہا ہے۔ ٹیکنالوجی انتہائی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوئی مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفشل انٹیلی جنس کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی نے دنیا کو ایک نئے رخ پر لگا دیا ہے ۔ جب پروفیسر سٹیفن ہاکینگ سے مصنوعی زہانت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ”مصنوعی ذہانت ایک سٹیج پر آ کر انسانی نسل کو ختم کرنے کا باعث بن سکتی ہے”۔

آپ خود کا تجزیہ کر لیں۔ اگر آپ کا فون بند ہو جائے اور آپ کو کسی سے رابطہ کرنا ہو تو کیا آپ کو کتنے فون نمبر یاد ہیں؟ آپ نے کہیں جانا ہو اور گوگل میپ بند ہو جائے تو کیا ہو گا؟ مستقبل قریب میں یہ مصنوعی ذہانت آپ کے آنے جانے، کھانے پینے ، ادویات سمیت آپ کے تعلقات کو بھی کنٹرول کر رہی ہو گی۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کسی کے گھر جا رہے ہوں ۔ اور گوگل آپ کو پہلے ہی بتا دے کہ اس گھر میں رہنے والا فلاں بندہ آپ کے خلاف باتیں کر رہا تھا ۔ یا ایسا کہہ دے کہ آپ اس وقت نہیں جا سکتے کیونکہ موسم خراب ہو جائے گا ۔ تو آپ یقینا جانے سے پہلے سوچیں گے. اب بھی ہم نے چھوٹے موٹے فیصلے مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے کرنا شروع کر دیے ہیں ۔

اس سارے عمل میں ہماری اگلی نسل کہاں کھڑی ہے۔ کیا ہمارا تعلیمی نصاب اس قابل ہے کہ انہیں کوڈنگ، مشین لرننگ، مصنوعی ذہانت وغیرہ کے بارے آگاہ کر سکے۔ کیا ہم روایتی تعلیم سے ہٹ کر اگلی نسل کو اس بات کے لیے تیار کر رہے ہیں کہ وہ ان ساری چیزوں کو سمجھ کر اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں؟ کیا پاکستان میں صرف دو شعبے رہ گئے ہیں۔ میڈیکل اور انجئنئرنگ۔ جس کو پانے کے لیے والدین اور بچے دونوں تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں؟ کیا ہم بچوں کو ایسی کتابیں پڑھا رہے ہیں ۔ جن میں آج سے بیس سال بعد کی دنیا کا ذکر ہو۔ جس دنیا میں سرجری بھی روبوٹ ہی کر رہی ہو گی –

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے زریعے بڑے پیچیدہ ٹاسک منٹوں میں نپٹا دیے جاتے ہیں. مصنوعی مشین کے algorithms میں‌یہ صلاحیت ہے کہ وہ ڈیٹا اکھٹا کر کے اس کا نہ صرف تجزیہ کرتے ہیں بلکہ آپ کو کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچا دیتے ہیں. لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ نتیجہ درست ہو. لیکن یہ نظام اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر کے خود ہی اس کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.
�اسی طرح یہ نظام نہ سوتا ہے نہ تھکتا ہے اور آپ کو ہر وقت سروسز فراہم کرتا ہے .

کہتے ہیں کہ پرنٹنگ پریس کے خلاف ایک فتوے نے مسلمانوں کی نسلوں کو چار سو سال پیچھے پھینک دیا تھا۔ اب ہم اگلی نسل کو کیسے تیار کریں گے۔ یہ سارے بچے سب کچھ خود ہی سیکھ رہے ہیں۔ یہ سیلف لرننگ کتنی کار آمد ہے ؟ کون ان کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟ اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود اس ٹیکنالوجی کے بارے میں کتنے آگاہ ہیں۔

زمانہ بدل رہا ہے ۔ لیکن ہم وہیں کھڑے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے