چودھری ظہور الٰہی کے تعمیر کئے لاہور والے گھر میں جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب پنجاب کے محکمہ¿ اینٹی کرپشن والوں نے چھاپہ مارا۔ مقصد اس چھاپے کا پرویز الٰہی کی گرفتاری تھی جو ظہور الٰہی مرحوم کے بھتیجے اور داماد ہیں۔ کئی برسوں تک وہ مرحوم کے صاحبزادے چودھری شجاعت حسین کے ساتھ مل کر ”گجرات کے چودھریوں“ کی متعارف کردہ روایات کے مشترکہ امین اور علامت رہے ہیں۔ لاہور کے بے تحاشہ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے لئے وہ گھر جہاں چھاپہ مارا گیا فیاض اور پرخلوص مہمان دار ”ڈیرے“ کی شناخت رکھتا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر اس گھر پر پولیس کی ”رکاوٹ شکن“ گاڑیوں سے حملے نے جی اداس کردیا۔
کالج کے وہ ایام یاد آنا شروع ہوگئے جب کسی خوش گوار دن لاہور کے ریگل چوک پر کھڑے عوامی شاعر حبیب جالب مجھے دیکھ کر فرمائش کرتے کہ میں انہیں موٹرسائیکل پر بٹھاکر ”میرے بورژوادوست“ کے پاس لے جاﺅں۔”اس امیر آدمی سے کچھ رقم چھین کر آج کی شام اچھے انداز میں گزارنے کو جی مچل رہا ہے“۔ جالب صاحب کی چاکری میں موٹرسائیکل چلاتے ہوئے میں اس سوچ میں گم رہتا کہ ان جیسا منہ پھٹ خوددار شخص اپنے ”بورژوا دوست“ کی خاطر داری کو معیوب تصور کیوںنہیں کرتا۔ روایت شکن اور ضدی انا پرست حبیب جالب کی ظہور الٰہی سے بے تکلف دوستی کا تشفی بخش جواز میں کبھی ڈھونڈ نہیں پایا۔
بہرحال بے شمار افراد کے لئے عافیت فراہم کرنے والے اس ”ڈیرے“ پر ریڈہوئی ہے۔پرویز الٰہی اس کی وجہ سے گرفتار نہیں ہوئے۔ غالباََ ”حفاظتی ضمانت“ کے حصول کے لئے ہاتھ پاﺅں ماررہے ہوں گے۔ ان کی گرفتاری کی خاطر ہوئے چھاپے کی بدولت ٹی وی سکرینوں پر جو مناظر چلے ہیں انہوں نے لیکن مجھ جیسے کمزور دل کو پریشان کردیا۔مجھے اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ پرویز ا لٰہی گرفتاری کے حقدار ہیں یا نہیں۔پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن کے پاس اگر ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا ٹھوس مواد موجود ہے تو پرویز الٰہی کو گرفتار ہونا چاہیے۔طاقت ور اور قانونی نکات کے حیران کن ماہر وکلاءکی مدد سے چودھری خاندان کو عدالتوں سے ”ریلیف“ حاصل کرنے کے سوڈھنگ آتے ہیں۔اس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے حیران ہوں کہ چودھری صاحب گرفتاری سے بچنا کیوں چاہ رہے ہیں۔وہ گرفتار ہوجاتے تو ان کے خاندان کے مابین درآئی پھوٹ خلق خدا کے روبرو ایسے وحشیانہ انداز میں بے نقاب نہ ہوتی۔ خاندان کا بھرم رکھنے کو چودھری صاحب کو چھاپے کے دوران ہی ”رضاکارانہ“ طورپر گرفتار ہوجانا چاہیے تھا۔
خاندانی بھرم اندھی نفرت وعقیدت کے تباہ کن موسم میں مگر اب لوگوں کا درد سر نہیں رہا۔معاشرتی اقدار کے خاتمے پر کف افسوس ملنے کے بجائے سازشی کہانیوں سے جی بہلانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس تناظر ہی میں لہٰذا دعویٰ یہ ہورہا ہے کہ ”ریاست کے اندر ریاست“ کے چند طاقت ور افراد نے مذکورہ چھاپے کا ”سوانگ“ رچایا۔مقصد اس کا پرویز الٰہی کی گرفتاری نہیں تھا۔ عمران خان کو اشتعال دلانا تھا جن کے نامزد کردہ افراد حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کا آغاز کرچکے ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ مذکورہ چھاپے کی وجہ سے عمران خان اگر واقعتا چراغ پا ہوجاتے۔حکومت سے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیتے تو اس کے نتیجے میں حکومت یا مبینہ طورپر ”ریاست کے اندر ریاست“ کو کیا فائدہ ملتا۔ ممکنہ اقدام کو میں کسی بھی فریق کے لئے فائدہ مند ہونے کے امکانات سے محروم تصور کرتا ہوں۔ جو مذاکرات شروع ہوئے ہیں ان کی ناکامی 1977 کا ”اور لائن کٹ گئی“ جیسا ماحول ہی بنائے گی۔ سیاسی فریقین کے پلے اس کی بدولت کچھ نہیں آئے گا۔
پی آئی اے کا کارنامہ، نیوزی لینڈ ٹیم کراچی پہنچنے پر سیڑھی کا انتظار کرتی رہی
اس کے علاوہ ایک اور سازشی کہانی بھی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جمعہ اور ہفتے کی شب ہوئی ریڈ کا مقصد پرویز الٰہی کی گرفتاری نہیں تھا۔انہیں تحریک انصاف کی نگاہ میں ”ہیرو“بنانا تھا۔ اس جماعت کے کئی سرکردہ رہ نما ٹی وی انٹرویوز میں کھل کر اس امر کی بابت تاسف کا اظہار کرتے رہے کہ انہیں تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لئے نامزد نہیں کیا۔پرویز الٰہی پر البتہ اس ضمن میں کرم فرمائی ہوئی۔ منتخب ہونے کے بعد وہ وزارت اعلیٰ کے تگڑے امیدوار ثابت ہوں گے۔
یہ تھیوری سنی تو خیال آیا کہ ٹکٹ تو عثمان بزدار کو بھی ملا ہے۔ وہ خان صاحب کی اولین ترجیح تھے۔پنجاب اسمبلی کے لئے دوبارہ منتخب ہوئے تو خان صاحب ان کی وفاداری سے دوبارہ رجوع کرنے سے اجتناب کیوں برتیں گے۔ ”ریاست کے اندر ریاست“ کے مبینہ چالبازوں کو لہٰذا عثمان بزدار کی زندگی اجیرن بنانے پر توجہ دینا چاہیے تھی۔ایک آدھ پیشیوںکے علاوہ بزدار صاحب کے لئے مگر اب تک ستے خیراں والا ماحول ہے۔ ”ہمدردی“ پر چھاپے کی وجہ سے اب پرویز الٰہی کا اجارہ ہے۔
اقدار کی پامالی کے علاوہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ہوئے چھاپے کی بابت مجھ ایسے جھکی ذہنوں میں کئی اور سوالات بھی امڈے ہیں۔ ہماری توجہ چسکے کی جانب موڑنے کے لئے مگر ایک اور آڈیو لیک ہوگئی۔ ”ایک بیس“پر اصرار کرنے والی مذکورہ لیک کی نمایاں آواز کی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تصدیق فرمادی ہے۔وہ مانتے ہیں کہ آواز ان کے بیٹے کی ہے مگر ان سے منسوب الفاظ سے کھلواڑ ہوا۔کیوں اور کیسے؟ یہ بتانا انہوں نے ضروری تصور نہیں کیا۔
جو آڈیو لیک ہوئی ہے اس نے پیغام مجھے فقط یہ دیا ہے کہ آئندہ انتخاب کے لئے تحریک انصاف کا ٹکٹ رش لے رہا ہے۔کاش میں ”سیدھی راہ“ پر چل رہا ہوتا۔ زمان پارک کے اردگرد منڈلاتا رہتا۔خان صاحب میری نیک چلنی سے خوش رہتے۔ ان کی قربت کا ٹہکا شہکا میسر ہوجاتاتو ایک آدھ ٹکٹ دلوانے میں حصہ ڈال کر بڑھاپے میں نازل ہوئی تنگ دستی کے افاقہ کی صورت دریافت کرلیتا۔ وائے قسمت ایک بار پھر ناکام رہا۔