آگ بچے لگاتے ہیں لیکن جلتے ماں باپ ہیں

ابھی پچھلے مہینے کی بات ہے عمران خان کے بھانجے حسن نیازی کو گرفتار کیا گیا تو ان کے والد حفیظ اللہ نیازی جیلوں اور عدالتوں میں ان کی ضمانت کے لیے خوار ہوتے ہوئے نظر آئے۔ دونوں کا آپس میں سیاسی اختلاف ہے۔ حسن نیازی اپنے ماموں کے سیاسی و نظریاتی کارکن ہیں جب کہ حفیظ اللہ نیازی کو عمران خان کی سیاست سے شدید اختلافات ہیں ۔ لیکن جب اولاد پر مشکل آتی ہے تو باپ تمام وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی اولاد کے لیے پریشان ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست بے رحم ہوتی ہے ۔ حسن نیازی کی گرفتاری سے لے کر ضمانت تک عمران خان کہیں بھی نظر نہیں آئے ۔جب کہ والد در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے دوسرے درجے کی قیادت بھی صرف تصاویر تک محدود رہی ۔

گزشتہ چار دنوں میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے پورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو جلایا ، توڑ پھوڑ کی ۔ گاڑیوں کو آگ لگائی۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخی عمارت کو جلا کر سارے ریکارڈ کو ختم کر دیا۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر کو لوٹا ۔ جی ایچ کیو پر حملہ کیا۔ سیکیورٹی فورسز کو گالیاں دیں اور ان پر تشدد کیا۔ اس سارے عمل میں آپ کو کہیں بھی پی ٹی آئی کی قیادت کہیں نظر نہیں آئی۔ جب کہ اسد عمر نے بیان دیا کہ حملہ کرنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ جب کہ ویڈیوز میں نظر آنے والے کئی افراد پی ٹی آئی کے ورکرز ہیں۔۔ جو عمران خان کی ضمانت کے ساتھ اختتام پزیر ہو گئی ۔

عمران خان نے باہر آتے ہی ان تمام واقعات سے برات کا اعلان کیا۔ انہوں نے عدالت کو واضح کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے ۔ یہ سارے نوجوان بچے جو سینکڑوں کی تعداد میں ہر دن گرفتار ہو رہے ہیں ۔ ان کا کیا ہوگا۔ ان پر دہشت گردی اور سرکاری املاک کو نقصان پینچانے کی ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔ یہ سب حوالات یا جیل میں ہوں گے ۔ کسی کا والد یا والدہ ان کے لیے کھانا لے کر تھانے جا ئے گا ۔ پولیس کو رشوت دینے کے لیے پیسوں کا انتظام کر رہا ہو گا ۔ کسی کی ماں پریشان میں گھل گھل کر رو رہی ہو گی کہ میرا بیٹا یا بیٹی کہاں پر سوئے ہوں گے۔ ان پر کوئی تشدد تو نہ ہوا ہوگا۔

کوئی والد ، بھائی یا چچا رشوت کے ساتھ ساتھ کوئی ریفرنس ڈھونڈ رے ہوں گے ۔ کہ کوئی تعلق نکلے تو جیل کے دن آسانی سے گزر جائیں ۔ کوئی شادی شدہ ہوا تو اس کے بیوی بچے پریشان ہوں گے ۔ وکیلوں کا انتظام ہو رہا ہوگا ۔ والدین اور بیوی بچے اپنوں کے لیے تھانوں ، جیلوں اور عدالتوں میں زلیل و خوار ہو رہے ہوں گے ۔

وہ سیاسی رہنما جن کے اکسانے پر انہوں نے یہ سب کیا ہو گا ۔ ان کے فون نمبر بند ہوں گے ۔ یا وہ بہت مصروف ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب ان لڑکے لڑکیوں کے والدین متعلقہ سیاسی قیادت سے اپنے بچوں کی ضمانت کے لیے مدد مانگنے گئے ہوں تو ان سیاسیوں نے ان کو پہچاننے سے ہی انکار کر دیا ہو۔

اب ان احتجاج کرنے والوں کے والدین، بیوی ، بچے دن رات پریشان ہو گے۔ اور دنوں، مہینوں اور سالوں تک مقدمات کی پیروی کریں گے۔ پیسہ اور سکون دونوں کی قربانی دیں گے ۔ کسی کی ضمانت ہو گی۔ کسی کوجیل ہو جائے گی اور کوئی بری ہو جائے گا۔ تینوں صورتوں میں ان سب کا قانونی ریکارڈ اور مقصد زندگی ہمیشہ کے لیے برباد ہو چکا ہوں گے۔ اس سارے تشدد میں جو ہلاک ہو گا ۔ اس کے پچھلوں پر کیا گزرے گی ۔ وہ ناقابل بیان ہے۔ رہ جانے والی بیویاں عین جوانی میں بیوہ ہو جائیں گی۔ اور بچے ہمیشہ کے لیے یتیم ہو جائیں گے ۔

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد شاید ایسے کمنٹس ملیں کہ نظریے کے لیے قربا نی تو دینی پڑتی ہے ۔ سیاسی جدوجہد میں جیلوں میں جانا پڑتا ہے ۔ جی بلکل ایسا ہی ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ سیاسی جدوجہد میں ایسے سیاسی قائدین کے آلہ کار بنیں جو آپ کو تشدد پر اکسا کر اور استعمال کر کے چھوڑ دیں؟ جو آپ سے ملنے جیل تک نہ آ سکیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ اس سیاسی کشمکش میں جلاوٗ اور گھیراوٗ کیا جائے ۔ اپنے ملک کے قیمتی اثاثوں کو تباہ کر دیا جائے؟ ایک جمہوری نظام میں یہ سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی تربیت کرتے ہیں اور انہیں حقوق و فرائض سے آگاہ رکھتے ہیں ۔

سیاسی پارٹیاں بنانا، ان میں شمولیت اختیار کرنا، احتجاج کرنا ، آزادی اظہار رائے ، اور اجتماع کرنا بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ لیکن ان حقوق کو استعمال کرتے ہوئے املاک کو جلانا ، سیکیورٹی فورسز پر حملےکرنا، کسی کی ساری زندگی کی محنت سے خریدی گئی گاڑی کو جلا دینا آپ کا حق نہیں بلکہ جرم ہے۔ دوسری طرف انتظامیہ کی طرف سے دفعہ 144 نافذ‌کر کے اختیارات سے تجاوز کرنا ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سروسز بند کرنا ، میڈیا پر سنسر شپ لگانا اور مظاہرین کو مشتعل کر کے تشدد کرنا اور ان کو ہراس کر کے سافٹ وئیر اپڈیٹ کے نام پر ویڈیو بیانات ریکارڈ کروانا بنیادی انسانی حقوق کی سخت ترین خٌلاف ورزیاں ہیں .

ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ نہ تو آپ عمران خان ہیں ،نہ پرویز مشرف ہیں اور نہ نواز شریف کہ کوئی بھی جرم کر لیا تو عدالتیں آپ کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاوٗ کریں گی ۔ اس ملک میں قانون صرف امیر کی پروٹیکشن اور غریب کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے بنا ہے ۔

المیہ یہ ہے کہ آگ تو بچے لگاتے ہیں لیکن بچوں کی لگائی ہوئی آگ میں ماں اور باپ جلتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے