خواتین کے مسائل اور خاندانی جرگے

آج بھی خواتین کے بارے میں بے شمار مسائل کے فیصلے خاندانی جرگوں میں ہی طے پائے جاتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جاتی قانونی مدد نہ لی جائے۔

زبیدہ بی بی ایک ایسی خاتون ہیں جن کو آٹھ سال قبل ان کے خاوند نے غصے میں طلاق دے دی تھی اس وقت ان کا چھوٹا بیٹاچھ مہینے کا تھا اور باقی دو بیٹے بڑے تھے. زبیدہ کا تعلق مری کے علاقے سے ہے ، خاندان کے لوگوں نے مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کیا ۔ اس سلسلے میں خاندانی جرگے نے فیصلہ کیا کہ دو بڑے بچوں کو خاوند کے حوالے جبکہ چھوٹے بیٹے جو کہ کو زبیدہ کے سپرد کر دیا جائے ۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے زبیدہ نے بتایا کہ خاندانی جرگہ نے یہ طے کیا کہ کہ اس ایک بچے کا نان و نفقہ زبیدہ کو نہیں دیا جائے گا اور بدلے میں یہ بچہ اسے لکھ کر دے دیا گیا .آج جب کہ اس کے بیٹے کی عمر تقریبا آٹھ برس کی ہوچکی ہے اور اس کے تعلیمی اخراجات بھی ہیں ۔لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی کی مدد کر سکےنہ ہی خاوند کی طرف سےکوئی نان و نفقہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی رشتہ داروں میں سے کوئی مدد کو آگے بڑھتا ہے۔

یہاں یہ ماں اس وقت زیادہ دکھی ہو جاتی ہے جب مہینوں گزر جاتے ہیں اور وہ اپنے دو بڑےبچوں کو نہیں مل پاتی۔ خاتون نے دکھی آواز میں بتایا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کو گرمیوں میں آخری دفعہ ملی تھی اور اس کے بعد اس نے اسے نہیں دیکھا ۔یہ خاتون آج گھروں میں کام کرتی ہیں تاکہ اپنے بیٹے جو کہ ان کے پاس ہے کے تعلیمی اخراجات پورے کر سکے.

خاتون نے مزید بتایا کہ کہ اس نے جرگے کو یہ بھی لکھ کر دیا تھا کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گی تاکہ چھوٹا بیٹا اس کو دے دیا جائے۔خاتون کہتی ہیں کہ آج کی مہنگائی میں ایک بچے کے اخراجات پورا کرنا بہت مشکل ہے، وہ پڑھی لکھی بھی نہیں ہے کہ کوئی بہتر کام کر سکے ۔ وہ بتاتی ہیں کہ بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ان کی مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کہ ان کا ایک بیٹا نند کے پاس رہتا ہے جبکہ دوسرا سابقہ خاوند کے پاس ہے ۔ زبیدہ کی طرح ایسی بہت سی خواتین ہیں جن کے مسائل کو خاندانی جرگوں میں اور مل بیٹھ کر حل کیا جاتا ہے اور خواتین کی بڑی تعداد جو کہ پڑھی لکھی نہیں ہے ان کو سمجھ نہیں آتی کہ قانونی طور پران کے کیا حقوق ہیں۔

خاتون نے بتایا کہ ان کے والدین نہیں ہیں اس لیے انہوں نے عدت اپنے بڑے بھائی کے گھر گزاری ۔ان کے بھائیوں کے بھی بچے ہیں جس کی وجہ سےانھیں بہت سے مسائل کا سامنا تھا ۔ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ طلاق یافتہ خواتین کو منفی رویوں کا سامنا بھی رہتا ۔ لہذا زبیدہ نے 3000 کرایہ پر ایک کمرہ لیا اور لوگوں کے گھروں میں کام شروع کر دیا تاکہ اپنے بیٹے کی کفالت کرسکیں۔

شادی , پسند کی شادی, زمین کا جھگڑا ہو یا کاروکاری کا معاملہ دہی علاقوں خاص طور پر صوبہ سر حد اور پشاور میں خواتین کے مسائل کو حل کرنے کا واحد طریقہ جرگہ سے رجوع کرنا ہے ۔ گھریلو مسائل ،میاں بیوی میں نا چا کی ہو یا طلاق کا معاملہ ان مسائل کو بھی خاندانی جرگوں میں حل کیا جاتا ہے ۔ جرگہ جو بھی فیصلہ سنا تا ہے اس پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے ۔ جرگے میں دونوں فریقین کے نمائندے شامل ہوتے ہیں اور ان کی رائے کو مدنظر رکھ کے فیصلہ جرگے کے اراکین کرتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق پر بے شمار تنظیمیں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مختلف علاقوں میں کام کر رہی ہیں لیکن اب بھی خواتین میں ان کے حقوق کی بیداری کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے حالات کو سمجھیں اور اپنے لئے صحیح فیصلہ کر سکیں ۔بیشتر خواتین کا تعلق غریب گھرانوں یا اوسط آمدنی والے گھرانوں سے ہوتا ہے، اس لئے وہ عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکا سکتیں اور نہ ہی ان کو اتنا شعور ہوتا ہے کہ وہ عدالتوں کے چکر لگائیں۔ اس لئے بھی مقامی جرگے سے رجوع کرتی ہیں ۔

بہت سے مسائل کے بارے میں لوگوں کی رائے ہوتی ہے کہ گھر میں ہی معاملات طے کر لیے جائیں اور جرگوں میں بھی جانے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔ اور گھر کے بڑے مل کر فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ماہر قوانین کے مطابق خواتین کواگر قانونی مدد مل بھی جائے تو مقدموں کے فیصلوں میں بہت سارا وقت لگ جاتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ خواتین کا تھانوں اور کورٹ کچہریوں میں جانا اچھا نہیں سمجھتے جس کی بڑی وجہ وہاں کا ماحول بھی ہوتا ہے۔ نتیجتا خو اتین اپنی رائے اور خواہش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے بڑوں اور جرگوں کے فیصلوں کو مان لیتی ہیں۔ چاہے اس کے لئے ان کو کتنی ہی قربانی اور آزمائشوں سے نہ گزرنا پڑے۔ خاص طور پر طلاق یافتہ عورتوں کے لئے بچوں کے مسائل اور ان کا نان و نفقہ ایک ایسی چیز ہے جو اگر صحیح طور پر طے نہ کیا جائے تو ان کو عملی زندگی میں بے شمار مسائل اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی اذیت کو وہ خود ہی جان سکتی ہیں نہ کہ وہ لوگ جو ان کے بارے میں فیصلےکرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے