افغان مہاجرین کے لیے ایک نمکین آنسو

اگر آپ ہجرت کے صدمے سے تین بار گزرنے والے خانوادے سے تعلق رکھتے ہو، اور تمام جیون جسے اپنا سمجھ کر کے گزارا ہو ، ان کے سفاک رویوں کا کئی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرتے ہو، اور جس مٹی کی محبت میں آشفتہ سری کی ہو اور پھر بھی اجنبی ، مہاجر ‘ مکر ‘ اور نجانے کن کن القاب سے تمسخر اڑانے کا خام مال بن جائیں تو آپ میں کئی طرح کی کیفیات پیدا ہو سکتی ہیں ۔

دو خاص کیفیات یا جن کو چوائسس کے زمرے میں بھی ڈالا جا سکتا ہے یہ ہیں

١: آپ ان تمام لوگوں اور قومیتوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں جو آپ کو ہرٹ کرتے ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش میں مخالف کو بھی کچھ نہ کچھ نقصان دیتے ہیں مگر خود بھی لہولہان ہو جاتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیتے ہیں

٢) اپ empathy جس کا اردو زبان میں مساوی مترادف تو نہیں لیکن آپ اس کو ہمدلی کہہ سکتے ہیں یعنی "دوسروں کا درد ان کی جگہ پر اپنے آپ کو رکھ کر محسسوس کرنا ” کی مشق سے گزر کر اپنا سکتے ہیں اس راستے کو جس پر کم لوگ چل پاتے ہیں ،کے بہت سے مشکلات ہیں. لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کافی تعصبات کی قید سے آزاد ہو جاتیں ہیں اور بھلا آزادی سے زیادہ قیمتی اثاثہ کیا ہو سکتا ہے ان کے لیے جو محبت کو فاتح عالم مانتے ہیں

ذاتی طور پر اپنی بے وقعت بہاری شناخت کے باوجود میں تمام عمر ٫٫ہمدلی ،،کے فلسفے کو اپنانے کی سعی کرتی رہی. اس کی وجہ میری خوش نصیبی ہے . جس کا منطقی سرا مرے ننھیالی نسب سے جا ملتا ہے جس کا آغاز سید ابراہیم عرف ملک بیا رحمة الله سے ہوتا ہے جو نہ صرف بزرگ تھے بلکہ اپنی شجاعت اور دیانتداری کی وجہ سے محمّد تغلق بادشاہ کے سپہ سالار فائز ہوئے تھے ،وہ بغداد سے ہجرت کرکے بت نگر’ غزنی گیے تھے اور وہاں سے ١٣٣٩ میں ہندوستان ہجرت کی.

اسی طرح اس خوش نصیبی کا تعلق میرے مرحوم والد کی روشن خیالی، انسانیت پر ایمان اور علم دوستی سے بھی ہے کہ بچپن سے اپنے گھر میں مختلف خیالات ،زبان ،بولی اور مسالک سے منسلک افراد کو ان کے احباب کا حصّہ دیکھا ،

میری انسان دوستی اور دردمندی میں اس تعلیم اور تربیت اور آگاہی کا بھی دخل ہے جو میں نے دنیا کی 16 درسگاہوں اور چار براعظموں سے حاصل کی. اور شاید 30 سال کے ملازمتوں کے باقاعدہ تجربات بھی شامل ہیں جن میں آفت زدہ علاقوں میں مصیبت کے ماروں کے ساتھ کام کرنا اور عالمی طاقتوں کی بےحسی اور دھوکے بازیوں کو اچھی انگریزی میں ڈپلومیٹک طریقے سے قلمبند کرنا بھی شامل رہا اور جہاں ایسا کرنے میں ناکام رہی وہاں نتائج بھی بھگتنا پڑا. مگر درددل اور انسانیات پرستی جب عشق کی صورت اختیار کر لے تو یہ سب کچھ کھیل لگتا ہے جس میں دنیاوی طور پر ہار ہو یا جیت لیکن بازی مات نہیں ہوتی۔

لہٰذا ہمیشہ سچ بولنا چاہیے . ایک ایسے قوم کے سامنے بھی جو کرکٹ جیسے کھیل کو تو جنگ سمجھ کر دیکھتی ہے مگر جنگ کو چاہےوہ سابقہ مشرقی پاکستان میں ہو یا موجودہ پاکستان میں غالباً کھیل تماشا ہی جانتی ہے. لیکن جیتے جاگتے لوگوں کو لاوارثوں کو بے بسوں کو بے وطنوں کو کسی شطرنج کی بساط کا مہرہ نہیں بنانا چاہیے۔

حقوق کے لیے بات کرنا چاہے کوئی سنے یا نا سنے پر میرا یہی فرض ہے . ہر مظلوم کی بات کرنا چایے . سلیکٹیو ایکٹیویزم کر کے شہرت ،دولت اور عہدے تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن انسانی حقوق کا چیمپیئن بننا ایک ذمےداری کی بات ہے فیمنزم بھی سماجی انصاف اور برابری کا نام ہے. دنیا دیکھیں ایک طرف ہیروشیما ناگاساکی کے متاثرین کے ساتھ بھی روئی ‘روانڈا میں ہونے والے ظلم پر بھی دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا، سکالر شپ کے پیسوں سے ایمسٹرڈیم میں این فرینک ہاؤس دیکھا ان کی ڈائری پڑھ کر دل بہت اداس ہوا تھا‘ افغان’ شیعہ’ ہزارہ ‘ کرسچین ‘ احمدی’ ان سب کی حق تلفیوں پر کڑھتے ہوئے ماتم کرتے ہوئے عمر بیتی ہے، اور ان کے ساتھ رہی ہوں اور رہوں گی.
کبھی بہاری بن کر نہیں سوچا اور ہاں پچھلے چند سالوں سے میں بنگلہ دیش میں محصور اس بے بس بے نوا کمیونٹی کے لیے لکھ رہی ہوں اور بہت کم اخبارات نے مجھے چھاپا ہے. سوشل میڈیا پر آج تک گنتی کے چند بہادر لوگوں کے سوا کسی مایہ ناز فیمنسٹ یا رائٹس ایکٹوسٹ نے سپورٹ نہیں کیا. حالانکہ ہزاروں مجھ کو جانتے ہیں –

– دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

آج جب کسی نے بہت گہری چال چل کے نہ صرف میرے وطن پاکستان کو دنیا بھر کی تنقید کا نشانہ بنا دیا ہےاور ایلیٹ کلب کو ہمیشہ کی طرح محفوظ رکھ کر غریب ،مظلوم ،مجبور افغان بے وطنوں پر بجلی گرائی ہے تو میں گریہ ضرور کرنا چاہوں گی .اپنے زخم بھی یاد آتے ہیں اور سخت سردی میں پتھریلی راہوں کی مسافتوں کا ادراک بھی رلا رہا ہے. مگر میرے پاس شاید آنسو کم پڑ گئے ہیں. شائد میں بھی کچھ خوفزدہ ہوں. شاہد میں بھی کہیں پر کم ظرفی کا شکار ہو گئی ہوں. ہم ایک جنم میں کتنے جنم کا جیون جیتے ہیں یا مرنے سے پہلے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے کتنی بار مرتے ہیں اس کا حساب تو میں نہیں کر سکتی لیکن موقع تو ہے کہ پاکستان کے ارباب اقتدار سے سوال کرنے کا مگر….. چلیں نگران وزیر اعظم سے جو جن سے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے ہم کورس ہونے کا رشتہ ہے لیجنڈ طارق عزیز نیلام گھر والے کے سٹائل میں کہنا چاہتی ہو کہ

د غلطي ګنجايش نيشته یعنی مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔
رہی بات غیر قانونی طور پر’ غیر قانونی کہہ کر’ طالبان کے آگے ڈال دیے جانے والے غریب الوطن بچوں بچیوں عورتوں اور خاندانوں کی تو بے حد شرمنده ہو کر لکھ رہیں ہوں کہ میرے

شکستہ دل نے ایک آنسو چھپا کر رکھا تھا اس کا ذائقہ نمکین ہے وہ آپ کے نام۔

پس تحریر : کلینکل پریکٹس کے زمانے میں میرے افغانستان اور پاکستان کے پشتون مریض مجھ کو ډاکټر کہتے تھے

رخشندہ پروین ایک ماہر صنفی امور اور ادیبہ ہیں اس کے علاوہ وہ PTV کے live morning شوز اور کرنٹ افیئرز شوز کی پہلی خاتون اینکر بھی رہ چکی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے