پردہ اردوزبان کا لفظ ہے۔عربی میں اس حوالے سے وہ دو ”حجاب‘ اور ”سترحجاب“ کالفظ قرآن مجید میں ہے جبکہ سترہمارے فقہی ذخیرے میں بہت زیادہ مستعمل ہے۔پردے کی لغوی معنی اوٹ یاآڑ کے ہیں۔
پردہ اردوزبان کا لفظ ہے۔عربی میں اس حوالے سے وہ دو”حجاب‘اور”سترحجاب“ کالفظ قرآن مجید میں ہے جبکہ سترہمارے فقہی ذخیرے میں بہت زیادہ مستعمل ہے۔پردے کی لغوی معنی اوٹ یاآڑ کے ہیں۔پردہ بذات خودکوئی دینی اصطلاح نہیں ہے اس لئے حجاب کے حوالے سے بات کرتے وقت ہمیں لفظ چہرے کااضافہ کرناپڑتاہے کہ چہرے کاپردہ۔
ستراور حجاب ہم معنی بھی استعمال ہوتے ہیں۔حجاب یہ ہے کہ نامحرم افرادکے سامنے کس طرح چہرے کوبھی ڈھانپ کرآناہے جبکہ ستریہ ہے کہ محرم افراد کے سامنے کس طرح جسم کوڈھانپناہے۔فقہی اور شرعی اصطلاح درحقیقت سترہی ہے۔ جس کی کچھ درجہ بندی کی گئی ہے۔اسلام نے پردے کے احکامات کی بنیاد اصلامحرم اور نامحرم پررکھی ہے۔محرم افرادکے سامنے آتے ہوئے اسلام ایک مومنہ خاتون کویہ ہدایت دیتاہے کہ وہ اپنے جسم کے تمام اعضاء کوڈھانپ کررکھے البتہ چہرے کی ٹکیہ ہاتھ اور پاؤں کوکھلارکھاجاسکتاہے۔اس میں بھی خاتون خانہ کی گھریلو مصروفیات اور ضروریات کومدنظررکھتے ہوئے۔
نامحرم افراد کے سامنے عورت کواپنے چہرے کوبھی ڈھانپناہے۔اگرفتنے کااندیشہ ہوتوپھرہاتھ اور پاؤں پردستانے اور جرابیں پہننابھی مستحب ہے جبکہ واجبی پردہ کوئی شرعی اصطلاح تونہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہماری تہذیب میں جو تبدیلیاں آئیں معاشرے کے جومعیارات قائم ہوئے اس کے تحت یہ چیزبہت زیادہ پھیل گئی اور لوگوں نے اسی کوپردہ سمجھ لیا۔
اس سے مرادوہی لی جانے لگی جوشریعت میں آیاہے۔چنانچہ اس کوواضح کرنے کیلئے عصرحاضر میں بعض علماء نے یہ اصطلاح استعمال کی کہ شرعی پردہ صرف یہی نہیں ہے کہ خواتین باہرنامحرموں سے پردہ کرلیں بلکہ اگرگھرمیں بھی ان کے کوئی نامحرم رشتہ دارہیں توان سے بھی ان کوپردہ کرناچاہئے۔امت کوعمومی موقف یہی ہے کہ چہرے کاپردہ واجب ہے۔اس کی تفصیلات کے ضمن میں بعض فقہاء نے یہ شرط لگائی کہ فتنے کے وقت واجب ہے ورنہ مستحب جبکہ بعض فقہاء کے نزدیک چہرے کاپردہ علی الاطلاق واجب ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے مولاناشیرانی کابیان یہ تھاکہ چہرے کاپردہ مستحب ہے۔مستحب کے حوالے سے ہمارے ہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کام نہیں کرناچاہئے۔البتہ وفاتی شرعی عدالت کے فقہی مشیر ڈاکٹرمحمداسلم خاکی کابیان زیادہ محل نظر ہے۔ ان کابیان کہ چہرہ کھلارکھنامسلمان خواتین کیلئے واجب ہماری امت کی پوری تاریخ میں کبھی بھی کسی مکتب فکرکی طرف سے یا انفرادی طورپربھی کسی فقہی رائے کے طورپرہمارے سامنے نہیں آیا۔
قرآن میں سورة الاحزاب کی آیات بہت واضح ہیں۔آیت کے آغازمیں فرمایاگیا”اے نبیﷺ اپنی بیویوں‘اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی خواتین سے کہہ دیجئے“یہ عمومی حکم ہے صرف ازواج مطہرات کیلئے خاص نہیں ہے۔آگے فرمایا گیا ”وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کاایک حصہ لٹکالیاکریں۔عصرحاضر میں علامہ البانی نے کہاہے کہ یہاں یہ مرادتویہی ہے کہ وہ اپنا چہرہ اوڑھ لیں لیکن یہ حکم استحباب کے معانی میں ہے فرض کے معانی میں نہیں ہے۔تاہم اکثریت اس رائے کی قائل نہیں ہے۔ آگے جوآیات ہیں خاکی صاحب نے وہاں سے دلیل لی ہے۔یہ اس سے نزدیک ترہے کہ وہ پہچان لی جائیں توانہیں کوئی ایذاء پہنچائی جائے۔
ڈاکٹرسلم خاکی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جویہ کہاہے کہ وہ پہچانی جائیں تواس سے ظاہرہے کہ ان کاچہرہ کھلاہوگاتووہ پہچانی جائیں گی۔ عرب محاورے میں چہرے کوڈھانکنے کے معانی میں یہی الفاظ استعمال ہوتے تھے۔اس ضمن میں صحیح بخاری کی ایک روایت بالکل واضح ہے جس میں واقعہ افک کاذکر ہے۔یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں کہ فحجرت وجھی بجلبابی یعنی میں نے اپنے جلباب سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔گویاانہوں نے قرآن کی اصطلاح جلباب استعمال کی۔ حضرت عائشہ نے یہ کہا کہ چونکہ آیات حجاب کے آنے سے پہلے حضرت صفوان مجھے دیکھ چکے تھے۔اس لئے انہوں نے مجھے پہچان لیا۔یہ روایت اس امرکی دلیل ہے کہ آیات حجاب کے نزدول کے بعد عہدنبوی کی صحابیات چہرے کاپردہ کررہی تھیں۔
آج بہت سی خواتین محض اپنی شناخت چھپانے کیلئے پردے کاسہارالیتی ہیں۔اب برقع یاپردہ اس بات کی پہچان نہیں رہ گیا کہ یہ محصنہ خواتین ہیں؟اگرتواس کواللہ کاایک حکم سمجھ کراس پرعمل کیاجارہا ہے تواللہ کے ہاں اس کااجروثواب ہے لیکن اگرکوئی لڑکی اپنے کرتوتوں پرپردہ ڈالنے کے لئے یاباہر کسی مردسے ملنے کے لئے گھرسے برقع پہن کرنکلتی ہے تووہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کررہی ہے اور یہ پردہ اس کوکوئی فائدہ پہنچانے والانہیں ہے۔
ایک زمانے میں خماراور جلباب یہ دوچادروں کی صورتیں تھیں جواس زمانے میں استعمال ہواکرتی تھیں۔اسی کی ایک جدید ترقی یافتہ صورت برقع ہے جس میں باقاعدہ سلاہواکپڑاجسم پرپہنچ ہوئے کپڑوں کے اوپرپہن لیاجاتاہے۔اس کے علاوہ اگربڑی سی اوڑھنی یاچادرکے ذریعے سے بھی یہ مقصد پوراہوجاتاہے کہ پوراجسم ڈھانپ لیاجائے سوائے آنکھوں کے تواچھی بات ہے۔
برقع میں آج کل بڑھ ڈیزائن آگئے ہیں۔اس سے یہ معاملہ پردے کی اصل روح سے متصادم نہیں ہوگیا۔پردے کااصل مقصد تو یہ تھا کہ وہ اپنی زیب وینت جوچھپائے ۔اگراس میں بھی زیب وزینت ہے توپھرمقصدفوت ہوگیا۔زیب وزینت کواگرمتعین کیاجائے توایک تویہ کہ جسم کی ہیت اور اس کی رنگت نہ جھلکتی ہواسی طرح سے کپڑوں کی زیب وزنیت اور چورکچھ بقیہ زیب وزینت کااہتمام کیا گیا ہے ان سب کوڈھانپ لیاجائے یہ اصل مقصدہے۔